جدید موبائل فون: سہولت یا زحمت؟

محمد مشتاق ایم اے  بدھ 25 ستمبر 2019
موبائل کے حد درجہ اور بے جا استعمال نے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

موبائل کے حد درجہ اور بے جا استعمال نے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

الیگزینڈر گراہم بیل نے جب 1876 میں ٹیلی فون ایجاد کیا تھا تو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا اکیسویں صدی کے آتے آتے اس کی ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی ہوجائے گی کہ یہ ایسے جدید موبائل کی شکل اختیار کرلے گا کہ ایک دنیا اس کی دیوانی ہوجائے گی۔ اور ایسی دیوانی ہوگی کہ لوگ سونا جاگنا تک بھول جائیں گے اور رات دن اسی کے ہوکر رہ جائیں گے۔

ہم اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ایک خواب کو تعبیر ملتے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور وہ ایسے کہ بہت بچپن میں ہم نے اسکول میں کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ مستقبل میں ایسے ٹیلی فون بھی بنانے ممکن ہوں گے، جن میں ہم ٹیلی فون کرنے والے کی آواز کے ساتھ اس کی تصویر بھی دیکھ سکیں گے۔ سچی بات یہ کہ اس وقت ہم نے یہی سمجھا کہ کتاب والے نے بہت لمبی چھوڑی ہے۔ بھلا ایسے کہاں ممکن ہے؟

گراہم بیل کی ساری محنت تو صرف اس بات پر تھی کہ دو آدمی دور سے ایک دوسرے کی آواز سن سکیں، لیکن جب انٹرنیٹ اور کمیونی کیشن کی دنیا میں انقلاب آیا تو گویا موبائل تو زندگی کے ساتھ لازم و ملزوم بن کر رہ گیا۔ آج سے پچھلے بیس سال کی ترقی نے جہاں دنیا کی حالت بدل کر رکھ دی، وہیں موبائل فون بھی کئی نئی جہتوں میں متعارف ہوتا ہوا آج سینہ تان کر ایسے ہمارے سامنے کھڑا ہے جیسے اس ساری دنیا کو اسی نے تھام رکھا ہو۔ ویسے یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے کہ اب شاید ہی ایسا انسان ہو جس کے پاس کوئی نہ کوئی موبائل فون موجود نہ ہو۔

کچھ عرصہ پہلے تک موبائل کسی کی پرسنالٹی کا سمبل سمجھا جاتا تھا اور جس کے پاس موبائل فون ہوتا دوسرے لوگ اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے اور اسے کسی اور دنیا کی مخلوق سمجھتے اور خود اس کے ساتھ بیٹھنا بھی قابل عزت سمجھتے۔ بعد میں اس فیلڈ نے اتنی ترقی کرلی کی اس کی قیمت کم ہوتی گئی۔ ہر گلی محلے میں موبائل کی خریدوفروخت ہونے سے یہ ہر گھر کا لازمی حصہ بن گیا۔ یہاں تک کہ اب یہ صورتحال ہے کسی کے پاس ایک موبائل ہے تو کسی کے پاس دو، تین چار، پانچ تک موبائل فونز ہیں۔ مزید یہ کہ ایک ہی موبائل فون میں ایک کے بجائے دو، تین اور چار سمیں بیک وقت لگائی جاسکتی ہیں۔ گویا ایک ہی فون میں چار کنکشن دستیاب ہیں اور پھر بھی کئی لوگوں کی ضروریات کےلیے یہ کافی نہیں ہیں۔ جبکہ ایک وقت تھا کہ بندہ آنکھ سے اوجھل ہوجاتا تو جب تک قسمت سے دوبارہ نہ ملتا اس کی کوئی خیر خبر بھی پتہ نہ چلتی۔ بس ایک ڈاک کے ذریعے خط بھیجنے کا سلسہ تھا، جس کے ذریعے بھی رابطہ ہفتوں اور مہینوں بعد ہی ہوپاتا تھا۔

ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ جو بھی چیز وجود میں آتی ہے تو ایجاد کے وقت وہ اس زمانے کے لحاظ سے ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز ہوتی ہے اور دنیا اس کے بارے میں سن اور جان کر حیران و ششدر رہ جاتی ہے اور اس کو حاصل کرنے کی سعی میں لگ جاتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور اس چیز کو استعمال کرنے کے ساتھ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں تو کچھ نقائص بھی ہیں، جو اگر ٹھیک ہوجائیں تو بہت اچھا ہوجائے۔ اس لیے اس چیز کو بنانے والے کاریگر اور فیکٹریاں پوری کوشش کرتی ہیں کہ اس چیز کے سامنے آنے والے نقائص کو جلد دور کردیا جائے اور ساتھ ہی اس میں شامل فیچرز کو بڑھایا جائے۔ اس طرح کی کوششوں میں کچھ ہی عرصہ میں اس چیز کی نہ صرف شکل تبدیل ہوجاتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی بھی پہلے سے بہتر ہوجاتی ہے۔ وہ چیز مارکیٹ میں آجانے کے کچھ ہی عرصہ میں اپنی پہلے والی قیمت بھی کھودیتی ہے، کیونکہ اس وقت مارکیٹ میں وہی چیز نئے فیچرز کے ساتھ آ موجود ہوتی ہے جو پرانی پروڈکٹ کی قیمت کو گھٹا دیتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے اور زندگی کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔

موبائل فون جب پہلی بار مارکیٹ میں آیا تو ایک اس کا سائز بہت بڑا تھا، دوسرے اس کا وزن زیادہ تھا، تیسرے اس میں سادہ سے فیچرز تھے اور چوتھے اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ لیکن پھر بھی اس وقت جو لوگ اسے خریدنا افورڈ کرسکتے تھے، ان کےلیے یہ کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ موبائل کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور ہر کوئی اس نئی ایجاد سے مستفید ہونے کےلیے بے تاب ہونے لگا۔ وقت کے ساتھ موبائل بنانے والی مزید کئی کمپنیاں مارکیٹ میں آنے سے موبائلوں کی قیمت کم ہوگئی اور پھر یہ چھوٹے بڑے، امیر غریب، مرد عورت کی زندگی کا لازمی جزو بن کر رہ گیا۔

اب موبائل خریدنا کسی کےلیے کوئی مسئلہ نہیں رہا، اب تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کس کمپنی کا موبائل لیا جائے اور سم کسی کمپنی کی لی جائے۔ بلکہ اب ایک ہی موبائل میں مختلف کمپنیوں کی سم ایک وقت میں چل رہی ہیں۔ لہٰذا اب آپ ایک وقت میں کئی موبائل کمپنیوں کے کسٹمر بن کر دنیا سے رابطے میں رہ سکتے ہیں۔

چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ الیگزینڈر گراہم بیل کی مہربانی اس نے ٹیلی فون ایجاد کرکے ہمیں دیا تاکہ ہم اپنے پیاروں سے رابطے میں رہیں اور غمی خوشی کے موقع پر فوراً اطلاع دے کر یا وصول کرکے کم سے کم وقت میں وہاں پہنچ جائیں۔ یہ بھی مان لیا کہ ٹیلی فون کی ترقی یافتہ شکل یعنی ماڈرن موبائل فون سے یہ مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اس کے علاوہ جب سے انٹرنیٹ کی سہولت موبائل فون پر دستیاب ہوئی ہے تو اس سے ہماری کئی دوسری مشینی اشیاء سے جان ہی چھوٹ گئی ہے، جیسے اس جدید موبائل کے ہوتے ہوئے آپ کو وقت معلوم کرنے کےلیے اپنی کلائی پر ایک سستی یا مہنگی گھڑی باندھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی ضرورت اب نہیں رہی۔ ٹی وی والا کام بھی اب موبائل سرانجام دے رہا ہے۔ ہر وہ چیز اب موبائل پر دیکھی اور سنی جاسکتی ہے جس کےلیے پہلے آپ کو ٹی وی کے سامنے بیٹھنا ضروری تھا۔ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کسی دور میں اپنی دھاک بٹھائے ہوئے تھے، لیکن لیپ ٹاپ ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی نے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کی عزت خاک میں ملا کر رکھ دی۔ جسے دیکھو ایک چھوٹے سے بیگ میں کمپیوٹر لے کر پھر رہا ہے۔ جب اور جہاں دل کیا، وہیں کھول کر بیٹھ گئے۔ اپنا کام کیا اور بند کرکے دوبارہ بیگ میں ڈال دیا۔ اس جدید موبائل نے تو اس لیپ ٹاپ کو بھی مات دے دی۔ اب وہی سب کام موبائل کے ذریعے بھی سرانجام دیا جارہا ہے کیونکہ کمپیوٹر کے بہت سارے فنکشنز اب جدید موبائل فون میں دستیاب ہیں۔

کسی زمانے میں کسی پارٹی یا ٹور کا پروگرام بنتا تو پہلے یہ فکر ہوتی کہ کہیں سے کیمرے کا بھی انتظام کرنا ہے۔ پھر اس میں فلم ڈلوانی پڑتی تو دکاندار پوچھتا کہ 24 والی فلم ڈلوانی ہے یا 36 والی۔ اس کے بعد بڑی احتیاط اور محنت سے فوٹو بنائے جاتے۔ فلم پوری کرنے کے بعد وہ نیگیٹوز کسی فوٹو شاپ سے ڈیولپ کرانے پڑتے۔ کئی بار اس میں سے کئی فوٹوز ضائع ہوجاتے تو بڑا افسوس ہوتا کہ وہ فلاں والی تصویر تو آئی نہیں۔ اور پھر ہم اسے دوبارہ نہیں لے سکتے تھے کہ ہم ٹور سے واپس گھر پہنچ چکے ہوتے تھے۔ اس جدید موبائل فون نے، جس میں 2 میگا پکسل سے نجانے کتنے زیادہ پکسل تک کا کیمرہ فٹ ہوتا ہے، اس سارے جھنجھٹ سے ہی نجات دلا دی ہے۔ کیونکہ اس چھوٹی سی ڈیوائس سے اب دو چار، پانچ دس نہیں بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں تصویریں لی جاسکتی ہیں اور وہ بھی بہت اعلیٰ کوالٹی کی، اور اسی لمحے دیکھی بھی جاسکتی ہیں۔ اگر کسی میں کوئی خرابی نظر آجائے تو فوراً دوبارہ لی جاسکتی ہے اور بعد میں ڈیولپ کرانے کی ضرورت بھی نہیں۔ اپنے موبائل یا پھر کمپیوٹر پر محفوظ کرکے جب مرضی دیکھی جاسکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی اس چھوٹے سے موبائل میں ویڈیو کیمرہ کی سہولت بھی دستیاب ہے، جس سے آپ کہیں بھی کبھی بھی نہ صرف ریکارڈنگ کرسکتے ہیں بلکہ اسے براہ راست انٹرنیٹ پر نشر بھی کرسکتے ہیں۔ اس سے آپ کو پہلے کی طرح الگ سے مووی کیمرہ پر پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور یہ سہولت ہر وقت آپ کی جیب میں موجود ہوتی ہے۔

جدید موبائل میں ایسے سینسرز بھی لگا دیے گئے ہیں جس کی بدولت آپ کے دل کی دھڑکن، آپ کے چلنے کے قدموں کی تعداد، موسم کی پیش گوئی، آپ کے کسی مقام پر موجود ہونے والی جگہ کی اطلاع اور دنیا جہان کی خبریں اور معلومات آپ کی انگلی کی نوک پر رکھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی فیچرز ان جدید موبائل فونز کا حصہ ہیں۔

یہ تھا اس تصویر کا ایک رخ جو ہر لحاظ سے اچھا لگتا ہے اور ہر کسی کے دل کو بھاتا ہے۔

اب آئیے اس تصویر کے دوسرے رخ کی طرف، جس کی طرف ہماری پیٹھ ہے اور ہم صرف اس کا ایک رخ دیکھ کر ہی واہ واہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ترقی کی اس معراج پر خود کو موجود پاکر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جب سے یہ موبائل فون، انٹرنیٹ اور کئی مزید فیچرز کے ساتھ مزین ہوئے ہیں اس نے ہم کو ایک دوسرے سے بیگانہ کرکے رکھ دیا ہے۔ کیونکہ اب صرف یہی سب کا سگا ہے، باقی سب تو سوتیلے لگنے لگے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہماری بزرگ نسل کو ہوا کہ اب ان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی بات کرنے والا ہی نہیں رہا۔ پہلے کبھی بیٹا، پوتا، بھانجا، بھتیجا اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر ان کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے مگر اب ان کی اپنی مصروفیات کے علاوہ بھی کرنے کو بہت کچھ ہے کہ جدید موبائل ان کے ہاتھ میں ہے۔ جس کی وجہ سے گلوبل ولیج ان کے سامنے بچھی پڑی ہے۔ وہ گھر، دکان یا دفتر میں بیٹھے اپنے دور کے جاننے والوں سے تو رابطے میں ہیں مگر ساتھ بیٹھے ہوؤں سے انجان ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس بیرون ملک دوستوں سے آڈیو اور ویڈیو کال کا تو وقت ہے مگر اپنی فیملی کو دینے کےلیے کھری کھری باتوں کے علاوہ کچھ نہیں۔

اس جدید موبائل کی بیماری کی بدولت ہماری جوان اور نوجوان نسل بیکار ہوتی جارہی ہے۔ وہ واکنگ ٹریک، پارک اور رشتے داروں کے گھر جانے کے بجائے گھر کے کونوں کھدروں میں بیٹھ کر موبائل کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا ایپلی کیشنز نے اس معاملے میں رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ اس موبائل کے ذریعے سوشل میڈیا پر کوئی دانشور، سیاستدان، ماہر معاشیات، مایہ ناز قانون دان، ماہر تجزیہ کار اور کئی تو ججوں کی کرسیاں تک سنبھالے بیٹھے ہیں۔ اور عملی طور پر حالت یہ ہے کہ پھٹی ہوئی، کٹی ہوئی پینٹ پہن کو خود کو ترقی کی معراج پر بٹھائے بیٹھے ہیں۔ سلوٹ زدہ شرٹ پہن کر اس کو فیشن کا نام دے رہے ہیں۔ ہمارے نام نہاد سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر سوشل میڈیا پر ان کی تشہیر کررہے ہیں اور اپنے مخالف نظریات رکھنے والوں کی برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ علم ان کا سوئی کے ناکے کے برابر اور تبصرے ایسے کہ سمندر بھرجائیں۔

اس جدید سہولت نے صحافیوں کے ایسے غول پیدا کردیے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اب کسی سے لڑنا ہو، اس کی مٹی پلید کرنا ہو، پوری دنیا کو اپنی کم علمی کا پیغام دینا ہو، عید اور دیگر کسی واقعے یا تہوار کی اطلاع دینا ہو فوراً بغیر تحقیق کیے اور بغیر اس بات کا لحاظ کیے کہ اس سے کسی بے گناہ کا کتنا نقصان ہوگا، دھڑا دھڑ پوسٹیں شیئر کررہے ہیں۔ نہ ہی کوئی ان کو روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا۔

اس وبا نے دفاتر میں اسٹاف کی کارکردگی کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ ہر کوئی بس اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ چھپ چھپا کو کوئی تیر مار لے اور اپ ڈیٹ حاصل کرلے۔ یہاں پر زیادہ مسئلہ ان اداروں میں بن رہا ہے جو براہ راست عوام کو ڈیل کرتے ہیں، جیسے اسپتال، کچہری، دینی اور دنیاوی تعلیمی ادارے وغیرہ۔ یہ وبائی بیماری اس لیے ہے کہ یہ ایک سے دوسرے کو فوراً لگتی ہے۔ اور آگے بڑھیے اور اس ترقی پر اپنا سر دھنیے کہ ’’بڑے تو بڑے چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘ کے مصداق ننھے منے بچے بھی اس کے اس قدر شیدائی ہیں کہ ان کے کیا کہنے۔ ذرا سی بھی سمجھ بوجھ والا بچہ موبائل اپنے والد یا والدہ کی جیب میں نہیں رہنے دیتا اور کئی تو ابھی اپنے بیڈ سے نیچے اترنے کے قابل نہیں ہیں لیکن اس کے میوزک پر تھرکنا شروع کردیتے ہیں۔ جن کو ابھی میوزک کی سمجھ نہیں وہ موبائل کی لائٹ ہی آن آف کروا کر دل پشوری کرلیتے ہیں۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کو والدین کو اپنے بچوں کےلیے جھولے کے بجائے موبائل لینے پڑیں گے۔

ذرا بڑے بچے تو اپنے دودھ والے فیڈر کے بجائے موبائل لینے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ کوئی وڈیو گیمز کھیل رہا ہے تو کوئی کارٹون لگا کر بیٹھا ہے اور جب تک موبائل کی جان میں جان ہے، یعنی اس کی بیٹری باقی ہے تو کوئی مائی کا لعل بچوں سے موبائل لے نہیں سکتا۔ والدین کو ویسے بہانہ مل گیا ہے کہ چلو اس طرح چپ کرکے تو بیٹھے رہیں گے اور ہمیں تنگ نہیں کریں گے۔ کیونکہ والدین کے پاس بچوں کےلیے آج کل وقت ہی کہاں ہے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہورہے ہیں۔

اس تصویر کا ایک بھیانک رخ یہ ہے کہ اب ہر موبائل میں ساکت اور وڈیو کیمرہ ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کون کسی کی خفیہ وڈیو بنارہا ہے۔ کون کسی کو بتائے بغیر اس کی تصویر بنارہا ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کا یہ سب سے آسان اور محفوظ طریقہ ہے۔ خاص کر شادی بیاہ کے موقعوں پر خواتین کیمرے کی سہولت کو بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں اور پھر دوسری خواتین کی تصاویر نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں۔ اسی لیے آج کل کچھ لوگوں نے شادی کے کارڈز پر یہ لکھوانا شروع کردیا ہے کہ خواتین کے ہال میں موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس موبائل کی ایسی کرامات کی تازہ مثال احتساب عدالت کے ایک جج ارشد ملک کی خفیہ وڈیو ریکارڈنگ کی ہے، جس نے اس بے چارے کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اس لیے مرد و خواتین کے مخلوط پروگراموں میں موبائل کیمرہ انتہائی خطرناک صورتحال کا باعث بن سکتا ہے اور بن رہا ہے۔

اسی طرح ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور یہاں تک کہ سینما ہاؤسز میں بھی ان خفیہ کیمروں کا استعمال اب معمول بن چکا ہے اور معاملہ صرف تصویر یا ویڈیو بنانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اگلے دن یہ ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوجاتی ہے۔ ایسی حرکات کی بدولت اب ایک دوسرے پر اعتماد اٹھ چکا ہے اور ہر کوئی انجانے خوف میں مبتلا ہوکر ڈپریشن کا شکار ہوچکا ہے۔

اب آئیے اس کے سب سے نازک پہلو کی طرف۔ اور وہ ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں اس کی اجازت اور استعمال۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بہت حد تک اب مخلوط تعلیمی سلسلہ چل رہا ہے۔ جہاں لڑکے اور لڑکیاں مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور فارغ وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے کے ساتھ دوستیاں اور محبتیں بھی پال لیتے ہیں۔ ان دوستیوں اور محبتوں کے لمحات میں وہ ایک دوسرے کی تصویریں اور ویڈیوز بھی بناتے رہتے ہیں اور جب ہوش آتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہی تصویریں اور ویڈیوز ان کو بلیک میل کرنے کےلیے کام میں لائی جاتی ہیں، جس سے کئی لڑکیاں اپنی جان تک لینے پر تیار ہوجاتی ہیں۔ اور والدین جنہوں نے پیدا کیا، بولنا، چلنا، رونا، ہنسنا سکھایا وہ مایوسی کی تصویر بن کر اپنی بے گناہی کا ثبوت ڈھونڈنے ان عدالتوں میں چکر لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جہاں سوائے انصاف کے ہر سہولت موجود ہے۔

ان سب باتوں کے علاوہ دنیا میں پھیلی یہ ساری کمپنیاں جو بظاہر ہمارے فائدے کےلیے ہماری دلچسپی کی بہت ساری ایپلی کیشنز ہمیں مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہیں، وہ ہماری ساری معلومات، تصاویر اور ویڈیوز اپنے پاس محفوظ کرتی رہتی ہیں اور پھر کبھی اچانک ہماری ایسی معلومات دوسرے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور ہم اپنے سارے راز غیروں کے حوالے برضا ورغبت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم اپنے، علما، سیاستدانوں، ججوں اور ان کی عدالتوں اور یہاں تک کہ اپنے سیکیورٹی کے اداروں کے بارے میں کیا کیا فلسفہ اور تاریخ کے ساتھ ان کی خفیہ تصاویر اور ویڈیوز پوری دنیا میں پھیلا کر دوسروں کی جگ ہنسائی کا تماشا دیکھتے ہیں اور اس کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہوئے سینہ تان کر فخر سے چلتے ہیں کہ بڑا تیر مارا ہے۔

اس بحث کو سمیٹے ہوئے عرض یہ کرنا ہے کہ ہر چیز کے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں لیکن جب اس کے نقصانات اس کے فوائد سے بڑھ جائیں تو پھر اس پر سوچ بچار کرکے اس پر مناسب فیصلہ کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ہم اس ہونے والی ترقی کے خلاف بات نہیں کررہے لیکن جہاں جس چیز کی ضرورت ہو وہاں اسے استعمال کرنے میں ہرگز حرج نہیں۔ لیکن جہاں اس کا استعمال ہماری مذہبی اور سماجی اقدار کو تباہ کرنے کے درپے ہو، وہاں سے ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔

چھوٹے بچوں کےلیے موبائل کا استعمال کون سا فائدہ مند ہے؟ ہوش سنبھالنے والے بچوں کو موبائل دے کر خود بے فکر ہوجانا بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کردینے کے مترادف ہے۔ آپ کی جوان اولاد موبائل کا استعمال کیسے کررہی ہے، یہ جاننا والدین کےلیے انتہائی اہم ہے تاکہ ان کو غلط استعمال سے روکا جاسکے۔ اب موبائل پر کوئی سیکیورٹی بھی نہیں کہ آپ اس کا استعمال محدود کرسکیں اور اگر کچھ ہے بھی تو کون وہ آپشن استعمال کررہا ہے؟

اسپتالوں، دفاتر اور تعلیمی اداروں میں بغیر انٹرنیٹ اور کیمرہ کے فون کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور سینما گھروں میں خفیہ کیمروں پر مکمل پابندی ہونی چاہیے اور اگر پابندی ہے تو اس پر عمل کرانا حکومت وقت کا کام ہے۔ خدارا! والدین، اساتذہ اور حکومت اپنی اس ذمے داری کو سمجھیں اور وبا سے اپنے ہونہاروں کو بچا کر رکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔