احتساب ہوگا، ہوگا، ہوگا

سعد اللہ جان برق  منگل 17 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

یقیناً آپ کوفلم سنگم کی وجنتی مالا یاد آرہی ہوگی،جو تالاب میں نہارہی تھی اور کنارے پرایک درخت میں بیٹھا راج کپور اسے۔بول رادھا بول سنگم ہوگا کہ نہیں۔اور آخر تنگ آکر وہ بول دیتی ہے کہ ہوگا ہوگا ہوگا۔لیکن ہمیں یہاں سنگم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ ہم سنگم کے  بجائے احتساب کا گانا بلکہ قوالی سن رہے ہیں۔

پھر وہی ہوا کہ ’’قوالی‘‘پر ایک اور بات نے دُم ہلانا شروع کر دی۔ آپ نے اکثر قوال پارٹیوں میں دیکھا ہوگا کہ گانے بجانے والوں کے پیچھے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے صرف تالیاں بجاتے ہیں اور تالیاں بھی خالص ’’دیہاڑی‘‘ بھرنے کے لیے ایسے بجاتے ہیں کہ دونوں ہاتھ بج بھی جاتے ہیں لیکن دونوں ہاتھوں کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم بج رہے ہیں، اتنی احتیاط اور نرمی سے وہ یہ کام کرتے ہیں۔

چاہے وہ’’ نصفاً لی ونصف لک‘‘ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح حساب احتساب محاسبہ حسوب محسوب محتسب وغیرہ کا جداعلیٰ بھی ’’حسب‘‘ ہے۔ لیکن حسب سے زیادہ اس کا بڑا بیٹا ’’حساب‘‘زیادہ مشہور ہے کیونکہ ریاضی سے لے کر ’’ریاض‘‘تک اس کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ دوسری زبانوں میں تو ’’حساب‘‘کے کچھ اور معنی بھی ہیں مثلاً حساب کتاب،یوم حساب، وقت حساب وغیرہ۔ لیکن پشتو میں اس کا صرف ایک ہی مفہوم رجسٹرڈ ہوچکاہے یا یوں کہیے کہ اس سارے’’عرض‘‘کا ’’جوہر‘‘اسی ایک لفظ ’’حساب‘‘ میں جمع ہوچکاہے اور مفہوم اس کا وہی ہے کہ

اے زر تو خدا نیستی ولیکن بخدا

قاضی الحاجاتی ومحی الماتی

سیدھے سادے معنوں میں ’’پیسہ‘‘ایسا ہے جہاں بھی ہوتاہے جیسا بھی ہوتاہے پیسہ ہی ہوتاہے چنانچہ آج کل پشتو میں اس قسم کے جملے عام ہیں۔مثلاً قربانی کرنے کو میرا دل بھی چاہتاہے لیکن بات’’حساب‘‘کی ہے۔ میں کب کا بیٹے کی شادی کراچکا ہوتا لیکن بات ’’حساب‘‘ کی ہے۔مقدمہ میرے حق میں ہے لیکن بات حساب کی ہے۔

فلاں فلاں چیز کی منظوری مشکل نہیں لیکن بات حساب کی ہے۔میں چاہتا تھا کہ بے نظیرانکم سپورٹ کارڈ حاصل کروں لیکن بات حساب کی ہے۔صحت کارڈ ہمیں بھی مل جاتا لیکن بات حساب کی ہے۔ پچاس لاکھ  گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں میں سے حقدار میں بھی  ہوں لیکن بات حساب کی ہے۔بات حساب کی ہے ورنہ نوکریاں بہت۔مطلب یہ کہ حساب ہی حساب کی حکومت اور عمل داری ہے۔جس کے پلے حساب ہے وہ کامیاب ہے اور جس پلے حساب نہیں وہ کسی چیز میں حساب نہیں۔ یعنی نہ تین میں نہ تیرہ میں۔ نہ ہیوں میں نہ شیوں میں۔ اب ایسے میں جب سب کچھ ’’حساب‘‘میں ہے تو ’’احتساب‘‘کس شمار میں اور کس قطار میں۔

اصل حسوب وحاسب ومحسوب ایک ہے

حیران ہوں پھر’’محاسبہ‘‘کس حساب میں

اور یہی ہمارا اصل شبہ ہے کہ احتساب ہوگا ہوگا ہوگا۔ لیکن ’’حساب‘‘کہاں ہے۔یادش بخیر باباجی جہاں کہیں بھی ہوں خدا ان کو خوش رکھے اور انصاف کے سوا اور کوئی نہ چکھے۔کچھ عرصہ پہلے کیاتھا؟جس کا انھوں نے ’’احتساب‘‘ نہیں کیاتھا بلکہ پورے مجسم احتساب بن کر پھرتے تھے اور جہاں کہیں موقع ملتا احتساب شروع کر دیتے۔بابا جی کے زمانہ احتساب میں ہم نے ایک دن ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ’’خرولا گاڑی‘‘میں کہیں جا رہا تھا۔

خرولے کے گوشت پوست کے انجن نے کوئی’’بے قاعدگی‘‘کی ہوگی۔ اس پر وہ اپنے خرولے کے انجن کو مخاطب کرکے کہہ رہا تھا۔سیدھا ہوجاو۔ورنہ باباجی سے کہہ کر تمہارا بھی احتساب کرادوں گا۔۔اور وہ تجھے اس شہر میں بھیج دیں گے جہاں لوگ ’’پیدا‘‘ہوتے ہیں اور تیرے جیسے خرولے کے انجن ناپید ہوجاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر خرولے کا انجن سیدھا ہوگیا تھا، شاید اسے احتساب اور شہرپیدائش میں ناپید ہونا نامنظور نہیں تھا۔

باباجی کے مبارک دور احتساب سے آج تک احتساب ہی احتساب چل رہاہے اور اہل نجوم وپامسٹری کا کہناہے کہ یہ احتساب اسی دن تک جاری رہے گا۔جس کا وعدہ ہے اور نام ہے یوم حساب لیکن اس تمام تر ہمہ گیر،ہمہ جہت احتساب میں ’’حساب‘‘ کہاں ہے یعنی خدا ماروں خدائی خواروں، دائمی قرضداروں، پیدائشی نصیب خواروں کو کیا ملا؟ سب کو ملا ہوگا۔جو انصاف اور احتساب کے میلے کے دکاندار ہیں، اہل کار ہیں، حصہ دار ہیں یاکسی بھی قسم کے ’’دار‘‘ ہیں لیکن جن کو یہ ’’قرض‘‘ دینا ہے اور احتساب بھگتنا ہے۔

ان کو کیا ملا؟یا کیاملے گا۔باباجی تو اپنا ٹھلو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ اب کیاکریں۔ اس بندرکی کہانی دُم ہلارہی ہے جس کے پاس دوکتے اپنا مقدمہ لے گئے تھے، جو ایک روٹی پر تھا۔ بندر نے انصاف کا ترازو لگایا۔ روٹی کو نصف نصف کیا لیکن ترازو میں دونوں ٹکڑے برابر نہیں نکلے ، اس لیے اس نے بھاری والے ٹکڑے سے ایک لقمہ لیا۔جوکچھ زیادہ احتسابی تھا اس لیے پھر دوسرا ٹکڑا بھاری نکلا ۔

یوں انصاف کا ترازو اوپر نیچے ہوتارہا اور روٹی کے ٹکڑوں میں صرف ایک ایک لقمہ رہ گیا۔وہ بندر نے احتساب اور انصاف کی مزدوری میں محسوب کرکے کھالیے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ادارے میں نادہندگی کاکام ایک اور ادارے کے سپرد کیا۔ اس ادارے نے چار ارب کی وصولی کرلی لیکن اس کی اپنی مزدوری پانچ ارب بن گئی تھی۔معلوم نہیں وہ ایک ارب اس ادارے نے کیسے اداکیے ہوں گے۔ اس لیے ہم پھر کہہ رہے ہیں ، احتساب توہوگا ہوگا ہوگا۔ لیکن انصاف کی رو سے ’’حساب‘‘ کا کیا بنے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔