آسام، کشمیر اور ہندوستان

س۔ الف۔احمد  جمعرات 19 ستمبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

آسام میں مسلمانوں کی نسل کشی 18 فروری 1983 میں شروع ہوئی تو 4 گاؤں میں صرف 6گھنٹوں میں تقریباً 10 ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا جسکے عینی شاہدین میں اخبار انڈین ایکسپریس کے سجندرا نارائن اور آسام ٹریبیون کے بینڈرا براٹا اور ABC کے شرما شامل تھے۔

قتل ہونیوالے وہ لوگ تھے جو آسام گورنمنٹ آف برٹش انڈیا کے زمانے میں بیسویں صدی کے پہلے دس سالوں سے یہاں بستے تھے۔ 1971 کی آزاد بنگلہ دیش لڑائی کے دوران اس سے پہلے اور بعد میں جو بنگلہ دیشی حالات سے تنگ آکر سرحد پار کر کے ریاست آسام میں آئے تو ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا جب کہ ان کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اب رجسٹریشن کے نام پر ان سے دستاویزی ثبوت مانگا جا رہا ہے کہ وہ 1971 یا 1964 سے پہلے کے رہائشی ہیں ورنہ ان کی شہریت تسلیم نہیں کی جائے گی اور انھیں نکلنا ہوگا۔ بنگلہ دیشی حکومت انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اب وہ جائیں تو کہاں جائیں۔ ان میں اکثریت ناخواندہ اور انتہائی غربت کا شکار ہے۔

اب اس کا حل یہ نکالا جا رہا ہے کہ انکو نازی طرزکے بڑے بڑے کیمپ بنا کر اس میں محصور کر دیا جائے۔ اس سنگین مسئلے پر جیو سائیڈ واچ نے جسکی شاخیں دنیا کے 24 ملکوں میں قائم ہیں وہاں کے حالات رپورٹ کر کے اقوام متحدہ میں بھیجے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 25 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ان کی شہریت سے محروم کر کے ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔

رپورٹ میں کشمیر کا بھی مفصل ذکر ہے اور اقوام متحدہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے ممبر ملکوں کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈال کر اس نسل کشی کو روکنے کا بندوبست کریں۔ ادھر کشمیر میں اتنے روزگزرنے کے باوجود بھارتی حکومت کرفیو اٹھانے پر تیار نہیں اور عالمی رائے عامہ اور اس کے اس ظلم کے خلاف دنیا بھر میں جاری عوامی مظاہروں اور پاکستان کی دنیا بھر میں جاری سفارتی مہم کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

کیا بھارتی حکومت کرفیو اٹھنے کے بعد لاوا پھٹنے سے پہلے عالمی پشت پناہی سے پاکستان کی مغربی سرحدوں پرکچھ اقدامات کا انتظار کر رہی ہے؟ جہاں پروردہ دہشتگردوں کی ٹیمیں اتر چکی ہیں اور اس طرح پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں پر انگیج کر کے اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کیا شکست خوردہ امریکا کی افغانستان میں طالبان سے بات چیت ناکام ہونے کے بعد وہ درپردہ کشمیر میں قدم جمانا چاہتا ہے؟ یہ جو ’’ ثالثی‘‘ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اس کے پیچھے کہیں ایک اور منصوبہ تو نہیں کہ حالات کے بگڑنے اور قابو سے باہر ہونے کا اور ایٹمی جنگ کے خطرے کا بہانہ بناکر آزادی کشمیر کے نام پر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کے زیر انتظام کشمیر کو ایک آزاد ریاست ڈکلیئر کروادیا جائے؟

کشمیر میں ایک بہت محدود اقلیت کے ذریعے یہ آوازیں بلند کروائی جا رہی ہیں کہ جی نہ ہم ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں نہ پاکستان کے ساتھ لہٰذا ہمیں ایک آزاد ریاست تسلیم کیا جائے جس میں پاکستان کا آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان وغیرہ شامل ہوں۔ بظاہر یہ منصوبہ ناقابل عمل نظر آتا ہے لیکن حکومت پاکستان کو اپنے دوست ملکوں جنکی سرحدیں ملتی ہیں یعنی روس، چین اور ایران وغیرہ سے اس پر باہمی مشاورت کے ذریعے حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عیاری و مکاری سے ترتیب دیے ہوئے اس منصوبے کی بیخ کنی کی جاسکے۔

ویسے تو کشمیری مسلمانوں کی اکثریت پاکستان کی آزادی کے اس نامکمل ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے جسکے ذریعے پاکستان کی شہ رگ کو بھارتی فاشسٹ حکومت کے حوالے ایک سازش کے ذریعے ختم کردیا گیا اور اب اس کی تلافی کا وقت اور موقع خود مودی نے فراہم کردیا ہے۔ پورے ہندوستان میں خوف وہراس کی فضا پیدا کر کے اور میڈیا کو اپنے قابو میں کرکے ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے جسکا مظہر ہجوی تشدد کے ذریعے ان کے قتل کے واقعات ہیں اس کے علاوہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کا معاشی قتل عام تو پہلے دن سے جاری ہے گائے ماتا کی بے حرمتی پر قتل بھی بہانہ ہے ورنہ ہندوستان تو گائے کے گوشت کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔

اگر یہی منطق ہے تو ان کے ہاتھ اس ایکسپورٹر تک کیوں نہیں پہنچتے جو روز ہزاروں گائے ماتاؤں کو قتل کرکے ان کا گوشت ایکسپورٹ اور اس کی کھال کے جوتے اور ہینڈ بیگ بناکر فروخت کر رہا ہے ہندوستان میں بسنے والے دلت، شودر، شیڈول کاسٹ اور سکھ ہندوتوا کے اس فاشسٹ نظریے کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں جب کہ انکو پتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کی باری بھی لگنے والی ہے۔ ہندوستانی حکومت کا ہندو اکثریت کا دعویٰ بھی محل نظر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بھارت کی آبادی اس وقت ایک ارب 34کروڑ ہے، اس میں 20 کروڑ کے قریب مسلمان،  3کروڑ عیسائی اور ڈھائی کروڑ سکھ، ایک کروڑ بدھ مت کے ماننے والے ہیں بقیہ آبادی میں 70 فیصد شودر اچھوت اور قبائلی ہیں اور برہمن کھشتری اور ویش 30 فیصد ہیں اور یہ 30 فیصد پورے بھارت پر حکمرانی کر رہے ہیں اور بقیہ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حتیٰ کہ انھیں شرف انسانیت سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔

پہلا پتھر تو ناگالینڈ والوں نے مار دیا ہے اور ان کی اسمبلی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک میں ان کے ساتھ ہیں۔ بقیہ ہندوستان میں واقعات پر جو تحریکیں چل رہی ہیں وہاں بھی یہی ردعمل ہوگا اور فاشسٹ مودی اپنے مکروہ عزائم کے ساتھ ایک منقسم بھارت کے عمل کو تیز کرنے کا باعث بنے گا۔

عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو حالات بڑی تیزی سے بدلتے نظر آرہے ہیں خاص طور پر مسلمان ممالک عراق، شام، لیبیا کو تباہ و برباد کر دیا گیا ہے لاکھوں مسلمان مارے گئے اور دربدر ہوئے، مصر میں ایک ڈکٹیٹر عوامی رائے عامہ کو مسترد کرکے بیٹھا ہے، یمن کی خانہ جنگی میں بیرونی ذرائع سے سیکڑوں مسلمان موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔

باقی بچ رہنے والے ممالک اپنی خیر منا رہے ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے اربوں ڈالرکا اسلحہ امریکی اور مغربی اسلحہ سازوں سے خرید کر اپنی حفاظت کی فکر میں ہیں، ایران پر پابندیاں لگا کر اس کی معیشت مفلوج کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو معاشی طور سے کمزور کرکے اور سیاسی انتشار میں مبتلا کرکے اسے فوجی طور سے بھی مشرقی اور مغربی بارڈر پر انگیج کرنے کی علامات نظر آرہی ہیں لیکن ان تمام حالات کے تناظر میں پاکستان میں عالم یہ ہے کہ ہم سفارتی مہم اور اندرونی جلسے جلوسوں میں ہندوستانی حکومت پر تبرا بھیج رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں بیشک فوجی محاذ پر ہماری تیاری بھرپور ہے لیکن سیاسی، انتظامی اور معاشی محاذ پر ہمیں وہ تیاری نظر نہیں آرہی جو آنیوالے حالات کا بھرپور مقابلہ کر سکے۔

ہمیں ان تمام معاملات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم اس وقت حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ حالات ہمیں ایک بڑی جنگ کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں۔ دشمن عالمی محاذ پر پوری طرح سرگرم ہے۔ بڑی طاقتوں کے مفادات اس کے ساتھ جڑے ہیں۔

ہماری امن کی خواہش اپنی جگہ لیکن مستقبل میں بنتے اس نقشے میں ہم کہاں کھڑے ہونگے؟انتظامی بگاڑ پیدا کرنیوالی قوتوں اور عوام کی زبوں حالی کی ذمے دار قوتوں کو نکیل ڈالنے اور سیدھے راستے پر ڈالنے کا یہ سنہری موقعہ قدرت نے دیدیا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ سود وزیاں سے بالاتر ہوکر عوام کے دیرینہ مسائل حل کر کے ان کی صفوں میں آجائے ورنہ یہ عوام دشمن اسے کہیں کا نہ چھوڑینگے۔ بیرونی سے زیادہ اس وقت اندرونی عوام دشمنوں سے انتہائی سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن اندرونی اور بیرونی محاذ پر ہماری صفوں میں کوئی شگاف نہ ڈال سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔