ہے آپ کے پاس کوئی جواب۔۔۔؟

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 ستمبر 2019

ہم نے ’خانہ پُری‘ کو ہمیشہ ’خانۂ دل‘ سمجھ کے پُر کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ہماری یہی خواہش رہتی ہے کہ ہر ہفتے اختصار کے ساتھ اپنے دل کی اچھی، سچی یا تلخ وترش باتیں سپرد قلم کیا کریں۔۔۔ اس بار ہم ’ثمر بھائی‘ کی کچھ باتیں یہاں رقم کر رہے ہیں۔۔۔

باتیں کیا ہیں، کچھ سوالات ہیں، جو انہوں نے ہم سے کیے، ہمیں تو کوئی جواب سُجھائی نہ دیا، تو اب ہم یہ انہی کی زبانی اپنے قارئین کو پیش کر رہے ہیں:

گزشتہ دنوں مجھے ایک نہایت ضروری کام سے جانا تھا، میں صبح روانگی کے وقت اپنے بس اسٹاپ پر کھڑا ہوا تھا، میری آنکھیں دور حد نگاہ تک سڑک پر جمی ہوئی تھیں، کہ دیکھ سکوں کہ میری بس آتی ہوئی دکھائی دے جائے۔۔۔ اچانک مجھے پیچھے سے ایک جیپ کی ٹکر سے زور کا دھکا لگا۔۔۔ یعنی ایک گاڑی عقب سے الٹی چلتی ہوئی آرہی تھی، میں گرا تو نہیں، لیکن ایک دم لڑکھڑا ضرور گیا۔

میں نے احتجاج کیا کہ بھئی دیکھ کر کیوں نہیں چلاتے، ایک تو غلط آرہے ہو اب کیا گاڑی بندے پر ہی چڑھا دو گے۔۔۔؟ اندر ایک اجُڈ ڈرائیور موجود تھا۔۔۔ جو غلطی تسلیم کرنے کے بہ جائے الٹا مجھے ہی برا بھلا کہنے لگا کہ تم پیچھے دیکھو، میں گاڑی لا رہا ہوں، میں نے کہا کہ یہ گاڑیاں آنے والی سڑک ہے، اس لیے میں آنے والے رخ پر دیکھوں گا یا پھر عقبی سمت دیکھوں گا؟ لیکن وہ اپنی ہٹ پر جما رہا، مجھے غصہ تھا، لیکن میں نے زبان سے کوئی سخت لفظ نہیں نکالا، صرف یہی کہہ رہا تھا کہ غلطی تمہاری ہے، تمہیں دیکھ کر آنا چاہیے۔۔۔!

اسی اثنا میں وہ ہٹّا کٹّا ڈرائیور نکل کر مجھے مارنے کے لیے آگیا۔۔۔ اس وقت میرے ہاتھ میں انتہائی ضروری کاغذات کا فائل موجود تھا، میں باوجود غصے کے اس وقت ایسی کسی بھی دھینگا مشتی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے خود کو گھونٹ کر رہ گیا، اُسے اسٹاپ پر موجود چند دیگر راہ گیروں نے روک لیا، ورنہ اس نے تو مغلظات بکتے ہوئے آدھا کلو کا ایک پتھر مجھے مارنے کے لیے اٹھالیا تھا۔۔۔ میرا جی بہت خراب ہوا۔

میں نے جیپ کا نمبر BD9273 لکھ لیا، لیکن میں اس نمبر کا کیا کرتا۔۔۔؟ تھانے میں جاتا؟ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہے، غلطی نہ ہونے کے باوجود میں اپنے ہی گھر سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر غنڈہ گردی کے نشانے پر تھا۔۔۔ کہتے ہیں کہ بلی بھی اپنے گھر کے آگے شیر ہوتی ہے۔۔۔ مگر شاید اب ہماری حالت اس بلی سے بھی بدتر کر دی گئی ہے۔۔۔! اس کے کچھ ہی روز بعد بس میں آرہا تھا، دیکھا کہ ہمیں تو دفتر کی دیر ہو رہی ہے، لیکن ڈرائیور صاحب جان بوجھ کر بس سست روی سے چلا رہے ہیں۔

تاکہ سگنل بند ہو جائے، جس پر اُسے کہا کہ ’بھئی گاڑی نکال لو یار‘ یہ سن کر اُس نے عقبی شیشے میں دیکھ کر طعنہ دیا ’ابھی تمہارا حکومت نہیں ہے، جب تمہارا حکومت آئے گا، تو دیکھیں گے!‘ میں سوچتا ہی رہا کہ میں نے بات کیا کی اور اس کے جواب اور لب ولہجہ اور اس کا مطلب کیا تھا۔۔۔؟ رہی سہی کسر ایک اور واقعے نے پوری کر دی، میں نے اپنے محلے کی مسجد میں رہائشی مدرسے کے ایک بچے کو بار بار شرارتیں کرنے پر روکا، وہ نہیں مانا تو اُسے ایک چپت لگا دی، یہ دیکھ کر ایک بڑا طالب علم خودسر ہوا کہ’’ تم نے اِسے مارا کیسے؟‘‘ ارے اتنی دیر سے مسجد میں غل کر رہا ہے۔

تب بے خبر تھے اور اب آگئے سر پر۔۔۔ وہ مسجد کی صفوں میں بدزبانی پر اتر آیا، بات ہاتھا پائی تک آگئی۔۔۔ جس کی منتظم سے شکایت کی، لیکن اُسے کوئی سزا نہیں دی گئی، مجھے قلبی رنج ہوا کہ یہ ہماری دینی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی تربیت اور رویے ایسے ہیں۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ یہ سب کچھ ایک ایسی مسجد میں ہوا، جہاں ہمارے بزرگوں نے اپنی عمریں گزار دیں۔۔۔

یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔ اور کیوں ہو رہا ہے۔۔۔ کیا کوئی مجھے اس کا جواب دے گا؟

۔۔۔

جذبات کی قبر پہ گھاس اگ آئی تھی مگر۔۔۔
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر

میں نے ذہنی اذیتوں، مائیگرین کے طویل حملوں اور احساس کے سلگتے تنوروں میں متعدد بار جلنے، درد سہنے اور آنسو بہانے کے بعد ایک سبق سیکھا کہ جس معاشرے میں، میں رہتی ہوں وہاں ’’ذہنی سکون‘‘ کے لیے بے حسی شرط اول ہے۔

یہاں تو کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کھال کھینچ کر صحرا میں چلنے پہ مجبور نہ کیا جائے۔کوئی بھوک کے ہاتھوں اپنا اور اپنے بچوں کا گلا کاٹتا ہے، کوئی اپنی چند لمحات کی وحشت کو سکون دینے کے لیے معصوم بچوں سے ان کی سانسیں چھین لیتا ہے۔ کہیں کوئی چور ہجوم کی نفسیات کا شکار ہوتا ہے اور کبھی غیرت کے نام پر بے غیرتی کے مظاہرے پیش کیے جاتے ہیں۔کیا میں جل کڑھ کر، رو کر، خود کو اذیت دے کر انہیں بدل سکتی ہوں؟ نہیں ہرگز نہیں!

کیا میرے پاس لفظوں کی وہ ترکیبیں وافر ہیں جن کی مدد سے میں ہر دن ایک نوحہ لکھوں؟ ہر صبح ایک چیخ کی تجسیم کروں اور ہر شام ایک ہچکی کو کفن دے کر زمیں برد کر سکوں؟

نہیں! ایسا نہیں ہے۔ اس زمین پر ظلم کے نصاب کی وہ فراوانی ہے کہ احساس کی چند تختیاں ان کے مقابلے میں یقیناً ہار جاتی ہیں۔ لہٰذا میں نے ہر قتل، ہر ظلم اور ہر المیے پر کچھ کہنا، لکھنا چھوڑ دیا۔

آخر مجھے کیا پڑی ہے کہ ہر تکلیف کے بھاری پہیے تلے خود کو کچلوں؟ تیزاب کے چھینٹے اپنے چہرے پہ محسوس کروں، شہہ رگ پر چھری کی لرزش کا ذائقہ چکھوں، زہر سے پھٹتی شریانوں کی آوازیں سنوں؟ سو میں نے بے حسی کا ایک ریشمی

پردہ بنا اور اپنی پناہ گاہ کے گرد اچھی طرح لپیٹ کر مصنوعی روشنیوں، بے شکل خوش بووں اور مستعار خوشی سے حجرہ سجا کر اس میں بیٹھ رہی۔

واہ! کیسا سکون تھا!! نہ کوئی آہ، نہ سسکی، نہ چیخ اور نہ ہچکی!

کوئی مرتا ہے تو خدا کی مرضی، آخر مخلوق اس کی ہے میری تو ذمہ داری نہیں! کوئی تڑپتا ہے تو خدا جانے! اس کی قدرت اگر خاموش رہ سکتی ہے، تو مجھے کیا مصیبت ہے کہ اپنا سکون برباد کروں!

یہ ترکیب کارگر رہی۔ شروع شروع میں آہیں، لاشیں، شعلے، ڈنڈوں سے ٹوٹتی ہڈیوں کی آوازیں، گلتے سڑتے جسموں کی بدبو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میری پناہ گاہ کے باہر جمع ہو کر مجھے آوازیں دیا کرتی تھیں، مگر آہستہ آہستہ وہ مایوس ہو گئیں۔

احساس پہ گرد جمنے لگی، مکڑیوں کے جال دبیز ہونے لگے، الفاظ نے آنکھیں موند لیں اور جذبات کی قبر پہ گھاس اگ آئی۔ ایک افیونی سکون اور خاموشی نے آنکھوں پر ٹھنڈک کی چادر چڑھا دی اور زبان پیپر منٹ کے استعمال کے بعد سن ہو جانے والی کیفیت میں مستقل رہنے لگی۔

لیکن ایک مخبوط الحواس دکھائی دیتے، اپنا ’اے ٹی ایم کارڈ‘ مشین سے توڑ کر نکالنے والے شخص نے میری پناہ گاہ کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس نے جب سانس اور جان پر قادر پولیس والوں سے یہ پوچھا کہ ’’بندہ مارنا کہاں سے سیکھا؟‘‘ تو جواب پر الفاظ ضائع کرنے کے بہ جائے اسے عملی مظاہرہ کر کے دکھا دیا گیا۔۔۔! یہ الگ بات کہ وہ جواب جانے بغیر ہی پھٹی آنکھیں لے کر مر گیا۔

وہ مر گیا، دکھ اس بات کا نہیں، مجھے تو تکلیف بس یہ ہے کہ کل وہ تمام تر شدت کے ساتھ میرے حجرے میں گھس آیا، اس نے گھاس تلے چُھپی قبر کو اندھا دھند اپنے ناخنوں سے کھود ڈالا، الفاظ کو ٹھڈے مار مار کر جگاتا رہا، آنکھوں پر تیزاب کے چھینٹے مارتے ہوئے کانوں میں ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کی جھنکار سے چھید کرتا رہا۔ بدبو سے میرا سانس گھٹنے لگا اور کیڑے چاروں جانب رینگنے لگے۔ میں بے بس سی بیٹھی اسے یہ سب کرتے ہوئے دیکھتی رہی اور اس نے اسی پر بس نہیں کی۔

وہ ظالم سب آہوں، سسکیوں، زہر سے پھٹی زبانوں، ٹوٹی ہڈیوں کی جی متلا دینے والی آوازوں، جلتی کھال کی سڑاند اور شہ رگ پر تھرتھراتے چاقو کی سنسناہٹ کو بھی بلا لایا۔ تمام رات وہ گھیرا باندھے قدیم آدم خود قبائلیوں کی مانند میرے گرد چیختے رہے اور میری پناہ گاہ ، میری مہربان بے حسی ریت کے ذروں میں ڈھل کر مجھ سے الگ ہوتی رہی۔

صلاح الدین! مجھے تم سے ’نفرت‘ ہے۔۔۔ تمہیں انتقام لینے کو میں ہی ملی تھی۔۔۔!!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
عدالت
رضوان طاہر مبین

عدالت لگنے والی تھی۔۔۔
سائل دعا گو تھے۔۔۔
کوئی کسی ناگہانی میں پھنسا ہوا تھا، تو کسی کا مستقبل قانون کے کٹہرے میں تھا۔۔۔
کسی کو اَن ہونی کی امید تھی، تو کوئی مایوس تھا۔۔۔
پورے کمرے میں اضطراب طاری تھا۔
مگر کچھ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔
’’کیا انہیں اپنے حق میں فیصلہ ہونے کا یقین ہے، جو اتنے خوش ہیں؟‘‘
ثمر بڑبڑایا۔
’فیصلہ کچھ بھی ہو، انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
برابر والا سائل بولا۔
’’کیا ان کے مقدمے بہت معمولی ہیں؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’نہیں، یہ عملے کے لوگ ہیں۔۔۔!‘‘
سائل نے جواب دیا۔

۔۔۔

’’میکے کو لکھےگئے سندیس!‘‘
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

بابا جی۔۔۔!
آپ کا خط ملا۔۔۔ یوں لگا میرے گھر سے کوئی آگیا۔۔۔ آپ کا خط میرے ہاتھ میں ہے۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے، آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں۔۔۔ چھوڑنا نہیں!
دو دن سے یہاں بارشیں ہو رہی ہیں۔۔۔ اور میں گھر میں بیٹھی ہوئی ہوں۔۔۔ اپنے گھر میں بارش میں کتنا نہاتی تھی۔۔۔ امّاں ڈانٹتی تھیں، مجھے اور مزہ آتا تھا۔۔۔ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی تھی ’’اللہ صاحب، اور بارش بھیجو۔۔۔!‘‘
یاد ہے ابّا جی، ایک دن بہت بارش ہو رہی تھی۔۔۔ آپ کو مجھے اسکول چھوڑنا تھا۔۔۔ آپ کے سائیکل کے پہیے کی ہوا نکل گئی تھی۔۔۔ وہ میں نے نکالی تھی۔ اسکول نہیں گئی اور بارش میں نہاتی رہی۔۔۔ بھائی ہمیشہ مجھ سے لڑ کر۔۔۔ مجھے گھر میں لے جاتا تھا۔۔۔ اور میں روتی ہوئی آ کر آپ سے لپٹ جایا کرتی تھی۔
بابا جی۔۔۔!
یہاں کوئی مجھ سے لڑتا ہی نہیں۔۔۔ بہت خاموشی ہے۔۔۔ میں تو تمھاری لاڈلی تھی۔۔۔ پھر مجھے اتنی دور کیوں بھیج دیا؟
اماں کیسی ہیں، کس کو ڈانٹی ہیں، چڑیوں سے باتیں کون کرتا ہے؟ بکریوں کو چارہ کون ڈالتا ہے؟ تمہاری پگڑی میں کلف کون لگاتا ہے؟ بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں۔ بابا جی، لکھا نہیں جا رہا۔ تم سب بہت یاد آتے ہو!!
’’تمہاری لاڈلی‘‘
…………
بابا جی۔۔۔ ناراض ہو؟
اگر نہیں ہو تو پھر اپنی لاڈلی کو خط کیوں نہیں لکھا۔۔۔؟
بہت ساری باتیں تمہیں بتانا ہیں۔۔۔ امّاں سے کہنا اپنی ہری چادر تلاش کرنا چھوڑ دے۔۔۔ وہ میں نے چُپکے سے اپنے بکسے میں رکھ لی تھی۔۔۔ جب امّاں کی یاد آتی ہے، میں وہ چادر سونگھ لیتی ہوں۔۔۔ اور یوں لگتا ہے، میں امّاں کی بانہوں میں ہوں۔۔۔!
تم نے جو قلم بھائی کے پاس ہونے پر اُس کو دیا تھا، وہ بھی میں لے آئی۔۔۔ اب بھائی قلم ڈھونڈے گا، تو مجھے یاد کرے گا!
تمہاری ٹوٹی ہوئی عینک بھی اپنے ساتھ لے آئی۔۔۔ سارا دن شیشے جوڑنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔۔۔ اور تم سامنے بیٹھے رہتے ہو۔۔۔!
بابا جی، انہی باتوں سے تو میرا دن کٹ جاتا ہے۔۔۔ بابا جی، میں نے کل رات ایک خواب دیکھا، تم، امّاں، بھائی صحن میں بیٹھے بہت خوش نظر آئے۔۔۔ باباجی، مگر میں اداس ہوگئی۔ آم کے پیڑ پہ جو میرا جھولا تھا نا، وہ نظر نہیں آیا۔۔۔ تم لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟
اُسے ڈلوا دو۔۔۔ میں اب بھی اسی جھولے پر بیٹھی ہوں۔۔۔ اور کچے آم توڑ کے کھانے لگتی ہوں۔۔۔ تم نے اچھا نہیں کیا بابا جی۔۔۔!
’’تمہاری لاڈلی‘‘
(انور مقصود کے قلم سے دل میں اُتر جانے والی سطریں)

۔۔۔

بے چارہ شاعر اور’ٹھنڈی بریانی‘
خالد معین

کراچی جیسے شہر کے ایک کونے پر آباد ایک شاعر جب بڑے کروفر سے گھر سے نکلتا ہے اور کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے شہر کے دوسرے کونے تک پہنچتا ہے، تو ’بپلک ٹرانسپورٹ‘ میں اس کے دو ڈھائی تو گھنٹے صرف ہو ہی جاتے ہیں اور آدھے پونے سے زیادہ ذہن بھی خرچ ہو جاتا ہے۔ مشاعرے کا وقت آٹھ بجے ہوتا ہے، جو 10 بجے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ 50 سے زائد شاعر اور شاعرات، وہ مشاعرہ پڑھتے ہیں۔ چار مہمانِ اعزازی اور پانچ مہمانِِ خصوصی بھگتانے والا شاعر اپنی باری آنے پر صرف پانچ شعر پڑھ پاتا ہے، کیوں کہ صدر اور مہمانانِ گرامی جو قریب قریب ’پیڈ آئٹم‘ ہوتے ہیں۔

اس لیے ان کی شاعری کے بغیر نہ مشاعرہ مکمل ہو سکتا ہے اور نہ منتظمین کی جیب بھر سکتی ہے۔ اب رات کے دو بج رہے ہیں۔ 50بھوکے شاعر بغیر رائتے والی ٹھنڈی بریانی پر ٹوٹ پڑے ہیں۔۔۔ تاہم گھر جانے کے لیے بے چارے شاعر کو ایک طویل خواری ابھی مزید جھیلنی ہے، گھر لوٹنے پر بیوی، بچوں اور ماں کی لعن طعن الگ سہنی ہے اور پھر کسی نئے مشاعرے کے دعوت نامے کا پیچھا کرنا ہے، اس سے آگے ہمارا بے چارہ شاعر نہ سوچ سکتا ہے اور نہ اس کی بساط ہے کہ اس احمقانہ معمول کو توڑ سکے یا اس کے خلاف آواز اٹھا سکے، ایسا کرنے کا مطلب ہے، وہ ’ادب کی سماجیات‘ کا مذاق اڑا رہا ہے اور ایسا مذاق ادب کے ٹھیکے داروں کو بالکل پسند نہیں۔۔۔ سمجھے میرے بھائی کہ نہیں۔۔۔۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔