حکومتی ٹیم معاشی بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکے گی؟

ارشاد انصاری  بدھ 18 ستمبر 2019
کپتان کچھ کر دکھانے کی لگن میں بہت جلدی میں دکھائی دے رہے ہیں اور ون ڈے میچ کی اسپیڈ سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

کپتان کچھ کر دکھانے کی لگن میں بہت جلدی میں دکھائی دے رہے ہیں اور ون ڈے میچ کی اسپیڈ سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

 اسلام آباد:  ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ماضی کی حکومتوں کی طرح پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی ایک سال پچھلی حکومتوں کو تمام ترخرابیوں اور برائیوں کو ذمہ دار قرار دے کرعوام کو گھبرانا نہیں کا کہہ کر تسلیاں دیتی رہی اور عوام قربانی کے جذبے کے ساتھ مسائل کے باوجود تبدیلی حکومت کی وکیل بنی رہی لیکن جسے مسائل سے نجات دہندہ کے طور پر عوام نے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا وہ ا س عرصے کے دوران عوام کی زندگیوں میں کوئی خاطرخواہ بہتری لانے کیلئے کوئی معجزہ نہیں دکھا سکے اور مسائل اس قدر گھمبیر ہوگئے کہ عوام کے معاملات گھبرانے سے بھی کہیں آگے نکل گئے ہیں اور ملک بھر میں مہنگائی،غربت و بے روزگاری کے مسائل میں پسی ہوئی عوام کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔

اب پچھلی حکومتوں پر ملبہ ڈالنے کا حکومتی بیانیہ بھی عوام میں دم توڑگیا ہے بلکہ اب عوام میں پچھلی حکومتوں کی یاد زیادہ ستانا شروع ہوگئی ہے اور لوگوں میں پرانے پاکستان کی تڑپ خواہش بن کر ابھر رہی ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہے۔

جس کو لے کر حکومت اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہے مگر مضبوط معاشی و سیاسی ٹیم کے فقدان کی وجہ سے عوام کیلئے کچھ کرنے میں بے بس دکھائی دے رہی ہے اور اس کی ایک بنیادی وجہ شائد سیاسی ناپختگی بھی ہے کیونکہ اس ایک سال کے اندر جہاں حکومت داخلی و خارجی محاذ پر درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہے وہیں خود حکومتی جماعت کے اپنی صفوں میں بھی اتحاد کا فقدان ہے اور حکومت کو ورثے میں ملنے والے اقتصادی، معاشی و سیاسی اور مالی مسائل نے شائد اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہوگا جو تحریک انصاف کے اندر موجود گروپ بندی اور پھر اتحادی جماعتوں کے ساتھ الائنمنٹ کے نہ ہونے سے پہنچا ہے اور پھر کپتان کی اسکی اپنی ٹیم کے ساتھ الائنمنٹ بھی ایک مسئلہ ہے۔

کپتان کچھ کر دکھانے کی لگن میں بہت جلدی میں دکھائی دے رہے ہیں اور ون ڈے میچ کی اسپیڈ سے کھیلنا چاہتے ہیں اور وہ اس معاملہ میں درست بھی ہیں کیونکہ صورتحال اسی اسپیڈ کا تقاضا کرتی ہے لیکن اس ون ڈے کی اسپیڈ سے میچ کھیلنے کیلئے کپتان نے ٹیسٹ میچ کی ٹیم کا انتخاب کیا ہے۔

جس کی وجہ سے کپتان کو اس ٹیم سے اس سپیڈ کے ساتھ نتائج نہیں مل پا رہے جس کی کہ توقع تھی اور ایک سالہ کارکردگی اسی ٹیسٹ میچ کا منظر پیش کر رہی ہے کہ ایک سال کے عرصے میں کوئی بڑا معرکہ سر نہیں کیا جا سکا ۔ کرنٹ اکاونٹ خسارے، تجاری خسارے میںکمی کے حوالے سے جو کامیابیاں کپتان کو پیش کرکے داد وصول کی جا رہی ہے وہ بھی محض نظروں کا دھوکہ ہے کیونکہ اس کی بھی حکومت اور عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے جبکہ اس کیلئے بھی حکومت کو توازن برقرار رکھنا چاہیے تھا اور اگر توازن برقرار رکھا جاتا تو شائد معیشت کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔

دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ملک کو مالی مسال سے نکالنے کیلئے آئی ایم ایف سے عجلت میں چھ ارب ڈالر کا پروگرام لیا گیا ہے مگر ابھی اس پروگرام کے معاہدوں کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے یہ پروگرام خطرے میں پڑ گیا ہے اور آئی ایم سٹاف مشن کی قبل ازوقت پاکستان یاترا نے آئی ایم ایف کے ساتھ اس پروگرام کے مستقبل بارے بہت سے سوالات اٹھادیئے ہیں اور یہ بھی کہ اب اگر آئی ایم ایف سے اعدادوشمار کے اہداف پر نظر ثانی پر اتفاق نہیں ہوتا تو مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے مسائل میںٕ پسی ہوئی عوام کو اسکی مزید کیا قیمت چکانا پڑے گی کیونکہ جن غیر حقیقتی شرائط کی بنیاد پر یہ پروگرام لیا گیا۔

ان کا پورا کرنا مشکل دکھائی دے رہا تھا اور اب وہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ پہلے اقتصادی جائزے سے قبل ہی آئی ایم ایف کا سٹاف مشن پاکستان آن پہنچا ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کیلئے طے کردہ شرائط پر نظر ثانی کی باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔اس وقت پاکستان میں موجود آئی ایم ایف کا سٹاف مشن مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور انکی معاشی ٹیم کے ساتھ اہم ملاقاتوں میں مصروف ہے اورآئی ایم ایف جائزہ مشن نے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں اس سٹاف مشن کا مقصد سیاسی و اہم قیادت سے ملاقاتوں میں بعض اہم نوعیت کے معاملات پر گارنٹیوں کی بھی باتیں ہوئی ہیں اور آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط پر عملدرآمد بارے سیاسی قیادت کے عزم پر بھی باتیں ہوئی ہیں کیونکہ جو مسائل درپیش ہیں ان کیلئے سخت فیصلے درکار ہیں جو سیاسی عزم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اب یہ آئی ایم ایف کا سٹاف مشن بیس ستمبر تک پاکستان میں ہی موجود ہے اس دوران یہ وفد کراچی بھی جائیگا، اس سٹاف مشن کے دورے کی تکمیل کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا کہ آئی ایم اکے ساتھ پروگرام کا مستقبل کیا ہے اور یہ کہ کیا یہ پروگرام ری نیگوشیئٹ ہوتا ہے تو اسکی کیا شرائط ہونگی اور اگر یہی اہداف حاصل کرنے پر بضد ہوتا ہے تو اسکی عوام کو کیا قیمت چکانا پڑے گی۔

اگر حکومت عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتی ہے تو اس سے اپوزیشن کا کام اور آسان ہوجائے گاکیونکہ اس وقت حکومت شدید دباو میں دکھائی دے رہی ہے اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اب تو اسٹیبلشمنٹ بھی بے چین دکھائی دے رہی ہے۔ بعض حلقوںکا خیال ہے کہ معاملات کو معمول پر لانے کیلئے مقتدر قوتیں بھی اب رجوع کرنے کی کوشش میں ہیں مگر اب دوسری جانب سے نرمی نہیں دکھائی جا رہی ہے اور مقتدر قوتوں کیلئے یہ صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ مخالف سیاسی قیادت کو توڑنے کی تمام تر کوششیں ثمر آور ثابت نہیں ہو سکی ہیں اور حالات جس قدر تیزی سے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں ایسے میں کوئی ایڈونچر ہو سکتا ہے۔

جس کا کوئی بھی متحمل نہیں ہو سکتا اور پچھلے کچھ دنوں میں سیاسی سطح پر جو اہم تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں انہی کو لے کر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اب شائد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما اپنے قائد کو اپنے رویے میں کسی حد تک نرمی لانے میں رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات کو آنے والے دنوں میں مزید معمول پر لایا جائے گا اور شائد اہم سیاسی قیادت ضمانتوں پر باہر بھی آجائے۔

اس کے علاوہ موجودہ حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے نگران حکومت قائم کی جائے گی اور پھر دوبارہ انتخابات کروائے جائیں گے نتیجے میں جو حکومت قائم ہوگی اسے مسائل کے حل کی ذمہ داری سونپی جائے گی، لیکن وہیں کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اب یہ اتنا آسان نہیں ہے شائد ان مقتدر حلقوں کیلئے بھی اتنا آسان نہیں ہوگا جو اہم اسٹیک ہولڈر تصور کئے جاتے ہیں اور بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کو اس وقت داخلی و خارجی سطر پر جومسائل درپیش ہیں وہ قومی یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں اس لئے بات قومی حکومت کے قیام کی جانب بھی بڑھ سکتی ہے لیکن یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔