پاکستان کے وقار میں اضافہ

سعد اللہ جان برق  بدھ 18 ستمبر 2019
barq@email.com

[email protected]

ایسا تو ہر گز ہر گزاور بالکل بالکل بھی نہیں ہے کہ پاکستان اور اہل پاکستان بلکہ نااہل پاکستان یعنی حکومتوں میں اضافے کا ’’رجحان‘‘ نہ ہو بلکہ ’’اضافے‘‘ کا یہ رجحان پاکستان میں ہر ہر سطح پر خاصا قوی ہے۔ مثلاً مہنگائی میں اضافے کا تیز رفتار رجحان، نرخوں میں بڑھوتری کا دن دو گنا رات چو گنا رجحان۔

ادھر تنخواہ بڑھائی کچھ ہماری

ادھر نرخوں کو اس نے آنکھ ماری

اور پھر خاص الخاص طور پر وزیروں، مشیروں، شیروں میں زبردست اضافے کا رجحان۔ عوامی نمایندوں کی تنخواہوں مراعات اور چوریوں کا بے پناہ رجحان۔ اور الا ماشااللہ:

زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لیے

یعنی شہزادوں کی شہزادی، نازنینوں کی نازنین اور مہ جبینوں کی ماہ جبین کرپشن کے حسن میں بے مثال اضافے کا رجحان، مطلب یہ کہ پاکستان میں ’’اضافے‘‘ کا رجحان کافی قوی اور پرانا ہے۔ لیکن اب کے جو اضافہ ہمارے ’’وقار‘‘ خاص طور پر ’’بیرونی وقار‘‘ میں ہوا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ ہمیں خود تو ’’بیرون‘‘ میں بلکہ اندرون میں بھی کوئی خاص جانکاری نہیں ہے لیکن اخبارات، چینلات، بیانات، سرکاریات اور پھر خاص طور پر اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کے بیرونی وقار میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

خاص طور پر کشمیر کے معاملے تو ساری دنیا کی آنکھیں چکا چوند ہو گئی ہیں، ہمارے وقار میں اس تیز رفتار اضافے سے۔ اور ہمارے خیال میں جو کچھ زیادہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ ہم اردو میڈیم ہیں اور اردو میڈیم کا کچھ بھی قابل اعتبار نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ہمارا خیال ہے کہ یہ سب کچھ جناب ٹرمپ کی با برکت اور بیش قیمت و با حرکت ’’قربت‘‘ سے ممکن ہوا ہے جب سے اس نے ہمارے وزیراعظم سے مل کر اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کشمیر کا نام لیا ہے تب سے دنیا نے دل و جگرکو تھام لیا ہے اور پہلے بھی یہی ہم تھے یہی کشمیر تھا اور اس کا نفع کثیر تھا لیکن۔ اب مجبوری ہے کہ ایسے موقع پر کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی ’’دُم‘‘ تو ہلتی دکھائی دے گی اور اب کے یہ ’’شیخ سعدی‘‘ کے چند شعروں کی ہے جو اس سے پہلے بھی ہم بتا چکے ہیں لیکن یہ شعر ہیں ہی اتنے مزیدار کہ دہرائے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔

گلے خوش بوئے در حمام روزے

رسد از دست محبوبی بہ دستم

بدو گفتم کہ مشکی یا عنبری

کہ از بوئے دلاویز تو مستم

بگفتا من گلے نا چیز بودم

ولے یک صدقے باگل نشستم

کمال ہم نشین در من اثر کرد

وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم

ترجمہ۔ ایک دن حمام میں مجھے ایک ’’محبوب‘‘ نے مٹی کا ایک ٹکڑا دیا جو بڑا خوشبودار تھا (پرانے زمانے میں حماموں کے اندر پکی مٹی کا ایک کھردرا ٹکڑا میل رگڑنے کے لیے کام آتا تھا اور کچی مٹی صابن کے طور پر جسم پر ملنے کے لیے) میں نے اس خوشبودار مٹی کے ٹکڑے سے پوچھا کہ تم مشک ہو یا عنبر جو تمہاری خوشبو مجھے مست کر رہی ہے۔

اس نے بتایا میں وہی حقیر مٹی ہوں لیکن اس پھول جیسے ’’جسم‘‘ سے لگی ہوئی ہوں اس لیے اسی کی خوشبو مرے اندر بھی رچ بس گئی ہے‘‘ پہلے اگر ہمیں اس کی شکل  دیکھ کر ’’ٹرمپ‘‘ کے بارے میں کوئی شک و شبہ تھا تو وہ نہیں رہا کم بخت کی قربت میں ’’کمال‘‘ ضرور ہے۔ اتنا کمال کہ مردے میں بھی جان ڈال دے۔ اب یہ بات تو ہمارے غیردانشور اور اردو میڈیم کھوپڑی سے بہت اونچی سطح کی کہ ادھر اس نے کشمیر کا نام لیا اور مودی نے ’’موذیت‘‘ سے کام لیا ایسا کہ دنیا نے دل و جگر تھام تھام لیا، کہیں اس میں بھی تو اس کمال ہم نشین نے۔ توبہ توبہ۔ چھوڑیے ہم بھی کیا انٹ شنٹ بول دیتے ہیں اردو میڈیم جو ہوئے نا۔بھلا:

ہے ہے خدانخواستہ ’’وہ‘‘ اور ’’دشمنی‘‘

اے شوق منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے

جاتے ہو کہاں اور کہاں کا خیال ہے

بیمار سائیکلوں کا یہی اسپتال ہے

خیر گولی ماریے وہ توہمارے لیول سے بہت اوپر اور مہنگائی سے تھوڑے نیچے ’’لیول‘‘ کی باتیں ہیں۔ ہم وقار کی بات کرتے ہیں جس میں ’’اضافہ‘‘ ہوا ہے اور مزید اضافے کا بھی قوی امکان ہے کیونکہ ہماری جو یہ ٹیم ہے کم از کم اپنے خیال میں ہارٹ فیورٹ ٹیم ہے۔ اندازہ اس شخص سے لگایے کہ ٹرمپ جیسا سخت ’’وکٹ‘‘ بھی لے لیا ہے۔

اب آپ شاید اپنے اردو میڈیم دماغ اور مڈل کلاس سوچ سے سوچیں گے کہ وقار یا وقار میں اضافے سے ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ملے گا تو جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ اردو میڈیم اور مڈل کلاس کو بارہ سال نلکی میں بھی رکھو تو نکالنے پروہی اردو میڈیم اور مڈل کلاس ہی نکلے گا، انگلش میڈیم کبھی نہیں بن پائے گا۔ بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔ اور ادرک کیا جانے لہسن کا ثواب۔ بیرونی اور عالمی سطح پروقار میں اضافے کا پتہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو خود بھی بیرونی اور عالمی سطح کے ہوتے ہیں۔ اور اس کے بارے میں ہمیں انگلش میڈیم کے دانشوروں سے بذریعہ اخبارات پتہ چلا ہے کہ جب سے پاکستان کے عالمی وقار میں اضافہ ہوا وہ لوگ جو پہلے پاکستانیوں کو تھو تھو کرکے دیکھتے تھے اب:

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

اور انھیں دیکھ کے ایک دم ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو انھیں مکھیاں چمٹتی ہیں

سنا ہے رات کو مچھر ٹھہر کے دیکھتے ہیں

ایک اردو میڈیم شاعر جب اردومیڈیم مشاعرے میں اپنا اردو میڈیم کلام سنا کر بے پناہ داد سے شرابور بن کر گھر لوٹا اور بیوی سے کھانے کا مطالبہ کیا تو بیوی نے خالی برتنوں سے اسے مسمار کر کے کہا کہ تم کچھ لائے ہوتے تو میں پکاتی۔ اب مرو بھوکے یعنی بیٹھے رہو تصور ’’واہ واہ‘‘ کیے ہوئے۔ اس پر شاعر نے کہا اری بھاگوان وہاں سے مجھے جو ’’داد‘‘ ملی ہے اور میرے وقار میں اضافہ ہوا ہے اس کے لیے میں بھوکا توکیا ’’پیاسا‘‘ بھی سو لوں گا، کچھ نہیں بولوں گا چپکے چپکے رو لوں گا اور خواب میں چیچڑوں کے ساتھ ہو لوں گا، ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں۔ تم کیا جانو کہ ’’وقار‘‘ اور پھر اس میں اضافے اور وہ بھی عالمی سطح پر۔ کا کیا مطلب ہے؟ چنانچہ ہم بھی اپنے کالانعاموں یعنی اردو میڈیموں سے کہیں گے کہ لگے رہو منا بھائی:

ابھی ’’تاروں‘‘ سے کھیلو ’’چاند‘‘ کی کرنوں سے اٹھلاو

ملے گی ’’ٹرمپ‘‘ کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔