پنکج ملک

محمد ابراہیم ضیا  جمعـء 31 اگست 2012
ماضی کے معروف موسیقار، گایک اور اداکار، جن کے فن کا سفر خاموش فلموں سے شروع ہوا۔ فوٹو: فائل

ماضی کے معروف موسیقار، گایک اور اداکار، جن کے فن کا سفر خاموش فلموں سے شروع ہوا۔ فوٹو: فائل

سرزمینِ بنگال کی مٹی سے جنم لینے والے نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار پنکج کمار ملک 20 مئی 1905 کو موہن کمار ملک کے گھر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے موسیقی سے گہرا لگائو تھا۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نام ور موسیقار درگا داس بینرجی کی شاگردی اختیار کی، جلد ہی ان کا شمار بینرجی کے ہونہار شاگردوں میں ہونے لگا۔

ملک نے اپنے فنی کیریر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو کلکتہ سے کیا اور ریڈیو کے شعبۂ موسیقی میں بہ طور کمپوزر اور پروڈیوسر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1926 میں ان کا پہلا ریکارڈ ریلیز ہوا۔ 1930 میں انھوں نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ یہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ تاہم ناظرین کی دل چسپی کے لیے فلم کے سین کی مناسبت سے لائیو میوزک بجایا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے سنیما میں سازندے شو کے دوران ساز بجایا کرتے تھے۔

ملک نے کلکتہ کے ایک فلمی ادارے انٹرنیشنل فلم کرافٹ کی خاموش فلموں ’’چور کانتا اور چاشرمئی‘‘ وغیرہ کے لیے ایسی ہی موسیقی موزوں کرکے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا (اس ادارے کے مالک بی این سرکار تھے) 1931 میں بولتی فلموں کا دور شروع ہوگیا، یوں فلمی دنیا میں آمد کے ایک سال بعد ہی وہ فلموں میں موسیقی دینے لگے۔

1932 میں پنکج ملک نے بی این کمار کے مشہور فلمی ادارے نیو تھیٹرز میں ملازمت اختیار کرلی اور اس ادارے کی ایک بولتی فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے ہدایت کار پی اٹارتھی تھے۔ اداکاروں میں رتن بائی، کمار، سہگل، نواب، غلام محمد اور پہاڑی سانیال نمایاں تھے۔ یہ فلم 1933 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں سہگل کے گائے ہوئے یہ گیت بے حد مقبول ہوئے:

یہ تصرف اﷲ اﷲ تیرے میخانے میں ہے
اور
نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

اس فلم کی شان دار کام یابی کے بعد پنکج ملک نے نیو تھیٹرز کی فلموں دھوپ چھائوں اور مکتی وغیرہ کی موسیقی ترتیب دی۔ فلم دھوپ چھائوں کے ہدایت کار نتن بوس، جب کہ فلم مکتی کے ہدایت پی سی بروا تھے۔

فلم دھوپ چھائوں میں سہگل کی آواز میں یہ گیت مشہور ہوئے:

پریم نگر میں بنائوں گا گھرمیں
جیون کا سکھ آج پربھو مورے
اور
مورکھ من ہووت کیوں حیران

فلم مکتی میں ان کا گایا ہوا یہ گیت پسند کیا گیا:

کون دیس ہے جانا مسافر

ان کے علاوہ ملک نے نیو تھیٹرز کی ایک فلم ’’منزل‘‘ میں آرسی بورال کی موسیقی میں یہ گیت گایا تھا، ’’سندر ناری پریتم پیاری۔‘‘ 1938 میں پنکج ملک نے نیو تھیٹرز کی فلموں ادھیکار اور دھرتی ماتا وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ فلم ادھیکار کے ہدایت کار پی سی بروا، جب کہ فلم دھرتی ماتا کے ہدایت کار نتن بوس تھے۔

فلم ادھیکار میں پنکج ملک نے جمنا اور بروا کے ساتھ ایک کردار بھی ادا کیا۔ اس فلم میں ان کے گائے ہوئے یہ گیت مشہور ہوئے:

برکھا کی رُت آئی موسم نے لی انگڑائی
اور
کہاں ہیں وہ میرے بچپن کے دن

فلم دھرتی ماتا کے لیے پنکج ملک نے اوما دیوی اور سہگل کے ساتھ یہ گیت گایا، جو بے حد مقبول ہوا، ’’دنیا رنگ رنگیلی بابا دنیا رنگ رنگیلی‘‘۔ 1939 میں انھوں نے نیو تھیٹرز کی فلموں بڑی دیدی، دشمن اور کپال کنڈلا وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ فلم ’’بڑی دیدی‘‘ کے ہدایت امر ملک، فلم دشمن کے نتن بوس جب کہ فلم کپال کنڈلا کے فانی موجمدار تھے۔ فلم دشمن میں پنکج ملک کے گیت ’’کروں کیا آس نراش بھئی‘‘ اور ’’پریت میں جیون جوکھوں مورکھ‘‘ شامل تھے، جب کہ اسی فلم میں سہگل کی آواز میں گیت ’’ستم تھے، ظلم تھے، آفت تھے انتظار کے دن‘‘ شامل تھا۔ فلم کپال کنڈلا کے لیے پنکج ملک نے گیت ’’پیا ملن کو جانا ہاں، سکھ کی آس، من کی موج دونوں کو نبھانا‘‘ اور ’’یوں درد بھرے دل کی تمنّا تم ہی سے ہے‘‘ گائے۔

1940 میں ملک نے نیو تھیٹرز کی فلموں نرتکی اور زندگی وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ فلم نرتکی کے ہدایت کار دیو کی بوس جب کہ فلم زندگی کے پی سی بروا تھے۔ فلم نرتکی میں پنکج ملک کے گیت ’’یہ کون آج آیا سویرے سویرے‘‘، ’’پریم کا ناتا ٹوٹا کون تجھے سمجھاوے‘‘ اور ’’مدھ بھری رت جوان ہے‘‘ مقبول ہوئے۔ فلم زندگی میں سہگل کے یہ گیت بے حد پسند کیے گئے، ’’سوجا راج کماری سوجا، سوجا میں بلہاری سوجا‘‘، ’’میں کیا جانوں کیا جادو ہے ان دو متوالے نینوں میں، جادو ہے۔‘‘

ان کے علاوہ پنکج ملک نے ایسوسی ایٹڈ پروڈکشنز کی فلم ’’آندھی‘‘ میں خورشید اور مزمل کے ساتھ بہ طور معاون اداکار کام کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار دنیش رنجن داس اور موسیقار کے سی ڈے تھے۔ اس فلم میں پنکج ملک کے گائے ہوئے یہ گیت مقبول ہوئے، ’’برج کے راجن موہ کے مورکھ‘‘، ’’آشا نے کھیل رچایا کیسے‘‘، ’’ترچھی ادائوں سے بہکی نگاہوں سے۔‘‘

1941 میں پنکج ملک نے نیو تھیٹرز کی ایک فلم ’’ڈاکٹر‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کے علاوہ اس فلم میں بھارتی دیوی اور آمندر چودھری کے ساتھ ایک اہم کردار بھی ادا کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار سبودھ مکرجی تھے۔ اس فلم میں پنکج ملک کے یہ گیت مقبول ہوئے،’’آئی بہار آج آئی بہار‘‘، ’’چلے پون کی چال جگ میں چلے پون کی چال‘‘، ’’مہک رہی ہے پھلواری‘‘۔ 1942 میں ملک نے نیو تھیٹرز کی فلموں میناکشی اور کاشی ناتھ وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ فلم میناکشی کے ہدایت کار مادھو بوس، جب کہ فلم کاشی ناتھ کے ہدایت کار نتن بوس تھے۔ فلم میناکشی میں کے سی ڈے کی آواز میں یہ گیت مشہور ہوئے:

من مورکھ کہنا مان
اور
کوئی لے لو بھیا تعویز

1944 میں پنکج ملک نے نیو تھیٹرز کی ایک فلم ’’میری بہن‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے ہدایت کار ہیم چندر تھے۔ اس فلم میں سہگل کے یہ گیت مقبول ہوئے:

دو نیناں متوارے تہارے ہم پر ظلم کریں
اور
چھپونا چھپونا او پیاری سجنیا ہم سے۔ ان کے علاوہ پنکج ملک نے کئی ایک بنگالی فلموں کی موسیقی بھی مرتب کی۔ تقسیم کے بعد انھوں نے نیو تھیٹرز کی کئی فلموں اونچ نیچ، چھوٹا بھائی، منظور، روپ کہانی، یاترک اور نیا سفر وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ ان کے علاوہ انھوں نے ایج فلمز کی فلم ’’چھوٹی ماں‘‘ اور اشوک فلمز کی فلم ’’چترنگدا‘‘ وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ ان فلموں کے ہدایت کار ہیم چندر تھے۔

1955 میں ملک نے سرکار پروڈکشنز کی ایک فلم ’’امر سہگل‘‘ کی موسیقی آر سی بورال اور تیمربرن کے اشتراک سے مرتب کی۔ اس فلم کے ہدایت کار نتن بوس تھے۔ یہ فلم آنجہانی کے ایل سہگل کی زندگی پر مبنی تھی۔ پنکج ملک نے ہیرآف کلکتہ کی فلموں کی موسیقی دی۔ وہ نیو تھیٹرز کے پیٹنٹ میوزیشن تھے۔ بمبئی میں انھوں نے صرف دو فلموں آرٹ فلمز آف اپیتا کی فلم زلزلہ اور سرگم پکچرز کی فلم کستوری وغیرہ کی موسیقی مرتب کی۔ فلم زلزلہ کے ہدایت کار پال زلز، جب کہ فلم کستوری کے ہدایت کار ورجیندر گوڑ تھے۔ یہ فلمیں تقسیم کے بعد 1953-54 میں ریلیز ہوئیں۔ فلم زلزلہ میں پنکج ملک اور ساتھیوں کا یہ کورس مشہور ہوا تھا:

ندیا بہتی جائے دھیرے دھیرے

فلم کستوری میں پنکج ملک کے یہ گیت مقبول ہوئے:

کہاں مہکی ہے کستوری
پہلے بھی آیا تھا اک طوفان
اور
کون کرتا ہے کسی کا انتظار

پنکج ملک 70 کی دہائی تک فلموں کی موسیقی دیتے رہے۔ انھوں نے ہندی کے علاوہ متعدد بنگالی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ 1972 میں ان کی آخری بنگالی فلم ’’بگلتا کروناجہاں جمنا‘‘ ریلیز ہوئی، جس کے بعد وہ فلمی دنیا سے ریٹائر ہوگئے تھے۔

فلمی دنیا سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کلکتہ ریڈیو اسٹیشن سے وابستہ ہوگئے تھے۔ جہاں وہ کئی برس ہر اتوار کی صبح 8 بجے باقاعدگی سے کلاسیکی موسیقی کا درس دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ پروگرام نہ صرف کلکتہ بلکہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی بہت شوق اور دل چسپی سے سنا جاتا تھا۔ کلکتہ ریڈیو سے بچّوں کو موسیقی سکھانے کا پروگرام بھی انھوں نے شروع کر رکھا تھا۔ وہ آخر دم تک ریڈیو سے وابستہ رہے۔

میسور کے مہاراجا جے ایم راجندر وڈیا ان کے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ مہاراجا اکثر انھیں دربار میں ہونے والی شاہی تقریبات میں مدعو کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بنگلور کے شہریوں کی جانب سے سرپٹن چپئی ٹائون ہال میں شام موسیقی کی ایک تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کے منتظم میسور کے وزیر ایم اے سری نواسن تھے۔ اس تقریب میں پنکج ملک کے علاوہ نام ور موسیقار آر سی بورال، کمل داس گپتا اور تیمر برن وغیرہ بھی مدعو تھے۔ تاہم یہ شام پنکج ملک ہی کے نام رہی۔ انھوں نے کلاسیکل موسیقی میں اپنی فن کارانہ مہارت اور دل کش گائیکی سے بنگلور کے شہریوں کو مسحور کردیا۔ پنکج ملک کے غیرفلمی گیتوں میں یہ گیت عوام میں بے حد مقبول ہوئے، بعد ازاں لتا جی نے یہ گیت گائے تھے:

یہ راتیں یہ موسم یہ ہنسنا ہنسانا، انھیں بھول جانا ہمیں نہ بھلانا
تیرے مندر کا ہوں دیپک جل رہا
یہ کون آج آیا سویرے سویرے
آئی بہار آہا آئی بہار

پنکج کمار کا انتقال 23 فروری 1978 کو کلکتہ میں ہوا۔ 1973 میں ان کی یادداشتیں ’’گانرسریر آسانکھنی‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شایع ہوئیں۔ 1980 میں ان کی سوانح حیات ’’امرجگ امرگان‘‘ کے عنوان سے چھپی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔