چیف منسٹر انسپکشن، انکوائرئز عملدرآمد ٹیم غیر فعال

وکیل راؤ  جمعـء 20 ستمبر 2019
بہتر کارکردگی کے لیے انکوائریز کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے ساتھ دیگر انتظامی امور کو تبدیل کرنے کی تجویز دیں گے، عثمان چاچڑ
 فوٹو : فائل

بہتر کارکردگی کے لیے انکوائریز کا طریقہ کار تبدیل کرنے کے ساتھ دیگر انتظامی امور کو تبدیل کرنے کی تجویز دیں گے، عثمان چاچڑ فوٹو : فائل

کراچی: حکومت سندھ کا اہم ادارہ چیف منسٹر انسپیکشن،انکوائریز عملدرآمد ٹیم غیر فعال ہوگئی جب کہ اہم ترین محکمے کو عارضی بنیادوں پر چلایاجانے لگا مختلف محکموں کی500سے زائد انکوائریزکئی سال سے زیرالتواہیں۔

ایک سال کے دوران وزیراعلیٰ انسپیکشن ٹیم کے5 سربراہ تبدیل کیے گئے ، سی ایم آئی ٹی کے 4 میں سے 3 ممبرز سمیت انتظامی شعبوں کی 34 سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ سندھ میں صوبائی محکموں میں ترقیاتی منصوبوں اور انتظامی معاملات میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لیے قائم سی ایم آئی ٹی غیر فعال ہوکر رہ گئی ہے۔

انسپیکشن ،انکوائریز ٹیم کاکام وزیراعلیٰ کی جانب سے دیے گئے احکام پر انکوائریزکی تحقیقات کرنا جبکہ سندھ بھر کے تمام انتظامی محکموں اور انکے ذیلی شعبوں میں انتظامی امور میں خلاف ضابطہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔ سندھ میں وزیراعلیٰ انسپیکشن ومعائنہ ٹیم کا اہم محکمہ گزشتہ کئی سال سے عارضی بنیادوں پر چلایاجانے لگا ہے۔

وزیراعلیٰ انسپیکشن وانکوائریز ٹیم کے چیئرمین کیلیے گریڈ 20 کے سینئر افسر کو تعنیات کیا جاتاہے جو صوبے بھر کے سرکاری دفاتر میں صفائی ستھرائی کے امور،تمام محکموں کے انتظامی امور کی نگرانی کرتا ہے سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ ایک سال کے دوران وزیراعلی معائنہ وانکوائریز ٹیم کے 5 چیئرمین تبدیل کیے جاچکے ہیں جبکہ کئی چیئرمینز کو عہدے کا اضافی چارج دے کر کام چلایا گیا۔

جنوری 2019 میں مختار حسین سومرو کو چیئرمین تعنیات کیاگیا جبکہ صرف 21 روز کے لیے مارچ2019  میں آصف حیدرشاہ کو معائنہ ٹیم کا سربراہ مقرر کیاگیا، گریڈ20 کے افسر خان محمد مہر2ماہ کے لیے جبکہ شمس الدین سومرو بھی 2ماہ کے لیے اضافی چارج کے ساتھ وزیراعلی معائنہ ٹیم کے چیئرمین تعنیات کیے گئے۔

16 ستمبر 2019 کو سندھ حکومت نے وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم کے چیئرمین کے لیے ڈاکٹر عثمان چاچڑکی تقرری کی ہے۔ انسپکشن ٹیم میں 5 ممبرز میں سے 4 اسامیاں خالی ہیں صرف ایک ممبر کو تعنیات کیاگیاہے دوسرے ممبر اضافی چارج پر محکمے میں کام کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔