انگریزی زبان لازم یا پاؤں کی زنجیر؟

مناظر علی  جمعـء 20 ستمبر 2019
انگریزی زبان کو صرف بطور مضمون پڑھایا جائے بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انگریزی زبان کو صرف بطور مضمون پڑھایا جائے بنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بچہ پیدا ہونے کے پانچ سال بعد ایک دن اچانک ماں کو احساس ہوا کہ ’’یہ بچہ ہمارا نہیں لگتا، کیوں نہ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے‘‘۔ شام کو اُس کا شوہر تھکا ہارا ڈیوٹی سے گھر واپس آیا تو اس نے اپنے خدشے کا اظہار اُس سے بھی کیا ’’دیکھو! اِس بچے کی عادتیں بہت عجیب ہیں۔ اِس کا دیکھنا، چلنا، کھانا، پینا اور سونا وغیرہ ہم سے بہت مختلف ہے، مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہمارا بچہ ہے، چلو اِس کا ڈی این اے ٹیسٹ کراتے ہیں‘‘۔

شوہر: ’’بیگم! تمہیں یہ بات آج اچانک 5 سال بعد کیوں یاد آگئی؟، یہ تو تم مجھ سے 5 سال پہلے بھی پوچھ سکتی تھیں‘‘۔

بیگم (حیران ہوتے ہوئے): ’’کیا مطلب تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

شوہر: ’’بیگم یاد کرو اسپتال کی وہ پہلی رات جب ہمارا بچہ پیدا ہوا تھا اور کچھ ہی دیر بعد اس نے پیمپر خراب کردیا تھا، تو تم ہی نے مجھے کہا تھا، ’اے جی سنیے! پلیز بے بی کو چینج تو کردیں‘، تب میں نے بڑی حیرانگی سے تمہاری طرف دیکھا تھا تو تم نے ہی کہا تھا ’ہمارے پیار کی خاطر۔ میں نے 9 مہینے اِسے اپنی کوکھ میں رکھا ہے، اور اب جبکہ میں ہل جل بھی نہیں سکتی تو کیا آپ یہ چھوٹا سا کام بھی نہیں کرسکتے؟‘ تب میں اپنے بچے کو اُٹھا کر دوسرے وارڈ میں گیا، وہاں اپنے گندے بچے کو ’’چینج‘‘ کرکے دوسرے صاف بچے کو اُٹھا کر تمہارے ساتھ لا کر سلادیا تھا۔‘‘

یہ لطیفہ جب فیس بک وال پر دیکھا تو وہاں اس کا اخلاقی سبق بھی لکھا تھا کہ ’’کسی کو کام بتاتے وقت اگر اپنی مادری زبان کے بجائے دوسری زبان کا استعمال کریں گے تو ایسا ہی ’’چینج‘‘ آئے گا۔

مجھے یہاں بہت سے ایسے گھرانوں اور والدین کا خیال آیا جنہیں خود تو انگلش زبان پر عبور حاصل نہیں، مگر وہ اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی سکھانے کے چکر میں اپنی زبان بھی خراب کرلیتے ہیں۔ گلابی اردو اور گلابی انگریزی، بلکہ زخمی انگریزی بول بول کر خود کو مصیبت میں ڈالے رکھتے ہیں۔ سب سے زیادہ ظلم بچوں کے ساتھ ایسے لوگ کرتے ہیں۔ ایک تو ہمارا ںظام تعلیم ایسا ہے کہ پنجاب میں نرسری کا بچہ ہمہ وقت یہی سوچتا رہتا ہے کہ والد ’’بوہا‘‘ کہتے ہیں، والدہ ’’دروازہ‘‘ کہتی ہیں اور اسکول والے ’’ڈور‘‘ پڑھاتے ہیں۔ اسی الجھن میں بچے کی توجہ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین زبانوں کی عجیب کھچڑی پر رہتی ہے۔ اور جن چیزوں پر اسے توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ وہیں کی وہیں پڑی رہتی ہیں۔ نتیجتاً پڑھتے پڑھتے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب ہاتھ میں ڈگری ہوتی ہے تو عملی زندگی میں کامیابی کے بجائے ناکامی زیادہ ہوتی ہے۔ ڈگریوں کے نام پر کاغذات کی ایک فائل ہاتھوں میں ہوتی ہے مگر جہاں بھی نوکری کےلیے جاؤ، زیادہ تر کو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگویج آرٹ اینڈ کلچر لاہور میں تقریب کے دوران ترکی کے پروفیسر حلیل طوکار صاحب کی گفتگو سنی۔ کہنے لگے کہ وہ اردو زبان سے بہت پیار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس پر کام بھی بہت کیا ہے مگر انہیں حیرت تب ہوتی ہے جب وہ پاکستان آتے ہیں، اردو میں بات کرتے ہیں تو اگلا بندہ انگریزی میں جواب دیتا ہے۔ حالانکہ ایسا ترکی میں نہیں۔ اُن کے مطابق ترکی میں اگر کوئی ترک باشندہ آپس میں غیرزبان میں بات کرے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو دوسری زبانیں آتی نہیں، یا وہ کم علم ہیں۔ بات صرف اپنی مادری زبان کو ترجیح دینے کی ہے۔

ہم نے کئی بار پنجابی اور اردو زبان کے فروغ کےلیے تقریبات ہوتی دیکھیں۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں، کالم لکھے جاتے ہیں۔ مگر ایسے میں حیرت تب ہوتی ہے جب زبان کی ترویج کے نعرے لگانے والے خود ہی اپنے مطالبے پر عمل نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ لاہور میں پنجابی زبان کے فروغ کےلیے ہونے والی تقریب کے بعد ہال کے باہر کھڑے پنجابی بھائیوںکو دیکھا کہ کچھ اردو میں بات کررہے ہیں اور کچھ انگریزی میں۔ جب کہ یہیں کھڑے ایک پنجابی بھائی کو یہ فخر سے کہتے سنا گیا کہ وہ تو کافی کوشش کرتے ہیں کہ گھرمیں پنجابی زبان بولیں کہ ماں بولی زندہ رہے، مگر بیگم اردو بولتی ہیں، چلو قومی زبان ہے، پھر مجھے بھی بولنا پڑتی ہے، بچے بہرحال انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں۔

پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو سمیت مختلف علاقوں میں بولی جانے والی زبانیں ان علاقوں کی پہچان ہیں۔ انہیں زندہ رکھنے کےلیے یہاں کے رہائشیوں نے سب سے پہلی ذمے داری ادا کرنی ہے۔ اگر وہی اپنی مادری زبانوں کو بھلا دیں گے اور ان زبانوں کو اپنی اگلی نسلوں تک نہیں پہنچائیں گے تو یہ خدشہ ہے کہ ہم رفتہ رفتہ کہیں قومی زبان اردو سے بھی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بنیادی تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے۔ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون بچوں کو قومی زبان بھی سکھائی جائے اور انگریزی زبان کو صرف بطور مضمون پڑھایا جائے، ورنہ ہمارے بچے انگریزی سیکھنے کےلیے رٹا ہی لگاتے رہیں گے اور انگریزی زبان قابلیت کی طرف بڑھنے والے ان بچوں کے قدموں کی زنجیر بنی رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔