ایل او سی سے راجشاہی تک : بھارتی خونریزیاں

تنویر قیصر شاہد  اتوار 22 ستمبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پچھلے دو ہفتوں کے دوران مجھے’’ لائن آف کنٹرول‘‘ (ایل او سی ) کے اِس طرف ، پاکستانی علاقے میں واقع، کئی دیہاتوں میں جانے اور دیہاتیوں سے ملنے کے مواقعے ملے ہیں۔ بھارتی فوج اور انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز ( بی ایس ایف)کی اندھا دھند،بِلا وجہ اور خونریز فائرنگ سے پاکستانی اور کشمیری شہری بہت دکھی ہیں۔

کئی تو محض اس لیے بھارتی فوج کی گولیوں کا ہدف بنا دیے گئے کہ گھاس یا کوئی فصل کاٹ رہے تھے ، بھارتیوں کو طیش آ گیا اور اُنہوں نے یہ بے بنیاد الزام لگا کر کہ یہ لوگ ہمارے علاقے میں گھس آئے تھے، فائر کھول دیا ۔جب سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی و علیحدہ حیثیت ختم کی ہے، ایل او سی پر بھارتی فوج کی زیادتیاں اور خونریزیوں میں کئی گنااضافہ ہو گیا ہے ۔شکر گڑھ ، ظفروال، سیالکوٹ اور آزاد جموں وکشمیر میں ایل اوسی پر کھوئی رٹہ، چکوٹھی ، تتہ پانی وغیرہ پر بھارتی فوج اور بی ایس ایف نے گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران بِلا اشتعال فائرنگ کرکے ہمارے جن جوانوں اور شہریوں کو شہید کیا ہے، یہ خون رنگ داستانیں ناقابلِ فراموش ہیں۔

بھارت نے تو آزاد کشمیر کے باسیوں پر کلسٹر بموں سے حملہ کرکے عالمی قوانین کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ اس کھلواڑ پر مگر کوئی بین الاقوامی ادارہ بھارت کی مذمت کے لیے آگے بڑھا ہے نہ بھارت پر جنگی جرائم چلانے کے لیے تیار ہے ۔رواں برس بھارت کتنی بار اور کن وحشتوں کے ساتھ ایل او سی پر کشمیریوں اور پاکستانیوں پر حملہ آور ہُوا ہے، ان حملوں کی نشاندہی کروانے اور عالمی آنکھیں کھولنے کے لیے پاکستان نے اسلام آباد میں بروئے کار عالمی میڈیا کے نمائندگان کو ایل او سی کا حال ہی میں دَورہ بھی کروایا ہے تاکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے بھارتی زیادتیوں اور جارحیتوں کا مشاہدہ کر لیں ۔

ان غیر ملکی اخبار نویسوں کو کھلی چھٹی تھی کہ وہ ایل او سی پر واقع دیہاتوں اور دیہاتیوں سے کسی بھی قسم کی بات چیت کر سکتے ہیں ۔ ابھی چند دن پہلے ہی (19 ستمبر 2019 کو) ترکی کے 20صحافیوں نے ایل او سی پر چکوٹھی ایسے خطرناک علاقے کا دَورہ کیا ہے ۔ ترک صحافی بھی ایل اوسی کی خلاف ورزیوں کے عینی شاہد بنے ہیں اور اُنہوں نے چکوٹھی کے اُن باسیوں سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرکے حالات کا جائزہ لیا ہے۔

جنہیں بھارتی بمباریوں کا تقریباً روزانہ کی بنیاد پر سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کیا بھارت بھی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ عالمی میڈیا کے نمائندگان مقبوضہ کشمیر جائیں اور آزادانہ اسلوب میں حالات کا جائزہ لے کر رپورٹنگ کریں؟کبھی نہیں! ترک صحافیوں کے وفد کے بعد20ستمبر2019 کو مصری صحافیوں اور دانشوروں نے بھی ایل او سی کا دَورہ کیا ہے ۔مصری وفد کی قیادت جامعہ ازہر کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم کررہے تھے ۔کاش ان دانشمندوں کے براہ راست مشاہدات ہی سے عالمِ عرب کی آنکھیں کھل جائیں ۔

پاکستان کی طرح بنگلہ دیش بھی بھارتی فوج اور انڈین ’’بی ایس ایف‘‘ کی زیادتیوں سے خاصا تنگ ہے۔ آئے روز بھارتی فوج بنگلہ دیش اور بھارت کی مشترکہ سرحد پر واقع بنگلہ دیشی دیہاتی علاقوں پر گولیاں چلاکر معصوم شہریوں کو شہید کر دیتی ہے۔ بنگلہ دیش حکومت ، بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ اور بنگلہ دیشی فوج ظالم اور جارح بھارتی فوج کے خلاف بھارت سے احتجاج تو کرتے ہیں لیکن بھارت ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ کہنے کو بھارت اور بنگلہ دیش میں ’’بڑا تعاون اور دوستی ‘‘ ہے لیکن بباطن دونوں میں سخت کشیدگی اور نفرت بھی چل رہی ہے ۔ رواں ستمبر میں بھی ایک بار پھر بھارتی’’ بارڈر سیکیورٹی فورسز‘‘نے بنگلہ دیشی سرحدی دیہاتیوں پر گولیاں چلا دی ہیں ۔

نصف درجن سے زائد بنگلہ دیشی کسان خون میں نہلا دیے گئے۔ اس سانحہ کی تصدیق بنگلہ دیش کے دونوں بڑے انگریزی اخباروں ( دی ڈیلی اسٹار اور ڈھاکہ ٹربیون) نے بھی کی ہے اور ’’بارڈر گارڈز آف بنگلہ دیش‘‘ ( بی جی بی) کے لیفٹیننٹ کرنل فردوس محمود نے بھی ۔ بنگلہ دیشی فوجی ترجمان اور وزارتِ خارجہ نے بھارت سے سخت احتجاج کیا تو بھارتی ’’بی ایس ایف‘‘ نے اپنا جرم تسلیم کرنے کی بجائے کہا:’’ ہم نے تو اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں اور وہ بھی ربڑ کی ۔ بنگلہ دیشی دیہاتی ہمارے علاقے میں گھس کر گھاس کاٹ رہے تھے ۔ ہم نے اُنہیں بھگانے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں تو بنگلہ دیشی ’’ بی جی بی‘‘ نے ہمارے خلاف فائرنگ شروع کر دیں ؛ چنانچہ ہمیں بھی جواب دینا پڑا ۔‘‘

ایسا ہی جھوٹ بھارتی فوج پاکستان کے بارے میں بھی آئے روز بولتی رہتی ہے لیکن کوئی بھی عالمی ادارہ اس کذب پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ غریب اور نہتے بنگلہ دیشی کسانوں کے خلاف بھارتی فوج نے یہ تازہ خونی واردات راجشاہی کے سرحدی علاقے میں ڈالی ہے۔ بھارتی کہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی یہاں سے سرحد پار کرکے بھارت گھس آتے ہیں ،اس لیے ہمیں یہاں غیر معمولی نگرانی کرنا پڑتی ہے ۔

بھارت کہتا ہے کہ ہم پہلے ہی ’’آسام‘‘ میں ’’ناجائز طور پر آئے‘‘ بنگلہ دیشیوں سے بہت تنگ ہیں ، اس لیے اب راجشاہی سرحد پر ہماری سختی مزید بڑھ گئی ہے ۔ بھارتی موقف ہے کہ بنگلہ دیشی اپنے سرحدی علاقے میں گھاس اور فصلیں کاٹنے کے بہانے آتے ہیں اور موقع پا کر بھارت میں گھس جاتے ہیں، اب ان ممکنہ گھس بیٹھیوں کا علاج فقط گولی ہے۔

یہ ظالمانہ بیانیہ بھارتی فوج، بی ایس ایف اور بھارتی وزارتِ خارجہ کا پکّا اسلوب بن چکا ہے ۔ اس بیانئے میں نخوت ، تکبراور بالادستی کی بد بُو آتی ہے۔ آزاد کشمیر میں ایل او سی کے ساتھ ساتھ جب بھی بھارتی فوج اور بی ایس ایف بِلا اشتعال کشمیریوں پر گولی چلاتی ہے ، تب بھی اُن کے پاس ایسا ہی خون رنگ بیانیہ ہوتا ہے ۔ ایل او سی پر ہر بھارتی زیادتی اور خونریزی کا جواب افواجِ پاکستان کی طرف سے فوری ، ترنت اور برابر کا دیا جاتاہے۔ الحمد للہ !!

بنگلہ دیشی فوج بھارتی خونریزیوں کا جواب فوری دینے سے قاصر ہے کہ اُنہیں اپنی عسکری کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں اور اپنے بھارت نواز حکمرانوں کی پالیسیاں بھی۔ انھی کمزوریوں کے باعث بھارتی فوج بنگلہ دیش و بھارت کی مشترکہ سرحد پر واقع بنگلہ دیشی شہریوں کے خون کے چھینٹے اُڑاتی رہتی ہے ۔ یہ بے رحم اقدامات کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھ رہیں ۔

بنگلہ دیشی انگریزی اخبار ’’ دی ڈیلی اسٹار‘‘ نے جولائی 2019 میں خبر دی تھی کہ گزشتہ 10برسوں کے دوران بھارتی فوج بنگلہ دیش کے 300 شہریوں کو سرحد پر قتل کر چکی ہے ۔ یعنی اوسطاً بھارتی فوج ہر سال بنگلہ دیش کے 30سرحدی شہریوں کو قتل کرتی ہے ۔ اس خونریزی اور مقتولین کی تعداد کی تصدیق بنگلہ دیشی وزیر داخلہ، اسد الزماں خان، نے بھی کی ہے ۔ یہ اعتراف بنگلہ دیشی پارلیمنٹ میں ارکانِ اسمبلی کے رُوبرو کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان 4053 کلومیٹر طویل سرحد مشترکہ پائی جاتی ہے۔ اس میں 328 کلومیٹر سرحد بہت خطرناک اور حساس خیال کی جاتی ہے۔ راجشاہی بھی اِس میں شامل ہے ۔ اِسی علاقے میں بھارتی ’’بی ایس ایف ‘‘ کسی خوف اور ڈر کے بغیر بنگلہ دیشی دیہاتیوں کا آئے روز قتلِ عام کرتی ہے۔کسی بنگلہ دیشی کسان کو محض اس لیے بھی گولی مار دی جاتی ہے کہ اُس کا کوئی مویشی بھارتی سرحدی علاقے میں کیوں گھس آیا تھا!بنگلہ دیشیوں کو گھاس کاٹنے اور مویشی چرانے پر بھی بھارتی فوج گولی مار کر ابدی نیندسلا دیتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ بنگلہ دیشی فوج سوائے بھارت کے خلاف لفظی احتجاج کرنے کے کچھ بھی نہیں کر پاتی !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔