نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم ِ شبّیری

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 18 ستمبر 2019
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

یہ خطبہ سن کر زہیر بن القین نے کھڑے ہو کر کہا، ’’اے فرزندِ رسول ؐ ! خدا آپ کے ساتھ ہو۔واﷲ اگر دنیا ہمارے لیے ہمیشہ باقی رہنے والی ہو۔ اورہم سدا اس میں رہنے والے ہوں۔جب بھی آپ کی حمایت و نصرت کے لیے اس کی جدائی گواراکر لیں گے اور ہمیشہ کی زندگی پر آپ کے ساتھ مر جانے کو ترجیح دیں گے‘‘۔

حُربن یزید آپ کے ساتھ برابر چلا آرہا تھا اور بار بار کہتا تھا،’’اے حسینؓ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ جنگ کریں گے تو ضرور قتل کر ڈالے جائیں گے‘‘۔

آپ نے غضب ناک ہو کر فرمایا،’’تو مجھے موت سے ڈراتاہے،کیا تمہاری شقاوت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ مجھے قتل کرو گے؟

قافلہ ’’عذیب الہجانات ‘‘نامی مقام پر پہنچا تو کوفہ سے چار سوار آتے دکھائی دیے، ان کے آگے آگے طرماح بن عدی حضرت حسینؓ کے حق میں شعر پڑھ رہا تھا۔

امام عالی مقام ؓ نے آنے والوں سے پوچھا، ’’ لوگوں کو کس حال میں چھوڑ آئے ہو؟ ‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’شہر کے سرداروں کو رشوتیں دے کر ساتھ ملا یا گیا ہے۔ عوام کے دل آپ کے ساتھ ہیں،مگر ان کی تلواریں کل آپ کے خلاف نیام سے نکلیں گی‘‘۔

اس سے پہلے آپ قیس بن مسہر کو بطور قاصد کوفہ بھیج چکے تھے ۔ا بنِ زیاد نے انھیں قتل کر ڈالا تھا ، مگر آپ کو اطلاع نہ ملی تھی۔ ان لوگوں سے قاصد کا حال پوچھا انھوں نے سارا واقعہ بیان کردیا۔

’’ قصر بنی مقاتل‘‘ نامی مقام سے کوچ کے وقت آپؓ اونگھ گئے تھے۔ پھر چونک کربآواز بلند فرمانے لگے:’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ تین مرتبہ یہی فرمایا۔ آپ کے صاحبزادے علی اکبرؓ نے عرض کیا:’اِنَّا لِلّٰہِ کیوں ؟

فرمایا، جانِ پدر ! ابھی اونگھ گیا تھا، خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سوار کہتا چلا آرہا ہے: ’’لوگ چلتے ہیں اور موت ان کے ساتھ چلتی ہے‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ہماری ہی موت کی خبر ہے جو ہمیں سنائی جارہی ہے‘‘۔

علی اکبر ؓنے کہا : ’’خداآپ کو روزِبد نہ دکھائے ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟‘‘

فرمایا :’’بے شک ہم حق پرہیں ‘‘۔اس پر وہ بے اختیار پکار اٹھے، اگر ہم حق پر ہیں ۔ تو پھر موت کی کوئی پرواہ نہیں ‘‘۔ آپ کے یہی صاحبزادے میدانِ کربلا میں شہید ہوئے اور علی الاکبر ؓ کے لقب سے مشہور ہیں ۔کچھ دیر بعد ابنِ زیاد کی طرف سے حُر کو نئے احکامات ملے کہ ’’حسینؓ کو کہیں ٹکنے نہ دو،کھلے میدان کے سوا کہیں اُترے نے نہ دو ۔میرا یہی قاصد تمہارے ساتھ رہ کر دیکھے گا کہ تم کہاںتک میرے حکم کی تعمیل کرتے ہو‘‘۔

ایک جگہ رکنے کی تجویز آئی تو آپ نے پوچھا، ’’اس جگہ کا نام کیاہے؟‘‘

جواب ملا: ’’عقر‘‘ (عقر کے معنی ہیں کاٹنا یا بے ثمر وبے نتیجہ ہونا) یہ سن کر آپ منغض ہوگئے اور کہا، ’’عقر سے خدا کی پناہ!‘‘

آخر آپ ایک اُجاڑ سرزمین پر پہنچ کر اُترپڑے۔ پوچھا: اس سرزمین کا کیا نام ہے؟ معلوم ہوا ’’کربلا‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہ کرب اور بلا ہے‘‘۔ یہ مقام دریا سے دور تھا ۔ دریا اور اس میں ایک پہاڑی حائل تھی۔ یہ واقعہ 2محرم الحرام 61ھ کا ہے۔

دوسرے روز عمر بن سعد ابی وقاص کوفہ والوں کی چار ہزار نفوس پر مشتمل فوج لے کر پہنچا۔ا بنِ زیاد نے عمر کو زبردستی بھیجا تھا۔ عمر کی خواہش تھی کسی طرح اس امتحان سے بچ نکلے اور معاملہ رفع دفع ہوجائے۔ اس نے آتے ہی سیّد نا امام حسینؓ کے پا س قاصد بھیجا اور دریافت کیا آپ کیوں تشریف لائے؟ آپ نے وہی جواب دیا جو حر بن یزید کو دے چکے تھے۔ ’’تمہارے شہر کے لوگوں ہی نے مجھے بلایا ہے۔‘‘

عمر بن سعد کو اس جواب سے خوشی ہوئی اور امید بندھی کہ یہ مصیبت ٹل جائے گی: چنانچہ ابنِ زیاد کو خط لکھا ۔ خط پڑھ کر ابن زیاد نے جواب بھیجا ’’ حسینؓ سے کہو پہلے اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ یزید بن معاویہ کی بیعت کر یں پھر ہم دیکھیں گے کہ ہمیں کیا کرناہے، حسینؓ اور ان کے ساتھیوں تک پانی نہ پہنچنے پائے ۔ وہ پانی کا ایک قطرہ بھی پینے نہ پائیں، جس طرح عثمان بن عفان ؓ رضی اللہُ عنہ پانی سے محروم رہے تھے‘‘۔

عمر بن سعد نے پانچ سو سپاہی گھاٹ کی حفاظت کی لیے بھیج دیے اور آپ اور آپ کے ساتھیوں پر پانی بند ہو گیا۔  اس پر آپ نے اپنے بھائی عباس بن علیؓ رضی اللہ ُ عنہ کو حکم دیاکہ 30سوار اور 20پیادے لے کر جائیں اور پانی بھر لائیں ۔ یہ پہنچے تو محافظ دستے کے افسر عمر وبن الحجاج نے روکا۔ باہم مقابلہ ہو ا لیکن حضرت عباسؓ پانی کی مشکیں بھر لائے۔

اس کے بعدابنِ زیاد ملعون نے شمر کو خط دے کر بھیجا۔ خط کا مضمون یہ تھا ’’کہ اگر حسینؓ معہ اپنے ساتھیوں کے اپنے آپ کو ہمارے حوا لے کر دیں تو جنگ نہ لڑی جائے اور انھیں میرے پاس بھیج دیا جائے،لیکن اگر یہ بات وہ منظور نہ  کریں،توپھر جنگ کی جائے۔ عمر بن سعد نے میرے حکم پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا تو تم سب اس کی اطاعت کرنا، ورنہ اسے ہٹاکر خود فوج کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حسینؓ  کا سرکاٹ کر میر ے پاس بھیج دینا‘‘۔

دشمن کی فوج تیار ہوکر سامنے آئی تو سیّد نا امام حسین رضی اللہ ُ عنہ کے جانثاروں میں سے حبیب ابن مظاہر نے انھیںمخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’خدا کی نظر میں بد ترین لوگ وہ ہوں گے جو اس کے حضور اس حالت میں پہنچیں گے کہ اس کے نبیﷺ کی اَولاد اور اس شہر (کوفہ) کے تہجدگزار عابدوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگین ہو ں گے‘‘،زہیر بن الیقین نے کہا ’’خدا سے ڈرو ان پاک نفسوں کے مقدسّ خون سے ہاتھ نہ رنگو‘‘ ۔

ابنِ سعد کی فوج میں سے عزرہ بن قیس نے جواب دیا:’’اے زہیر !تم تو اس خاندان کے حامی نہ تھے‘‘۔ زہیر نے کہا : ’’ ہاں یہ سچ ہے لیکن سفر نے ہم دونوں کو یک جا کر دیا ہے۔ میں نے انھیں دیکھا تو رسولﷺ یاد آگئے۔ رسول اللہ ﷺ کی ان سے محبت یادآگئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا : ’’ میں ان کی مدد کروں گا اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے اس حق کی حفاظت کروں گاجسے تم نے ضایع کر دیا ہے‘‘۔ ابنِ زیاد کی فوج کے شیطانی عزائم نظر آگئے تو آپ ؓ نے فرمایا ہم جنگ سے نہیں گھبراتے مگر آج رات میں اپنے رب کے آگے سربسجود ہونگا۔ اس سے دعا کرونگا اور مغفرت مانگونگا‘‘۔ ایک رات کے لیے جنگ ٹل گئی۔

اُس رات کو آپؓ نے اپنے ساتھی جمع کیے اورخطبہ دیا:’’خدا کی حمد وستائش کر تا ہوں ۔ رنج وراحت ہر حالت میں اس کا شکر گزار ہوں ۔ الٰہی !تیرا شکر کہ تونے ہمارے گھر کو نبوت سے سرفرازکیا، قرآن کا فہم عطا کیا ۔ دین میں سمجھ بخشی اور ہمیں دیکھنے سننے اور عبرت پکڑنے کی قوتوں سے سرفراز کیا۔ لوگو! میں نہیںجانتا آج روئے زمین پر میرے ساتھیوں سے افضل اور بہتر لوگ بھی موجود ہیں یا میرے اہل بیت سے زیادہ ہمدرد اور غمگسار اہل بیت کسی کے ساتھ ہیں ۔اے لوگو! تم سب کو اللہ میری طرف سے جزائے خیر دے، میں سمجھتا ہوں کل میرا ان کا فیصلہ ہو جائے گا۔ غورو فکر کے بعد میری رائے یہ ہے کہ تم سب خاموشی سے نکل جاؤ۔رات کا وقت ہے تم تاریکی میں ادھر اُدھر چلے جاؤ۔ میں خوشی سے تمہیں رخصت کر تا ہوں، میر ی طرف سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں ، میری جان لے کر تم سے غافل ہو جائیں گے‘‘۔

یہ سن کر آپ کے اہل بیت بہت رنجیدہ اور بے چین ہوئے۔ جضرت عباس ؓ نے کہا : ’’یہ کیوں؟ ہم آپ کے بعد زندہ رہیں،خداہمیں وہ دن نہ دکھائے‘‘۔

حضرت حسین علیہ اسلام  نے مسلم ؓ بن عقیل کے رشتے داروں سے کہا : اے اولادِ عقیل ! مسلم کا قتل کا فی ہے تم چلے جاؤ، میں نے تمہیں اجازت دی‘‘۔

وہ کہنے لگے : ’’ لوگ کیا کہیں گے ، کہ ہم اپنے شیخ سردار عم زادوں کو چھوڑ کر بھاگ آئے۔ واللہ ! یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ ہم تو آپ پر جان، مال اور اولاد سب کچھ قربان کر دیں گے‘‘۔آپ کے ساتھی بھی کھڑے ہوگئے۔ مسلم بن عوسجہ اسدی نے کہا : کیا ہم آپ کو چھوڑ دیں گے؟ واللہ ! نہیں ہر گز نہیں ! میں اپنا نیزہ دشمنوں کے سینے میں توڑدوںگا ‘‘۔سعد بن عبد اللہ الحنفی نے کہا :واللہ ! ہم آپ کو اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے ، جب تک خداجان نہ لے کہ ہم نے رسول اللہﷺ کا حق محفوظ رکھا۔واللہ ! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل ہوں گا یا جلایا جاؤںگا ۔ پھر میری خا ک ہوا میں اُڑ ا دی جائے گی اور ایک مرتبہ نہیں 70مرتبہ مجھ سے یہ سلوک کیا جائے گا۔ پھر بھی میں آپ کی اور آپ کے اہل بیت کے ان نونہالوں کی جانیں بچانے کی سعی کرونگا ‘‘۔زہیربن الیقین نے بھی یہی کہا  ۔

’’ پھر امام عالی مقامؓ نے فرما یاہر ’’ مسلمان کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی اُسوئہ حسنہ ہے ۔یہ نمونہ ہمیں ہر حال میں صبر و ثبات اور توکل ورضا کی تعلیم دیتا ہے ، ہمیں چاہیے کہ کسی حال میں بھی اس سے منحرف نہ ہوں۔ خدا پاک کو ناپاک سے الگ کر دیگا‘‘۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔