اظہار یکجہتی یا دکھاوا

بے حسی انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے اور دکھاوے کی عادت انسانیت کے جذبے کا اندر ہی اندر قتل کردیتی ہے


دعا مرزا September 23, 2019
کیا کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پانچ منٹ کھڑے ہونے سے کشمیر آزاد ہوجائے گا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کچھ عرصہ قبل میری ملاقات کارکنان تحریک پاکستان کے نائب صدر ڈاکٹر رفیق سے ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب وہ حیات شخصیت ہیں جنہوں نے براہ راست قائداعظم سے ملاقات کی۔ تحریک پاکستان کے وقت وہ نویں جماعت کے طالبعلم تھے۔ بتانے لگے کہ اس وقت پاکستان حاصل کرنا ایک ناممکن سا خواب تھا، مگر قائداعظم اس قدر پراعتماد تھے کہ ہمیں لگتا تھا اچانک کوئی جادو ہوگا اور اگلی صبح ہی آزادی ہمیں گلے لگالے گی۔

وہ نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہنے لگے بیٹی یقین کرو جب قائداعظم اسٹیج پر آتے تھے تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان کا ولولہ اور جذبہ ہمارے خون کو گرماتا اور ہم کٹ مر جانے کےلیے بھی تیار تھے۔ ان کا انداز ایسا تھا کہ اتنے بڑے مجمعے میں ہر کسی کو لگتا تھا کہ قائداعظم صرف اسی سے بات کررہے ہیں اور جلسے کے بعد ہر نوجوان یہ ذمے داری قبول کرتا کہ اس کا کردار پاکستان کی ایک اینٹ بنانے میں مدد دے گا۔

میں ان کو بڑے غور سے سنتے سنتے اچانک ہی خیال میں کھوگئی تو ذرا سخت لہجے میں بولے ''کیا تم میری بات نہیں سن رہیں؟'' میں نے ایک منٹ ان کو دیکھا اور پھر ہڑبڑا کر بولی کہ آج بھی صورت حال کچھ ویسی ہی ہے مگر قوم جیسے ایک ہی جگہ رکی ہوئی ہے۔ انھوں نے پوچھا ''کیا ہوا تمہیں؟ کیا سوچ رہی ہو؟''

میں نے خود کو جذباتی ہونے سے روکا اور تحمل سے کہا کہ اس وقت پاکستان تھا، آج کشمیر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ریاست ہے مگر انسانیت کی آزادی کےلیے جدوجہد جاری ہے لیکن یہ تمام کاوشیں اتنی پھیکی کیوں ہیں؟ میں جیسے ہی آفس جاتی ہوں پتہ چلتا ہے کہ فلاں جگہ کشمیر کانفرنس ہے، فلاں وقت ریلی ہے، فلاں مقام پر ایک منٹ کی خاموشی ہے، فلاں ایوان میں آج پانچ منٹ کھڑے ہونا ہے۔ میں جب بھی اظہار یکجہتی کو بطور صحافی کور کرنے جاؤں تو وہاں منظر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ بچے لڑ رہے ہیں کہ تمہارا پلے کارڈ اچھا نہیں ہے میں نے اچھا بنایا۔ استاد بحث کر رہے ہیں کہ کیمرے میں تصویر میری آئے گی۔ پھر اچانک درجنوں آوازیں آتی ہیں کہ میڈم یہ ٹی وی پر کب آئے گا؟

ڈاکٹر صاحب نے کہا ''میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں ولولہ شامل ہے، لیکن نجانے بہتا دریا رک کیوں گیا۔ بھلا گھر بیٹھے، شوبازی کرتے ہوئے بھی کبھی اظہار یکجہتی ہوا ہے؟

ایک گہری آہ بھرتے ہوئے کہنے لگے ''اس قوم کو اقبال جیسے شاعر کی ضرورت ہے۔ وقت کو خان صاحب کے پانچ منٹ کھڑے ہونے کی نہیں، محمد علی جناح جیسا فہم اور خلوص نیت چاہیے۔ حالات کو طلبا کے پلے کارڈز کی نہیں بلکہ درد دل کی چاہت ہے۔''

میں سوچوں کا ایک سمندر لیے واپس لوٹی۔ راستے میں دور تک ٹریفک بلاک تھا۔ لوگ گرمی سے ایک دوسرے کو برا بھلا بول رہے تھے۔ میں نے رکشے والے سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا تاجر کمشیریوں سے اظہار یکجہتی کےلیے ریلی نکال رہے ہیں اور پچھلے آدھ گھنٹے سے ایک ہی جگہ اس لیے کھڑے ہیں کیونکہ میڈیا کے سارے لوگ ابھی تک نہیں پہنچے۔ اس جملے نے میرے ذہن پر ضرب لگائی۔

آپ سب یہ فیصلہ کریں کہ کیا ہمارے ضمیر مرچکے ہیں یا ہم اس قدر خودغرض ہوگئے ہیں۔ ہمیں کسی معاملے کی شدت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا یا پھر ہر شخص نے منہ موڑ لیا ہے۔ حکمرانوں کے الفاظ بے اثر ہوگئے ہیں یا ہمارے دلوں پر مہر لگ چکی ہے۔ جدت کے اس دور میں کیا بس اشتہار کےلیے ہر کام کرنا لازم ہوگیا ہے؟ پھر وہ جو نانی اماں کہتی تھیں ''نیکی کر دریا میں ڈال'' وہ بیکار بات تھی کیا؟

یہ سب سوال میرے اندر طوفان برپا کیے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام لینے سے زیادہ ان کی خواہشات بتانا ضروری ہے۔ آپ جب بھی ان سے کہیں راہ چلتے ملیں یہ آپ کو اپنا وزیٹنگ کارڈ پکڑائیں گے جس پر کالی سیاہی سے ان کا نام لکھا ہوگا اور نام کے بالکل نیچے موٹے الفاظ میں ظاہر ہوگا کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کےلیے بنائی گئی کسی تنظیم کے چیئرمین ہیں، جیسے ان کی خدمات کو سراہا جائے تو ہی کشمیر فتح ہوگا۔ موصوف ہر وقت کیمرے کے منتظر رہتے ہیں۔ مل کر کہنے لگے کشمیر کے حالات بہت برے ہیں، مجھ سے شاٹ لیں۔

میرا دماغ گھوما اور میں نے سوچا کہ ان کے ساتھ فیس بک پر لائیو جاؤں۔ لائیو وڈیو شروع ہوئی، موضوع تھا کشمیر کی تازہ صورتحال۔ میں نے پوچھا آپ وہاں کیوں نہیں جاتے؟ کہنے لگے وہاں میڈیا نہیں ہے میں کیسے اپنی آواز اٹھاؤں گا؟

جناب دعویٰ کرتے ہیں کہ گزشتہ تیس سال سے انسانی حقوق کےلیے کام کررہے ہیں۔ میں نے ذرا سخت لہجے میں سوال کیا کہ انسانی حقوق کو پامال کرنے کی بدترین مثال کشمیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ عالمی میڈیا کہاں ہے؟ عالمی طاقتیں کیوں خاموش ہیں؟ مجھے شدید افسوس ہوا جب اس کے جواب میں وہ مجھے بتانے لگے کہ وہ گورنر پنجاب سے دو بار مل چکے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ایک مرتبہ کھانا بھی کھایا ہے اور ہاں بینظیر کے ساتھ ان کی تصاویر بھی ہیں۔ بس آپ اندازہ لگالیجئے کہ انسانی حقوق پر ان کا اتنا ہی کام ہے۔

بات کا مقصد یہ ہے کہ بس کیمرے کے سامنے نمائشی دعوے کرنے کے علاوہ یہاں سب بے مقصد یے۔ ان کے دلوں میں زخم نہیں ہے جس سے خون رستا ہو۔ یہ سب بس منافقت ہے۔ لائیو وڈیو کے دوران بہت سے دانشوروں نے سوال کیے مگر وہ کسی ایک بات کا بھی ڈھنگ سے جواب نہ دے سکے۔

ہمیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ بے حسی انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتی ہے اور دکھاوے کی عادت انسانیت کے جذبے کا اندر ہی اندر قتل کردیتی ہے۔ حدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ورنہ ظاہری طور پر تو ہر دوسرا شخص جنتی ہے۔ یاد رکھیں اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور یہ وہی ہے جو ہمارا پردہ رکھے ہوئے ہے۔ خدانخواستہ کسی روز ہم سے اظہار یکجہتی کا ہی حساب مانگ لیا گیا تو ہم بہت بری طرح شرمندہ ہوں گے۔ پلے کارڈز اٹھا کر دنیا کو ضرور بتائیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں، لیکن خود میں یہ احساس زندہ رکھیں کہ واقعی ہم یکجا ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں