گروپ بنانا کیا ضروری ہے؟

راضیہ سید  جمعرات 19 ستمبر 2019
دوسروں کی زندگیاں ایسی گروپ بندیاں کرکے اجیرن مت کیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دوسروں کی زندگیاں ایسی گروپ بندیاں کرکے اجیرن مت کیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پرسوں معمول کے مطابق سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو محض نوٹیفکیشن دیکھنے کےلیے لاگ اِن کیا تو حیرت کے ساتھ نہایت غصہ بھی آیا۔ واٹس ایپ پر تین گروپس میں مجھے بغیر پوچھے اور بتائے ہوئے شامل کرلیا گیا تھا اور اس پر مستزاد یہ کہ میرا ان باکس مبارکبادوں سے بھر چکا تھا کہ بہت شکریہ تمام دوست ایک جگہ اکٹھے ہوگئے، شکر ہے کہ ہمیں بھی گروپ کا حصہ بنالیا۔ گویا کہ جیسے اپنے بینک اکاؤنٹ میں آپ کو شراکت دار بنا لیا ہو۔

کبھی ایک ویڈیو موصول ہورہی تھی تو کبھی کوئی امیج، کبھی پھول، تو کبھی گانے اور کبھی مذہبی پیغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ۔ کہیں کشمیر، فلسطین، عراق اور شام کے مسائل پر بحث چھڑی تھی، تو کہیں کسی کے کافر مومن ہونے کا فیصلہ صادر کیا جارہا تھا۔ جبکہ کچھ وائس میسیج ایسے بھی تھے جن میں گروپ ایڈمن کو شدید طنز کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ آئندہ سے یہ غلطی ہرگز نہ دہرائی جائے اور انھیں پوچھ کر گروپس میں ان کے نام شامل کیے جائیں۔

میں زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال کی قائل نہیں، لیکن آپ تصور کیجیے کہ اگر آپ اپنے کام کےلیے ہی لاگ اِن ہوں اور آگے ایسی خرافات آپ کو ملیں تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ یقیناً آپ کو بھی بے حد غصہ آئے گا۔ بہت سے لوگ آُپ کو اپنے گروپ میں شامل کریں گے اور جب آپ کوئی شکایت کریں گے تو وہ نہایت معصومیت سے یہ دلیل دیں گے کہ جی لاعلمی میں ہوگیا ایسا۔ یا یہ کہ ہمارا مقصد غلط نہ تھا، ہم تو سب دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔

یہ سب فضول بہانے اور حجتیں ہیں، کیونکہ اگر آپ گروپ بنا رہے ہیں تو یقیناً آُپ نے اپنے پاس موجود نمبروں کو شامل کیا ہے۔ اس میں لاعلمی کہاں سے آئی؟ دوسرا مان لیا کہ آپ کا غلط مقصد نہیں تھا لیکن کیا گروپ میں شامل 350 لوگوں میں سے ایک کا نقطہ نظر بھی غلط نہ تھا۔ اگر میری اس بات سے کسی کو اختلاف ہو تو وہ یہ دیکھے کہ گروپ میں سے کئی افراد آپ کا نمبر لے کر آُپ کو الگ سے ایڈ کرتے اور میسیج بھیجنا شروع کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ دوستی کی آفر بھی کی جاتی ہے۔ اور یہ صرف لڑکیوں کے ساتھ نہیں، لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ کتنی دیر آپ کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ ویڈیو یا میسیج کس نے آپ کو بھیجا ہے۔

گروپ بنانے سے قبل کسی قسم کا کوئی اطلاعی میسیج نہیں دیا جاتا، کوئی اصول و ضوابط مقرر نہیں کیے جاتے۔ جس کی وجہ سے لوگ ہر قسم کا سنسر اور غیر سنسر مواد بھیجتے ہیں۔ ادب کے گروپ میں موسیقی، کالم اور نجانے کیا کیا شیئر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ محرم کے دنوں میں کئی گروپس میں فرقہ وارانہ مواد شیئر ہوتا رہا اور بات لڑائی جھگڑے تک جاپہنچی اور ایڈمن حضرات اس صورتحال کو قابو کرنے میں ناکام رہے۔ ساتھ ہی ایک حرف مذمت نہیں کہا گیا۔ یہی حال فیس بک کا بھی ہے، جس کےلیے کوئی معیار مقرر نہیں۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر کوئی وہاں اپنی پوسٹس کے ذریعے اپنا آپ اور اپنا معیار شیئر کردیتا ہے۔

ہمارے پاس سوشل میڈیا کی صورت میں ایک ہتھیار آچکا ہے۔ کوئی کتنا شریف کیوں نہ ہو، آپ نے اگر اس کے ساتھ بدلہ لینا ہے، اس کی تضحیک کرنا ہے۔ بے شک کیجیے، آپ کے پاس یہ ایک طرح کی تلوار ہے، آپ جس کا چاہے سر قلم کیجیے۔ پھر اس کے بعد آپ معافیاں مانگیں لیکن اگلے بندے کی تو زندگی خراب ہوگئی کہ نہیں، آپ کو اس سے کوئی غرض نہیں اور اکثر و بیشتر لوگوں کو تو شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔

ان فیس بک اور واٹس ایپ گروپس پر ایڈمن صاحبان کا کوئی کنٹرول نہیں۔ یا یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ تصادم کو پسند کرتے اور اس کا حظ اٹھاتے ہیں۔ کوئی بھی شریف شخص اگر وہاں پر تنقید کرے اور گروپ چھوڑ دے تو بعد میں باقاعدہ اس کی منتیں کی جاتی ہیں کہ پلیز آپ دوبارہ گروپ میں آئیے۔ گویا یہ کوئی مذاق ہوچکا ہے کہ آنے جانے کا چکر لگا رہے۔ ایڈمن صاحبان کئی گروپس ممبران کے ساتھ امیتازی سلوک برتتے ہیں۔ وہ ایسے من پسند افراد چاہے اس گروپ میں یا اس پیج پر کچھ بھی کرتے رہیں، وہ دم سادھے ان کی حرکات دیکھتے رہتے ہیں۔

اب آجاتے ہیں ہمارے سماجی تعلقات پر، جو کہ پہلے بھی محدود ہیں کہ ہم لوگوں سے بات کرنے کے بجائے لوگوں کی باتیں زیادہ کرتے ہیں۔ رشتے دار ہوں یا عزیز و اقارب، دو گھڑی آپ سے ملنے نہیں آئیں گے، حتیٰ کہ آپ کسی محفل میں سامنے بھی ملیں گے تو کنی کترا کر گزر جائیں گے، لیکن دوسری طرف گروپ بنا لیا جائے گا۔ وہاں پر ہر طرح کی محبت اور بھائی چارے کا اظہار ہورہا ہوگا۔ آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ اب کون سا ڈرامہ درست ہے اور کیا صورتحال غلط ہے؟

سوشل میڈیا کے ان گروپس نے انانیت اور نفرت کو بھی بے حد رواج دیا ہے۔ اگر کوئی آپ کا فیس بک پیج لائیک نہ کرے، گروپ میں شامل نہ ہو تو تنقید کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کئی افراد کو میں نے یہاں تک کہتے سنا کہ میں فلاں سے نہیں بولتا وہ فیس بک پر میرے ساتھ ایڈ نہیں ہے یا اس نے میرا گروپ چھوڑ دیا ہے تو وہ میرے دل سے بھی اتر گیا ہے۔

خواتین کے نمبر ایڈ کرنے اور انھیں میسیج کرنے کا سلسلہ بھی یہیں تک نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں کی شادی شدہ زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ میں سب خواتین کے درست ہونے کی بات نہیں کررہی، لیکن یہ بھی اسی موضوع کا حصہ ہے اور ایسا ہونا ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے۔

دوسروں کی زندگیاں ایسی گروپ بندیاں کرکے اجیرن مت کیجیے۔ اگر آپ کے پاس کوئی کام کرنے کا نہیں تو کوئی کام ڈھونڈیے اور وہ بھی تعمیری، ورنہ چپ سادھ لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔