بے ثمر شجر کاری

اکرم ثاقب  منگل 17 ستمبر 2019
شجر کاری مہم میں کہیں بھی کوئی پھل دار درخت نہیں لگایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شجر کاری مہم میں کہیں بھی کوئی پھل دار درخت نہیں لگایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر شخص کو اب اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ ماحول کی خرابی سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ عوام میں یہ شعور اجاگر ہوچکا ہے کہ صاف ستھرا ماحول ہی ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کا ضامن ہے۔ اگر ہم صحت مند اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنا ہوگا۔ ماحولیاتی پاکیزگی کےلیے سب سے پہلے حکومت نے بہت بڑے اقدامات کا فیصلہ کیا۔ بلین ٹری نامی مہم کا آغاز کیا اور خیبرپختونخوا کو سرسبز اور شاداب بنانے کا پختہ ارادہ کیا۔

وفاقی حکومت نے ماحولیاتی میدان میں بہت کچھ اور مزید بہت کچھ کرنے کا ارادہ کررکھا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں درخت لگانے کی مہم چلائی گئی۔ سب سے پہلے اداروں کی سطح پر اس مہم کو کامیاب بنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ تمام سرکاری اداروں نے اس مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ محکمہ جنگلات کی نرسریوں میں تو ایک دن پہلے ہی پودے ختم ہوگئے تھے کہ یار لوگوں نے سب سے پہلے ادھر کا ہی رخ کیا تھا۔ جو ذرا سست تھے یا ابھی نئے نئے افسر بنے تھے انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی مدد آپ کے تحت پودوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ اس طرح پرائیویٹ نرسریوں میں بھی پودے کم پڑگئے۔

حکومت نے جو ٹارگٹ دیا تھا اس سے بڑھ کر پودے لگا دیے گئے اور پکٹوریل ایویڈینس تو اس سے بھی کہیں زیادہ تھے۔ ایک ہی پودے کی کئی کئی تصاویر اتاری گئیں۔ کیوں کہ یہ نہایت ہی محترم کام تھا۔ سیلفیوں کا بھی طوفان برپا کیا۔ جس نے جو پودا نہیں لگایا تھا اس نے بھی سیلفی بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ سرکاری احکامات کی تعمیل بڑی دھوم دھام سے کی گئی اور اتوار کے دن کو سیروتفریح کا دن بنادیا گیا۔ کچھ لوگوں کو ناگواری بھی محسوس ہوئی مگر مرتا کیا نہ کرتا، تصویر بھی تو بنوانی تھی۔

پودے لگ گئے مگر شاید ان میں سے بہت سے مرجھا یا ختم بھی ہوچکے ہوں گے۔ جو کام بددلی اور مجبوری سے کیا جاتا ہے اس کی پیروی نہیں کی جاتی۔

اگر یہی مہم ایک منظم سطح پر ہو اور کچھ اس طرح سے ہو کہ جس نے جو پودا لگایا ہے اس کے جوان ہونے تک وہ اس کا ذمے دار ہے۔ اس پودے کے ساتھ اس شخص کا نام بھی لکھا جائے تو شائد اس کے بہتر نتائج نکلیں۔ پھر بھی ان تمام پودوں میں ایک چیز نہیں تھی اور وہ تھی ثمر۔

کہیں بھی کوئی پھل دار درخت نہیں لگایا گیا۔ کیا پھل دار درخت آکسیجن نہیں بناتے، سایہ نہیں دیتے؟ ضرور دیتے ہیں۔ اسی شجر کاری مہم کو اگر پھل دار درخت لگانے سے مشروط کردیا جاتا یا کردیا جائے تو ہماری معیشت پر بھی بہت اچھا اثر پڑے گا اور ماحول بھی صاف ستھرا ہوجائے گا۔

تجویز ہے کہ ہمارے اس پیارے وطن کو درختوں کی اقسام کے لحاظ سے مختلف علاقوں میں تقسیم کردیا جائے۔ جس علاقے میں جو پھل دار درخت اگتے ہیں، اتنے علاقے کو اس درخت یا درختوں کےلیے مخصوص کردیا جائے۔ مثال کے طور پر شمالی علاقہ جات میں سیب، خوبانی، آڑو اگتے ہیں۔ ان علاقوں کو ان پھلوں کےلیے مختص کردیا جائے۔ اسی طرح پورے ملک کی پھلوں کے لحاظ سے حد بندی کرکے اس علاقے میں وہی پھل دار درخت شجر کاری مہم کے تحت لگائے جائیں۔

جب کوئی پھل دار درخت لگائے گا تو ضرور اس کی دیکھ بھال بھی کرے گا۔ اپنے لیے نہیں تو اپنی آنے والی نسل کے لیے۔ اسی طرح زرعی علاقے میں بھی پھلوں والے درخت لگانے کو لازمی قرار دیا جائے۔ ہر زمیندار اور کاشتکار فی ایکڑ دس پھل دار درخت لگائے تو ہمیں بہت لمبے عرصہ کےلیے بے شمار درخت بھی مل جائیں گے اور پھل بھی۔ ہماری شجر کاری ثمر آور ہوگی اور اس کی مناسب دیکھ بھال بھی ہوتی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اکرم ثاقب

اکرم ثاقب

بلاگر ایک شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار بھی ہیں۔ ہلکے پھلے انداز میں سنجیدہ بات کہتے ہیں۔ زندگی کا ہر پہلو انہیں عزیز ہے۔ انگریزی، اردو اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر ہینڈل @akramsaqib پر فالو کیا جاسکتا ہے جبکہ ان کی فیس بُک آئی ڈی akram.saqib.18 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔