چولستان کا تاریخی میرگڑھ قلعہ کھنڈرات میں تبدیل

ویب ڈیسک / ندیم ظفر  منگل 17 ستمبر 2019
تاریخی میر گڑھ قلعے کی تزئین و آرائش کی جائے تاکہ یہ قیمتی ورثہ محفوظ رہ سکے، سیاحوں کا مطالبہ فوٹوایکسپریس

تاریخی میر گڑھ قلعے کی تزئین و آرائش کی جائے تاکہ یہ قیمتی ورثہ محفوظ رہ سکے، سیاحوں کا مطالبہ فوٹوایکسپریس

فورٹ عباس: پاکستان تاریخی مقامات سے بھرا پڑا ہے  تاریخ کے پیچ و خم سے لبریز صحرائے چولستان میں بھی ایسی کئی داستانیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ صحرائے چولستان میں قلعہ میر گڑھ بھی ان میں سے ایک ہے۔

فورٹ میرگڑھ فورٹ عباس سے 9 کلومیٹر دور چولستان کے وسط میں واقع ہے۔ یہ قلعہ خوبصورت جام خان کے بیٹے نور محمد خان نے بنوایاتھا 1214 ء اس کی تعمیر شروع کی تھی اور1218  ء میں اس قلعے کا بیرونی حصہ پختہ تھا۔ اس کی دیواریں 28فٹ تک بلند ہیں اور چاروں کونوں میں گول خوبصورت برج بنے ہوئے ہیں۔میر گڑھ قلعہ عباسی بادشاہت کے دور میں بنائے گئے قلعوں کے سلسلے میں سے ایک قلعہ ہے اس کا ایک داخلی دروازہ اور چار میناریں تھیں۔داخلی دروازے کے دو حصے تھے۔قلعہ کے صحن میں رہائشی مکانات تھے صحن میں دومیٹھے پانی کے کنویں تھے جو اب خشک ہو گئےہیں۔قلعہ کی فصیل بالکل شکستہ حالت میں ہے، اندر کے مکانات مٹی کے ڈھیر بن گئے ہیں۔

چولستان کے وسط میں واقع  یہ تاریخی قلعہ میرگڑھ محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور لاپرواہی کے باعث آج کھنڈرات کا منظر پیش کر رہاہے۔ یہ قلعہ بھی اپنی تباہی کی آخری منزلوں پر ہے۔دور دراز سے آنے والے سیاح یہاں آکر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ قلعہ دن بدن منہدم ہو رہاہے سیاحوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا ہےکہ اس قلعہ کی تزئین و آرائش کی جائے تاکہ یہ قیمتی ورثہ محفوظ رہ سکے۔

جنرل سیکریٹری رفاہ عامہ کونسل رجسٹرڈ تحصیل فورٹ عباس یاسر صدیق ایڈووکیٹ نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چولستان کا اصل حُسن یہاں کے تاریخی قلعہ جات ہیں۔ جن میں قلعہ میر گڑھ ایک عظیم شاہکار تھا مگر بدقسمتی سے محکمہ آثار قدیمہ اور حکومتوں کے عدم دلچسپی کے باعث یہ آہستہ آہستہ کھنڈرات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر اس قلعہ کی تزئین وآرائش حکومتی سطح پر ناممکن ہے تو یہ کسی این جی او یا ادارہ کے سپرد کی جائے ۔مقامی کاشتکارآصف صدیق،نبیل انجم  نے   کہا کہ  دور دراز سے سیاح یہاں اس قلعہ کو دیکھنے کے لئے شوق سے آتے ہیں مگر اس کی حالت دیکھ کر مایوسی کی شکار ہو جاتے ہیں۔

مقامی سماجی کارکنان اکری علی اور وسیم ٹھاکر نے کہا کہ اگر یہ قلعہ جات کسی دوسرے بڑے شہر جیسے کہ لاہور وغیرہ میں ہوتے تو شاید ان  کی حالت ایسی نہ ہو تی در افتادہ پسماندہ علاقہ ہونے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ کی دلچسپی ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اس کی بدولت مقامی این جی اوزکے حوالے اس قلعہ کو کیا جائے تاکہ وہ لوگ دلچسپی کے ساتھ کی حفاظت کریں۔

مقامی صحافی نوید گل زیب چوہدری نے اپنے موقف میں کہا کہ موجودہ حکومت جہاں بڑے شہروں میں ٹورز و سیاحت کو فروغ دے رہی ہے یہاں چولستان اور اس کے تاریخی قلعہ جات جن کی تعداد تحصیل فورٹ عباس میں چھ ہیں کو بھی پروموٹ کریں جس سے نہ صرف ان تاریخی ورثہ جات کو محفوظ کیا جاسکتا ہے بلکہ سیاحت کے حوالے سے بھی بہت آمدن متوقع ہے۔ اس لئے حکومت وقت ان تاریخی قلعہ جات کی طرف دھیان دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔