ذرا سوچیے

عثمان دموہی  اتوار 22 ستمبر 2019
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

خوش قسمتی سے وطن عزیز اپنی پیدائش کے بعد سے مختلف حادثات ، واقعات اور سانحات سے گزرکر اب کندن بن چکا ہے۔ ملک کو سب سے بڑا حادثہ مشرقی بازوکے ٹوٹنے سے لاحق ہوا۔اس سانحے کو ہمارے عوام اب اڑتالیس سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بھول پائے ہیں۔ ہمارے عوام پر اس کے نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔

ہمارے بعض سیاسی رہنما بھی اس سانحے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ اب بھی ملک کوکمزور خیال کرتے ہیں اور لگتا ہے ان پر یہ خوف طاری ہے کہ ملک اب بھی (خاکم بدہن) ٹوٹ سکتا ہے۔ ان کے خیال میں جس طرح عوامی لیگ نے مجیب الرحمن کی اگوائی میں علیحدگی کی تحریک کوکامیاب کرا لیا تھا اب بھی ویسا ہوسکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمے دار عوامی لیگ سے زیادہ بھارت تھا ، اس نے ہمارے اس دوردراز صوبے کو اپنا ہر شیطانی حربہ استعمال کرکے مغربی بازو سے کاٹ دیا تھا۔ واضح ہو کہ اب بھی وطن عزیز میں اگر کچھ بھارت نواز ہوں تو وہ کبھی اتنی طاقت نہیں پکڑ سکتے کہ ملک کی سالمیت کو کوئی نقصان پہنچا سکیں۔ گوکہ کلبھوشن جیسے جاسوسوں کے ذریعے بھارت اب بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہے وہ نادان لوگوں کو بہکانے میں ضرور لگے ہیں مگر نہ تو وہ اور نہ ان کے پاکستانی ایجنٹ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب ہوسکتے ہیں۔

کراچی میں آئین کی دفعہ 149(4) کو لاگوکرنے کی افواہ پر ایک سیاسی قائد اتنے آپے سے باہر ہوگئے کہ ملک کی سالمیت تک کو نشانہ بنا ڈالا یہ ہرگز ان کے شایان شان نہ تھا۔ ان کے اس بیان سے ہر محب وطن سہم گیا اور خود پیپلز پارٹی کی بنیادیں بھی ہل گئیں۔ سندھو دیش، پختون اور بلوچ دیش کی باتیں سن کر یقینا پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی روح بھی تڑپ گئی ہوگی۔

بھٹو پر یہ الزام ضرور لگایا جاتا ہے کہ ملک کے دولخت ہونے میں ان کا ہاتھ تھا مگر یہ سراسر بہتان ہے اسی بھٹو نے مادر وطن کے دفاع کے لیے کیا یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بناکر رہیں گے‘‘ پھر ایک دفعہ یہ بھی کہا تھا کہ ’’ خواہ ہزار سال لڑنا پڑے ہم کشمیر لے کر رہیں گے۔‘‘ 1965 میں مقبوضہ کشمیر پر فوج کشی کے ذمے دار بھٹو ہی تھے اور پھر جب تاشقند میں بھارت کے حق میں فیصلہ ہوا اور کشمیر کے مسئلے کو پھر لیت و لال میں ڈال دیا گیا تو بھٹو نے ناراض ہوکر نہ صرف وزیر خارجہ کے عہدے پر لات ماردی تھی بلکہ اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے تشکیل دی جس کا بنیادی مقصد کشمیر کو آزاد کرانا ہے۔

ویسے تو یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی صوبہ کسی سیاسی پارٹی یا کسی برادری کی جاگیر نہیں ہے ، اسے وفاق قومی مفاد میں کسی بھی وقت تقسیم کرنے کا حق رکھتا ہے البتہ اس ضمن میں وہاں کی صوبائی اسمبلی سے اجازت لینا لازمی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ آئین کی شق 149(4)کو اٹھارہویں ترمیم کے بعد استعمال نہیں کیا جاسکتا البتہ وفاق صوبے کی حکومت کو ہدایات دے سکتا ہے۔ پھر جن حالات کا اس شق میں ذکر ہے جن کے تحت اسے لاگو کیا جاسکتا ہے وہ حالات تو کراچی میں نہیں ہیں۔ یہاں انتظامی کمزوری اورکرپشن ضرور عروج پر ہے جسے سندھ حکومت سنجیدگی اختیار کرکے اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرکے ان سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔

جہاں تک کراچی کے مسائل کا تعلق ہے حکومت سندھ نے میئر کراچی کے اختیارات کم کرکے اور اس کے کئی محکمے اپنے پاس رکھ کر خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ حکومت سندھ کی اس کارروائی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ میئر اپنی نا اہلی کو بھی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مسائل سے بری الذمہ سمجھ رہے ہیں یعنی کہ موجودہ صورتحال میں میئر کراچی اپنی کوتاہیوں کو آسانی سے اپنے اختیارات میں کمی کے پردے میں چھپانے میں کامیاب ہیں۔

کراچی کے مسائل اگر گمبھیر نہ ہوتے تو نہ پیپلز پارٹی کی بدنامی ہوتی اور نہ متحدہ بے عزت ہوگی مگر لگتا ہے دونوں کو ہی عوام کی تکالیف کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دونوں ہی اپنی سیاست میں مگن ہیں یہ رویہ بہرحال عوام کو ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ جب ان کے مینڈیٹ کا صحیح مصرف نہیں نکل رہا ہے تو وہ آیندہ کے لیے اپنی نئی حکمت عملی بھی بناسکتے ہیں اور اس بے حسی کے ماحول میں وہ اس کے بالکل مستحق بھی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف حالیہ الیکشن میں کراچی کی اکیس صوبائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے لگتا ہے آیندہ اس کی سیٹوں کی تعداد بڑھے گی یا پھر کراچی کے عوام پہلے سے آزمودہ سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ان کی پاک سرزمین پارٹی کو بھی موقع فراہم کرسکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال تو گزشتہ دنوں میئر کراچی وسیم اختر کے کچرے کی صفائی کا چیلنج قبول کرچکے تھے اگر وسیم اختر پیچھے نہ ہٹتے تو شاید کراچی کے عوام اب تک کچرے کے عذاب سے نجات حاصل کرچکے ہوتے اور شہر میں پھیلنے والی مختلف مہلک بیماریوں کا لقمہ بننے سے محفوظ رہتے۔

عمران خان کی جانب سے اگرچہ کراچی کے مسئلے پر بار بار بیانات جاری ہوتے رہتے ہیں مگر افسوس کہ اب تک انھوں نے اس شہر کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے کراچی کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے چند ماہ قبل 162 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا مگر اس کے اجرا میں نہ جانے کیوں دیر کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں کون سی رکاوٹ حائل ہو رہی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سندھ حکومت اور میئر کراچی کی مایوس کن کارکردگی کے جواب میں کراچی کے مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھائیں مگر کراچی کو کنٹرول کرنے سے احتراز کریں جہاں تک کراچی کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنے والی بات کا تعلق ہے ایسی تجویز ضرور کسی نا سمجھ فرد کی جانب سے ہی پیش کی جاسکتی ہے۔

اس کے لیے نہ تو کراچی کے عوام تیار ہوں گے اور نہ ہی یہاں کی اسٹیک ہولڈر ایسی پارٹیاں پسند کریں گی چنانچہ وفاق نے کراچی سے متعلق جو اسٹرٹیجک کمیٹی تشکیل دی ہے اسے تحلیل کردیا جائے اس لیے بھی کہ اس سے متعلق کراچی کے لوگوں میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں۔وفاق کو چاہیے کہ کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمایندوں پر مشتمل ایک نئی کمیٹی بنادے جو کراچی کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈال سکیں چونکہ وہ اپنے شہر کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں چنانچہ وہی اس کے مسائل کا صحیح اور دیرپا حل نکال سکتے ہیں۔

تاہم یہ بات اٹل ہے کہ چاہے کتنی بھی کمیٹیاں بنادی جائیں وہ کچھ بھی نہیں کرسکیں گی اس لیے کہ مسائل کا اصل حل فنڈز کی دستیابی پر ہے۔ اور جسے نہ وفاقی اور نہ ہی سندھ حکومت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے ایسے ماحول میں عوام کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا مداوا بہرطور وفاق کو ہی کرنا ہوگا اب وقت آگیا ہے کہ وفاق اپنے وعدے کو وفا کرے اور 162 ارب روپے کا فنڈ فوراً جاری کرے اور خوا وہ اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی نگرانی میں اسے خرچ کرے اس سے عوام کو کچرے کے عذاب سے نجات دلائی جاسکتی ہے اور گٹروں، سڑکوں کی درستگی کے ساتھ ساتھ پانی کے منصوبے K-4 کو بھی کامیاب بنایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب کراچی کے عوام سندھ اور شہری حکومتوں کی ناکامی کے بعد وفاق سے ہی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اگر وفاق نے پورے سندھ کے مسائل بخیر و خوبی حل کردیے تو یقینا آیندہ انتخابات میں اسے بھرپور فائدہ ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ آیندہ سندھ کی حکومت اسی کی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔