بائیکو سے واجبات 3 سال بعد بھی ریکور نہ ہو سکے

حسنات ملک  منگل 17 ستمبر 2019
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر متعلقہ وزارت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لینے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر متعلقہ وزارت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لینے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  وزرات پٹرولیم کی نا اہلی اور غفلت کی بدولت پٹرولیم کمپنی بائیکو سے وفاقی حکومت کے  7.5ارب روپے کی واجبات کی ریکوری 3سال بعد بھی نہ کرواجا سکی۔

ذرائع کے مطابق اس معاملے پر اٹارنی جنرل آفس نے اپنے خدشات وزرات پٹرولیم تک پنہچا دیئے ہیں۔اس سلسلہ میں اٹارنی جنرل انور منصور خان نے گزشتہ ہفتے پاور اور پٹرولیم کے وفاقی وزیر عمر ایوب سے ملاقات کی اور پرائس ڈیفرینشیل کی مدد میں پٹرولیم کمپنی بائیکو کے زمہ واجب الادا 7.5ارب روپے کی ریکوری نہ کروانے پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس معاملے پر متعلقہ وزارت کی جانب سے کوئی ایکشن نہ لینے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔ کمپنی بائیکو کے ذمہ واجب الادا رقم کے معاملے کا آغاز 22فروری 2013میں اس وقت شروع ہوا جب اس وقت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ان لینڈ فریٹ ایکوئلائزیشن مارجن (آئی ایف ای ایم ) اور آپریشنل لاگت برائے سنگل پوائنٹ مورنگ کی مدد میں بائیکو کمپنی کو خصوصی چھوٹ دی گئی تھی تاہم اوگرا نے بائیکو کمپنی کو دی گئی رعائت کا بغور جائزہ لینے کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی سے معاملے کا از سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی اوگرا نے بائیکو کو عوامی پیسہ واپس کرنے کا حکم دیا تاہم 16اپریل 2014کو بائیکو کمپنی نے اوگرا احکامات کوسندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

بائیکو کمپنی نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور یہ معاملہ آج تک تعطل کا شکار ہے۔بائیکو کمپنی کی سندھ ہائی کورٹ میں دائر داخواست میں ناکامی کے بعد وزارت پٹرولیم نے بائیکو کمپنی سے ایچ ایس ڈی پرائس ڈیفرینشیل کی مدد میں رقم کی ریکوری کا مطالبہ کیا جو اس وقت 2.5ارب روپے تھا لیکن اب یہ رقم 7.5ارب روپے ہو چکی ہے۔

ایک سنیئر اہلکار نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وزارت پٹرولیم نے اس معاملے کو دوبارہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کو نہیں بھیجا ہے جس سے وزارت کی غفلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔