ایک اور طوفان انگڑائی لے رہا ہے ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 20 ستمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دے کر پاکستان نے جرأتمندانہ اور مستحسن اقدام کیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے مودی کی طرف تعاون اور محبت کا ہاتھ بڑھایا تھا جسے بھارت نے کچھ زیادہ ہی ایزی لے لیا تھا۔

پاکستان کے بڑھے ہُوئے دستِ تعاون کو بھارت نے شائد عمران خان کی کمزوری پر محمول کیا تھا، اِسی لیے نریندر مودی کی نخوت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتا رہا۔ مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر ڈالی۔ تب بھی یہ صاحب پاکستان سے یہی اُمیدیں رکھ رہے تھے کہ اُن سے ’’بڑے بھائی‘‘ کا سلوک کیا جاتا رہے گا۔ پاکستان نے بھارت کو اپنے مسل دکھائے ہیں تو اُسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کوئی دو ہفتے قبل بھارتی صدر، رامناتھ کووند، دِلّی سے آئس لینڈ جا رہے تھے۔ اُن کے جہاز کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا تھا۔ بھارت نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ اُن کے صدر صاحب کے طیارے کو پاکستان سے گزرنے کی اجازت دی جائے۔ پاکستان نے مگر انکار کر دیا۔

رامناتھ کووند آئس لینڈ پہنچ تو گئے لیکن بہت ہی لمبا چکر کاٹ کر۔ اس کے لیے جو بھاری اخراجات بھارت سرکار کو برداشت کرنا پڑے، یقیناً ان سے بھارتی صدر کو بھی چکر آ گئے ہوں گے۔ اب وزیر اعظم، مودی، دِلّی سے جرمنی جا رہے تھے۔ بھارت سرکار نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ مودی جی کو جرمنی جانے کے لیے 20 ستمبر 2019 کو اور جرمنی سے واپسی پر 28 ستمبر کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دی جائے۔ پاکستان نے مگر ترنت انکار کر دیا ہے۔

ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے : ’’پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی روئیے کو سامنے رکھتے ہُوئے نریندر مودی کو پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ بدھ کی شام اس فیصلے سے قائم مقام بھارتی ہائی کمشنر کو بھی آگاہ کر دیا تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں انڈیا جس ہٹ دھرمی پر اڑا ہُوا ہے، مقبوضہ کشمیر میں سخت کرفیو کو نہیں اُٹھایا جا رہا ، ایسے میں کشمیریوں سے کامل یکجہتی کا یہی تقاضا تھا کہ پاکستان مودی کے طیارے کو اپنی فضاؤں سے گزرنے کی اجازت نہ دے ۔ بھارتی صدر کی طرح اب بھارتی وزیر اعظم کو بھی نہایت لمبا، مہنگا اور تکلیف دِہ سفر طے کرکے جرمنی پہنچنا پڑے گا۔ مستحسن بات یہ ہے کہ پاکستان میں جتنی قوت اور مزاحمتی استعداد ہے، اُس نے اس کا بروقت اور بھرپور اظہار کیا ہے۔ عالمی برادری تک بھی ایک پیغام پہنچا ہے ۔

یہ پاکستان کی وسیع القلبی اور وسیع المشربی ہے کہ پاک بھارت کشیدگی اور بھارتی زیادتیوں کے باوصف پاکستان نے سِکھ برادری کے مقدس مقام ’’کرتار پور صاحب‘‘ سے متعلقہ راہداری مکمل کر دی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بھارت اس کا جواب بھی محبت سے دیتا۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا۔

بھارت نہ کشمیر میں مظالم سے باز آ رہا ہے اور نہ ہی بھارتی مسلمانوں پر ظلم ڈھانے سے۔ جو سیاسی اور بنیاد پرست ہندو مذہبی جماعتیں (بی جے پی اور آر ایس ایس) آج بھارت میں مودی کی سرکردگی میں برسرِ اقتدار ہیں، اِنہی جماعتوں کے غنڈوں نے28 سال پہلے ایودھیا میں موجود صدیوں پرانی بابری مسجد شہید کر ڈالی تھی۔ اب یہی بی جے پی اور آر ایس ایس والے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کے کارن بھارت ہی میں موجود ایک اور ’’بابری مسجد‘‘ شہید کرنے کے درپے ہیں۔

اسے ’’گیانپی مسجد‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ بھی صدیوں پرانی ہے۔ یہ قدیم مسجد بھارتی صوبہ اُتر پردیش میں وارنسی (بنارس) میں واقع ہے۔ اور اُتر پردیش وہ بھارتی ریاست ہے جس کا وزیر اعلیٰ ( یوگی ادیتیا ناتھ) کٹر ہندو  ہے۔ بھارتی مسلمانوں اور اسلامی شعائر سے اُس کی نفرت مسلمہ ہے۔

وارنسی یا بنارس کو ہندوؤں کے ہاں مقدس مقام حاصل ہے۔ اسے ’’کاشی‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو قدیم منادر کا مرکز ہے۔ دریائے گنگا کے کنارے واقع ہونے کے ناتے اِس شہر کو مزید احترام حاصل ہے۔ شِو دیوتا اور شِو لنگ کی پوجا بھی یہیں ہوتی ہے۔ رواں برس ہونے والے عام بھارتی انتخابات میں نریندر مودی نے لوک سبھا کا یہیں سے انتخاب لڑا تھا۔

دورانِ انتخاب جنونی ہندوؤں کے ووٹ بٹورنے کے لیے مودی جی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو یہاں 600 کروڑ روپے کی مالیت سے ’’کاشی وشوا ناتھ‘‘ مندر تعمیر کریں گے۔ جس تنگ جگہ یہ مندر تعمیر کیا جانے والا ہے، اس کے ارد گرد 45 ہزار مربع میٹر رقبے کی ضرورت ہے۔

اس کے حصول کے لیے یہاں لوگوں کے گھر بھی گرائے جا رہے ہیں اور قدیم عبادت گاہیں بھی۔ اس تباہی کی نگرانی اُترپردیش کے کٹر ہندو وزیر اعلیٰ، یوگی ادیتیا ناتھ، خود کر رہے ہیں کہ یہ وزیر اعظم مودی کا حکم بھی ہے۔ ’’کاشی وشوا ناتھ‘‘ مندر کی تعمیر کے لیے اب تک 300 گھر گرائے جا چکے ہیں۔ صدیوں پرانی ’’گیانپی مسجد‘‘ کو بھی وزیر اعلیٰ ادیتیا ناتھ شہید کرنا چاہتے ہیں۔ مقامی مسلمان مگر سخت مزاحمت کر رہے ہیں۔ بھارت بھر میں خوف کے سائے پھیل رہے ہیں کہ ایک اور ’’بابری مسجد‘‘ کی شہادت سے ایک نیا طوفان انگڑائی لے رہا ہے۔ نہیں معلوم اِس بار کتنے بھارتی مسلمانوں کو اپنے خون کا نذرانہ دینا پڑے گا!

بھارتی متشدد اور متعصب ہندوؤں کا کہنا ہے کہ ’’کاشی وشواناتھ‘‘ مندر کی تعمیر کے لیے اگر یہاں 20 کی تعداد میں قدیم مندروں کو مسمار کیا گیا ہے تو ’’گیانپی مسجد‘‘ کو بھی یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ اس مسجد کو شہید کرنے کے لیے مقامی متشدد ہندوؤں نے راتوں رات مسجد مذکور کے صحن کے ایک کونے میں ’’نندی‘‘ نامی بُت کی ’’دریافت‘‘ بھی کر لی تھی اور دعویٰ کیا کہ یہ پہلے مندر ہی تھا جسے صدیوں پہلے مسلمان بادشاہوں نے زبردستی مسجد بنا دیا تھا۔

یہ ڈرامہ اور سازش بھی مگر کامیاب نہ ہو سکی اور عدالت کے سامنے یہ جعلسازی ثابت بھی ہو گئی۔ ’’گیانپی مسجد‘‘ کے صحن میں ایک صوفی بزرگ کا مزار بھی ہے جہاں صدیوںسے ہر سال عرس بھی ہوتا آ رہا ہے۔ کئی سال قبل (1936 میں) بھی ہندوؤں نے اسے مندر بنانے اور یہاں بُت نصب کرنے کی کوشش کی تھی ۔ انگریز حاکم نے مگر اُنکے حقِ ملکیت کو مسترد کر دیا تھا۔ تقریباً 30 سال قبل بھارتی وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت کے دوران بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ ’’گیانپی مسجد‘‘ کو ہرگز مندر نہیں بنایا جا سکتا۔ نریندر مودی اور اُن کے تشدد پسند ہندو لیڈرز (بشمول  وزیر اعلیٰ اُتر پردیش) مگر اب اس مسجد کو شہید کر کے ’’کاشی وشواناتھ‘‘ مندر کی تعمیر کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔

وارنسی ( جہاں تین لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں ) کا ماحول بہت کشیدہ ہے۔ اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کشیدگی اُتر پردیش سے نکل کر بھارت بھر کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عرب ممالک میں تو حکمرانوں کی اجازت سے نئے نئے مندر تعمیر کیے جا رہے ہیں لیکن بھارت میں مسلمانوں کی قدیم مساجد کو شہید کرنے کی مہمات آگے بڑھ رہی ہیں۔ بھارتی ہندوؤں کی ذہنیت پر تبصرہ کرتے ہُوئے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے سچ کہا ہے: ’’بھارت پر انتہا پسندوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ مودی حکومت کی پالیسی آر ایس ایس کی پالیسی ہے جو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی ہے۔ انھوں نے بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔