دنیا میں پائیدار امن کیلئے عالمی اداروں کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 23 ستمبر 2019
’’عالمی یومِ امن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

’’عالمی یومِ امن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

21 ستمبر کو دنیا بھر میں امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا کو ہتھیاروں سے پاک کرنا اور امن کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

اس دن کے موقع پر   ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت و اپوزیشن نمائندوں اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

اعجاز عالم آگسٹین
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب )

انسانی حقوق کی بات تو سب کرتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ان کی بہتری کیلئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک جب تک لوگوںکو انسانی حقوق کی تعلیم نہیں دیں گے تب تک مسائل رہیں گے۔ افسوس ہے کہ ابھی تک ہم اپنے اداروں کے سربراہان کو ایسا منصوبہ نہیں دے سکے کہ انہیں انسانی حقوق کی آگہی مل سکے۔

تھانوں کا دورہ کریں تو وہاں بچوں اور بڑوں کو ایک ہی جگہ بند کیا جاتا ہے۔ جب تک اداروں کو انسانی حقوق سے آگاہی کا باقاعدہ پلان نہیں دیا جائے گا تب تک خاطر خواہ بہتری نہیں آئے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔ ہم انسانی حقوق کو نصاب کا حصہ بنا رہے ہیں جس سے یقینا معاشرے میں بہتری آئے گی۔

پہلے بڑے شہروں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس ہائی لائٹ ہوتے تھے اور ان پر کارروائی ہوتی تھی جبکہ دور دراز علاقوں میں اس حوالے سے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اب ہم نے ہر ضلع میں انسانی حقوق کی کمیٹی قائم کر دی ہے جس سے ہمیں ہر ضلع سے انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے رپورٹ ملتی ہے۔

لہٰذا اب ہر علاقے کے مسائل کو حل کیا جارہا ہے جو ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ قصور میں افسوسناک واقعات سامنے آرہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایک ہی علاقے سے ایسا کیوں؟ پہلے 100 بچوں سے زیادتی کا معاملہ، پھر زینب اور اب ایک بار پھر معصوم بچے درندگی کا شکار، اگر اس پر ماضی کی حکومتیں موثر کارروائی کرتی اور لائحہ عمل تیار کیا جاتا تو آج یہ واقعات دوبارہ رونما نہ ہوتے، اب ہم اس حوالے سے بھرپور اقدامات کر رہے ہیںا ور وزیراعظم بھی خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کیلئے کم از کم سزا موت تجویز کی ہے۔

لہٰذا اب بچوں کے ساتھ زیادتی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی جائے گی۔ میرے نزدیک اگر زینب کے قاتل کو سرعام چوک میں لٹکایا جاتا تو لوگ عبرت حاصل کرتے اور آج دوبارہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوتا۔ جب تک دنیا میں ظلم رہے گا تب تک امن قائم نہیں ہوسکتا، ہمیں مل کر پائیدار امن کیلئے کام کرنا ہوگا۔

بقول شاعر:
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو

امن کا عالمی دن منانے کے بجائے اگر عالمی ادارے کشمیر میں بھارتی مظالم رکواتے اور آرٹیکل 370 اور 35(A) میں تبدیلی واپس کرواتے اور 80 لاکھ کشمیریوں کے ساتھ ظلم کو روکتے تو فائدہ ہوتامگر افسوس ہے کہ اقوام متحدہ اس میں ناکام نظر آیا ہے۔  میرے نزدیک عالمی اداروں اور بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں جن کی وجہ سے دنیا کو نقصان ہورہا ہے۔

کشمیر میں ہونے والے مظالم ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو نظر نہیں آرہے۔ عالمی اداروں کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا اور رنگ و نسل ، مذہب اور ذات سے بالاتر ہوکر انسانیت کیلئے کام کرنا ہوگا۔ عالمی دن منانے سے لوگوں کو آگاہی ملتی ہے جو اہم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی انتہائی اہم ہیں، اس پر توجہ دینی چاہیے۔

 ڈاکٹر فرید پراچہ
(نائب امیرجماعت اسلامی)

دین اسلام امن کا درس دیتا ہے جس نے تمام عبادات اور رسوم و رواج میں امن کو داخل کیا۔ ہر مسلمان ایک دوسرے کو ملتے وقت سلام کرتا ہے یعنی سلامتی کی دعا دیتا ہے اور لیتاہے۔ چاند نکلنے پر ہم دعا کرتے ہیں کہ ’اے اللہ! اس چاند کو پوری دنیا کیلئے امن و سلامتی کا چاند بنا دے‘۔ میرے نزدیک محض ایک دن منانے سے امن قائم نہیں ہوگا بلکہ ان عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جن سے دنیا کے امن کو خطرہ ہے۔

عالمی اداروں کے قول و فعل میں تضاد ہے، امن کا عالمی دن تو منایا جا رہا ہے مگر آج مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو50دن ہوگئے ، وہاں ہر گھر جیل، ہسپتال اور قبرستان بن گیا ہے، وہاں انسانیت سوز داستانیں رقم کی جارہی ہیں، درندگی کی انتہا ہے لیکن امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے اس کرفیو کو ختم کروانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ عالمی طاقتیں اور ادارے خود امن کے عالمی دن کا مذاق بنا رہے ہیں۔ ’اسرائیل، امریکا اور بھارت ‘ ایسا مثلث ہے جو دنیا کا امن تباہ کر رہا ہے۔

یہ peace پر یقین رکھتے ہیں مگر ان کے نزدیک اس کا مطلب piece ہے اور یہ ممالک و انسانوں کے ٹکڑے کرتے ہیں۔ بھارت نے طبل جنگ بجا دیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے اس کا اس زبان میں جواب نہیں دیا ورنہ جنگ ہونے میں تو کوئی کسر باقی نہیں رہی۔ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھی حصہ ہے مگر منتازعہ ہے۔

شملہ معاہدہ میں بھی یہ ہے کہ دوطرفہ مذاکرات تو ہوسکتے ہیں مگر اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جاسکتی۔ بھارت نے بغیر پاکستان کی رضامندی کے کشمیر کی حیثیت بدل دی جبکہ اس کے آئندہ کے عزائم بھی خطرناک ہیں کہ پاکستان کی طرف کشمیریوں کو دھکیل دیا جائے اور پھر یہاں مہاجروں کے حوالے سے مسئلہ پیدا ہوجائے۔

امن کے عالمی دن کو ماحول سے جوڑنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ ہوگئی تو دنیا کا ماحول خراب ہوجائے گاا ور سب اس کی زد میں آئیں گے۔ ابھی تک ہیروشیما اور ناگاساکی ایٹم بم کے اثرات سے نہیں نکل پائے لہٰذا پاک بھارت ایٹمی جنگ کے اثرات بھی خطرناک ہوں گے مگر دنیا کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ عالمی اداروں کے دوہرے معیار کی وجہ سے دنیا میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔چند افراد یا گروہ کے خلاف تو بات کی جاتی ہے مگر ریاستی دہشت گردی پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ ریاستوں کے پاس تو جدید اسلحہ، ٹینک، طیارے، بم و دیگر جنگی ساز و سامان موجود ہے اور اس کی طاقت زیادہ ہے۔

فلسطین، کشمیر، برما، عراق و دیگر ممالک ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوگئے مگر کسی ادارے نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ جمہوریت کی بات کی جاتی ہے مگر جہاں فوجی آمر یا کوئی اور حکمران جو کسی بڑی طاقت کے مفادات کا محافظ بنتا ہے تو اس کی طرف سے جو دہشت گردی ہوتی ہے۔

اس پر مکمل خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ 8 انتخابات جیت کر مرثی اقتدار میں آیا مگر ایک فوجی نے اس کا اقتدار ختم کردیا اور اس نے ایک ہی دن میں جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والے 11ہزار لوگوں کو مار دیا مگر دنیا میں کہیں کوئی قیامت نہیں آئی اور عالمی ادارے بھی خاموش رہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے دہشت گردی ہوتی ہے اور ردعمل آتا ہے، میرے نزدیک عالمی اداروں کا رویہ تبدیل کرنے سے دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہمیں عالمی عدالت اور اداروں تک بروقت پہنچنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں جبکہ ان اداروں کو بھی غیر جانبداری کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔

کلبھوشن یادیو کا معاملہ دیکھیں تو کرنل رینک کے حاضر سروس جاسوس کی گرفتاری عالمی واقعہ ہے مگر اس میں دباؤ پاکستان پر ہی ڈالا گیا۔ ایسٹ تیمور، جنوبی سوڈان اور کوسووا میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہوسکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں، عالمی اداروں کو غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ بے لگام سوشل میڈیا بھی امن کے لیے خطرہ ہے۔اس میں جرائم کی نرسریاں بنی ہوئی ہیں، بچوں کی برین واشنگ کی جا رہی ہے، اخلاقیات تباہ وبرباد ہورہی ہیں مگر اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی آڑ میں جرائم کو فروغ دیا جارہا ہے لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔

 بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

1981ء میں امن کے حوالے سے تحریک شروع ہوئی اور پھر اقوام متحدہ نے 21 ستمبر کو ’امن کا عالمی دن‘ قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ نے امن کو صرف دو ممالک کے درمیان جنگ سے ہی نہیں جوڑا بلکہ اقوام عالم اور عوام کو غربت، بے روزگاری، نسلی امتیاز، دہشت گردی سمیت جو دیگر مسائل درپیش ہیںان سب کا خاتمہ کرنا مقصود ہے۔اس دن کا مقصد دنیا کو آگاہی دینا ہے کہ ایسے پائیدار حالات بنائے جائیں جن میں جنگ نہ ہو۔ اقوام متحدہ نے رواں سال ’امن کے عالمی‘ دن کو ’ماحول‘ سے جوڑا گیا ہے تاکہ لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے آگاہی دی جاسکے۔اقوام متحدہ کو بنانے کا مقصد دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرنا اور ایسے اقدامات اٹھانا تھا جن سے دنیا میں امن آسکے۔

میرے نزدیک اگر اقوام متحدہ دنیا کے اصل مسائل سے آگاہ ہوتا تو اس دن کو ماحول سے جوڑنے کے بجائے کشمیر سے جوڑتا اور بھارت کو پابند کرتا ہے کہ کشمیر میں مظالم بند کیے جائیں۔ ماحول اہم ہے مگر اگر دو ممالک کے درمیان معاملات اس حد تک کشیدہ ہوں کہ امن خطے میں پڑ جائے تو پھر ماحول سے زیادہ لڑائی کی وجہ اہم ہوتی ہے۔ دنیا میں جو دن منائے جاتے ہیں ان کا مقصد لوگوں کو آگاہی دینا ہوتا ہے۔ اگر امن کا عالمی دن زمینی حقائق پر منایا جا رہا ہے تو اس کا فائدہ ہوگا لیکن اگر حقیقت سے دور ہو تو پھر اس کا مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک حالیہ امن کے عالمی دن کی حیثیت مقالے سے زیادہ نہیں ہے۔

اسرائیل اور بھارت ، فلسطین اور کشمیر میں جو کچھ کررہے ہیں یہ اقوام متحدہ و دیگر اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بدقسمتی سے امن کو خطرہ انہی جگہوں سے ہے جہاں سے امن کی باتیں کی جاتی ہیں۔ عراق، شام، مصر، روہینگیا، کشمیر، فلسطین میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ اسرائیل کبھی اردن کا علاقہ ساتھ ملا لیتا ہے اور کبھی کسی اور ملک کا، اسی طرح بھارت آرٹیکل 370 ختم کرکے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دیتا ہے۔ بھارت میں مسئلہ ہوتا ہے تو آسام میں لوگوں کی رجسٹریشن نہیں ہوتی، تامل ناڈو میں مسائل ہوتے ہیں۔ شام میں ’تمام بمبوں کی ماں‘ بم استعمال کیا جاتا ہے۔

ان تمام مسائل کی روشنی میں میرے نزدیک یہ بہت بڑا مذاق ہے کہ امن کے عالمی دن کو ان مسائل سے نہیں جوڑا گیا۔ اقوام متحدہ اب ادارے کے بجائے کارپوریشن بن گیا ہے جو انوسٹرز کے پیسے سے چل رہا ہے۔ سرمایہ دینے والے ممالک اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر دوسرے ممالک پر حملے کررہے ہیں۔ عراق پر حملہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد پر ہی ہوا مگر بعد میںتحقیقات سے ثابت ہوا کہ وہاں کوئی مہلک ہتھیار نہیں تھے۔ اس جنگ کے ذمہ داروں کے خلاف جنیوا کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں ’وار کرائم‘ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے تھی مگر نہیں ہوئی۔ آئل ریفائنری پر حملے کا ذمہ دار حوثیوں کو ٹہرایا گیا۔

اس کی سکیورٹی امریکا کے پاس ہے اور اس کا ریڈار و ٹیکنالوجی اتنی جدید ہے کہ دنیا کا جدید ترین میزائل بھی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا لہٰذا یہ حملہ سوالیہ نشان ہے اور امریکا اس کو ڈھال بنا کر حالات خراب کر رہا ہے جس سے امن خراب ہوجائے گا۔ امریکا دنیا کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ میرے نزدیک اقوام متحدہ کو ’امن کے عالمی دن‘ کے بجائے ’جنگ کا عالمی دن‘ منانا چاہیے تھا کیونکہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے ظلم ہورہا ہے اور دنیا جنگ میں داخل ہورہی ہے۔ اگر ’امن کا عالمی دن‘ منانے کے بجائے عملی طور پر اقدامات کیے جاتے اور بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دباؤڈالا جاتا تو مثبت نتائج سامنے آتے۔

ڈاکٹر زمرد اعوان
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ سیاسیات ایف سی کالج یونیورسٹی)

اندرونی امن کی کوششوں کو عالمی امن سے الگ نہیں کرسکتے۔ ہمارے اندرونی حالات یہ متعین کرتے ہیں کہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر کس قسم کے اقدامات کرنے ہیں۔ امن کے حوالے سے ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے اور یہ چیلنج عالمی سطح پر بھی ہے۔ملکی حالات کا جائزہ لیں تو گزشتہ برسوں میں دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور فاٹا میں بحالی کا عمل جاری ہے تاہم بلوچستان میں ہمیں ’’را‘‘ و عالمی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ہمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ قصور میں بچوں سے زیادتی کے حالیہ افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں ۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں 100 سے زائد بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے مگر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی۔ خطے کا جائزہ لیں تو افغانستان اور کشمیر بڑے مسائل ہیں۔ 5 اگست کے بعد سے کشمیر کی صورتحال یکسر تبدیل ہوئی، بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی۔ کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کو 30 برس پرانے کیس میں قید کر رکھا ہے جبکہ فاروق عبداللہ کو پہلے گھر میں نظر بند کیا گیا جبکہ اب حراست میں لے گیا ہے اور وہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بغیر کسی الزام کے 2 سال تک قید رکھ سکتے ہیں۔ اس مرتبہ پاکستان نے جس انداز میں عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر کیا ہے ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔

مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان سے افریکی افواج کا انخلاء اور کشمیر کا معاملہ ایک دوسرے سے جڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں کہا کہ افغانستان میں مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہونا چاہیے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں کشمیر میں ثالثی کردار ادا کروں گا لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملات ایک دوسرے کی مدد سے مشروط ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھیں توایران سعودی عرب کشیدگی اور امریکا کا جانبدارانہ کردار عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ سعودی عرب میں دو آئل ریفائنریز پر حوثیوں نے حملے کیے جن کی بنیاد پر امریکا نے ایران پر پابندیاں لگا دیں۔

امریکا یہ بھول رہا ہے کہ ایران کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے اور اس نے عراق ایران جنگ میں سروائیو کیا ہے اور وہ اب اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔ دنیا میں ’ہائبرڈ وار‘ کا ایک نیاتصور آیا ہے۔ اس میں سفارتکاری، سائبر حملے، معاشی، غیر رسمی جنگ و دیگر شامل ہیں۔ ہائبرڈ وار کی وجہ سے اب معاملات زیادہ تشویشناک ہوجائیں گے۔ پہلے سوشل میڈیا اتنا وسیع نہیں تھا مگر اب چند منٹوں میں چیزیں پھیل جاتی ہیں اور ایک خطے سے دوسرے خطے تک اس کے اثرات جاتے ہیں۔ عراق،لیبیا، افغانستان و دیگر ممالک میں امریکا کی اسٹرٹیجی ناکام ہوئی، اب بھی اس کی وجہ سے دنیا کا امن خراب ہوسکتا ہے لہٰذا اسلامی ممالک کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

میرے نزدیک ایران، سعودی عرب معاملہ و مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ’’او آئی سی‘‘ کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ عالمی امن کیلئے مہاجرین کے مسائل بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ خود امریکا میں ٹرمپ نے 5کانگریسی خواتین کو کہا کہ وہ اپنے اپنے ملک میں جا کر کام کریں۔ اس چیلنج پر قابو پانا ہوگا اور مہاجرین کے حقوق کا بلاامتیاز رنگ، نسل، مذہب خیال رکھنا چاہیے۔

2012ء سے ممالک کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیداہوا اور جگہ جگہ پراکسی جنگوں کا آغاز ہوگیا۔ اس میں عالمی اداروں کو کردار ادا کرنا چاہیے مگر یہ اداریں قراردادوں سے آگے نہیں بڑھتے۔ جب ان ممالک کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر یہ حرکت میںآتے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ عالمی ادارے کشمیر کی بات تو کر رہے ہیں مگر بھارت پر دباؤ نہیں ڈالا گیا، دنیا میں اپنی بات منوانے کیلئے ممالک کو اپنی معیشت مضبوط بنانا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔