یہ بت ہیں یا گدھ

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 22 ستمبر 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

رومن فلسفی بادشاہ مارکس اوریلییس نے کہا تھا ’’ جب آپ صبح اٹھیں تو یہ سوچیں کہ یہ زندگی ، یہ سوچ ، یہ لطف ، یہ پیار کتنا بڑا اعزاز ہے‘‘ ہم لوگوں سے اکثر یہ سنتے ہیں کہ ’’ وہ بیکار ہیں کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ کچھ سیکھنے کے اہل ہیں کیونکہ وہ سست ، بیمار اور بوجھ ہیں‘‘۔

ان کے بارے میں اس قسم کا پرو پیگنڈا پچھلے 73 سال سے اس حد تک کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے دل سے اس پر یقین کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار ہی وہ واحد انسان ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں اور ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ انسانوں کو غیر انسانی بنانے کا عمل کہلاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس عمل میں دونوں گروپ متاثر ہوتے ہیں ، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جن کی انسانیت چھین لی گئی ہے اور وہ بھی شامل ہوتے ہیں جنہوں نے یہ انسانیت چھین لی ہے ، نتیجے میں پورا ہی سماج غیر انسانی بنتا چلا جاتا ہے پھر ایسے سماج میں غیر انسانی حرکات کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے۔

کیا ہمارے سماج کو غیر انسانی ثابت کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ اس میں بسنے والے انسان ، انسانی تاریخ کے بتوں کے سب سے بڑے پجاری بن چکے ہیں ، کیا وہ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے گئے بتوں کی دن رات پوجا میں مصروف نہیں ہیں، جن کے آگے نہ تو ان میں بولنے کی جرأت ہے اور نہ ہی وہ سوچنے کے لیے تیار ہیں۔

ہر شخص کا اپنا بت ہے جسے وہ خدا مانے ہوئے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اس بت پہ یہ یقین کیے بیٹھا ہوا ہے کہ وہ ہی اس کی ساری پریشانیوں ، مصیبتوں اور اذیتوں کو دورکرے گا وہ ہی اس کا نصیب اور مقدر بدلے گا ، دوسری طرف اس کے بنائے ہوئے بت بس دن رات اس سے یہ ہی کہے جاتے ہیں کہ ’’ وہ بیکار ہیں کچھ نہیں جانتے اور نہ ہی وہ کچھ سیکھنے کے اہل ہیں کیونکہ وہ سست ، بیمار اور بوجھ ہیں۔

صرف ہم ہی سب کچھ جانتے ہیں اور صرف ہم ہی تمہارے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں اس لیے بس چپ چاپ ہماری پوجا کیے چلے جاؤ۔ ہمارے سامنے کبھی نہ بولنے کی جرأت کرنا اور نہ کبھی ہمارے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت کرنا ‘‘ اس ساری صورتحال پر ایک انسان ماتم نہ کرے تو پھرکیا کرے ، جو انسان 73سالوں سے غیر انسانی بنے پڑے ہیں اور آج بھی انسان بننے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس سے بڑی قیامت اورکیا ہوسکتی ہے ۔

جس طرح کا 73 سالوں سے ہمارا طرز زندگی ہے ، اس سے بیمار آدمی جنم لے رہے ہیں اور بیمار آدمیوں کے ڈھیر سے بیمار معاشرہ وجود میں آیا ہے۔ مہاتما بدھ نے لوگوں سے کہا تھا جاگو اور اپنے آپ کو اس فریب نظر سے آزاد کرو ، جس کی بدولت تم معمولی معمولی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہو اور خوشی کے لیے ترستے ہو جب کہ عبرانی پیغمبروں نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ جو لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ بت ان کے اپنے ہاتھوں کے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ فریب نظر میں مبتلا ہیں۔

حضرت عیسیٰ نے فرمایا ’’ سچ تمہیں آزاد کرتا ہے۔‘‘ ایکارٹ نے اس بات کی باربار وضاحت کی کہ جاننا کیا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ ہمیں اپنے فریب نظرکو تباہ کرنا ہوگا تاکہ ایسی صورتحال پیدا ہوجس میں نظری دھوکہ کوئی معنیٰ نہ رکھتا ہو۔ فرائیڈ اس فریب نظرکو ختم کرکے شعورکی حقیقت سے آگاہی پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

اس تصویر کو کون بھول سکتا ہے۔ جس میں صاف پتہ چل رہا ہے کہ ایک گدھ ایک بھوکی اور قریب المرگ بچی کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے تاکہ اسے نوچ کر کھا سکے، یہ تصویر ایک ساؤتھ افریقی فوٹو جرنلسٹ Kevin Carter نے 1993میں سوڈان میں قحط کے دوران کھینچی تھی یہ تصویر دنیا میں اتنی مشہور ہوگئی کہ انھیں اس تصویر کی وجہ سے Pulitzer Prize سے نوازا گیا لیکن کارٹر زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکا اور اپنے اس اعزاز کا لطف زیادہ دن تک نہیں اٹھا سکا کیونکہ ڈپریشن کا شکار ہو کر اس نے خود کشی کر لی۔ دراصل جب وہ اس ایوارڈ کے پانے کا جشن منا رہا تھا تو ساری دنیا کے میڈیا چینلز پر اس کا ذکر ہو رہا تھا اور اس کی شہرت بام عروج پر پہنچ چکی تھی تب ہی وہ واقعہ ہوا۔

جس کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہوکر کارٹر نے خود کشی کر لی۔ ہوا یوں کہ ایک انٹرویو کے دوران کسی نے کارٹرسے پوچھ لیا کہ ’’ آپ نے تصویر تو بہت زبردست لی لیکن یہ بتائیں کہ اس بچی کا کیا ہوا ؟‘‘ کارٹر یہ سوال سن کر مبہوت رہ گیا پھر اس نے سنبھل کر جواب دیا کہ ’’یہ دیکھنے کے لیے وہ رک نہ سکا کیونکہ اسے فلائٹ پکڑنی تھی‘‘ یہ جواب سن کر سوال پوچھنے والے نے کہا کہ ’’ اس دن وہاں دوگدھ تھے جن میں سے ایک کے ہاتھ میں کیمرا تھا‘‘ اس واقعے نے کارٹر پر اتنا اثر ڈالا کہ وہ ڈپریشن میں چلا گیا اور آخر کار خود کشی کر لی۔

میرے ہم وطنو ! یہ بت جن کی تم دن رات پوجا کر رہے ہو ، اصل میں یہ بت نہیں ہیں بلکہ گدھ ہیں جو تمہیں نوچنے کا انتظار کر رہے ہیں ، تم سے پہلے یہ تمہارے آباؤ اجداد کو نوچ نوچ کرکھا چکے ہیں اور تمہارے بعد آنے والوں کا بھی یہ ہی حشرکریں گے ، اگر تم اپنی طرف غور سے دیکھو تو تمہیں معلوم چل جائے گاکہ یہ گدھ تمہیں تھوڑا تھوڑا کھا رہے ہیں۔

انھوں نے تمہاری یہ حالت کر دی ہے کہ اب تم کسی مزاحمت یا جدوجہد کے قابل نہیں رہے ہو۔ اب تم صرف فاقہ زدہ ، لاغر ، ہڈیوں کے ڈھانچے جن میں سے کافی حد تک گوشت نوچ لیا گیا ہے ، رہ گئے ہو اور یہ تمہارے پاس بیٹھے تمہارے مرنے کے منتظر ہیں۔ تمہارے اپنے ہاتھوں بنائے گئے تمہارے ہی قاتل نکلے ہیں لیکن تم اب تک ہوش میں نہیں آئے ہو، اب تک تم ان ہی کی پوجا میں مصروف ہو اور ان ہی کو خدا سمجھے بیٹھے ہو۔ یاد رکھو ، تم اتھاہ جہالت اور رسوا کن افلاس میں مبتلا ہو اور تمہاری وجہ سے گنتی کے یہ گدھ ہوسناکی اورکامجوئی کی شرمناک زندگی گذار رہے ہیں۔

ٹامس مورکی اٹو پیا کی اشاعت کے کچھ عرصے بعد اطالیہ کے کمپا نیلا کی ایک کتاب ’’شہر آفتاب ‘‘ شائع ہوئی۔ اس فرضی شہر میں لوگ چین اور خوشی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ جہاں مکمل مساوات پائی جاتی ہے، جہاں عقل وشعور اور فکرکا راج ہے جہاں لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے گئے، بتوں کی پوجا نہیں کرتے ہیں۔کمپا نیلا نے دم توڑتے ہوئے کہا تھا ’’ میں وہ گجر ہوں جو نئی صبح کی آمد کی خبر دیتا ہے‘‘ لیکن کریں توکیا کریں۔ ہمارے لوگوں کو تو صبح سے ہی ڈر لگتا ہے، ان ہی کے لیے ہی افلاطون نے کہا تھا ’’ بچے اندھیرے سے ڈریں توکوئی تعجب نہیں، لیکن بالغ لوگ روشنی سے ڈرنے لگیں تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔