چار کام

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  جمعرات 3 اکتوبر 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

اسکول کے زمانے میں بچوں کے پاس زیادہ پیسے ہوں تو وہ فالودہ کھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ رشتے دار کی شادی میں گئے تو وہی کمال نظر آیا جس کے ٹھیلے پر جیب خالی کیا کرتے تھے۔ والدہ سے پوچھا تو بتایا کہ ایوب دور میں ان کی ٹیکسٹائل مل ہوا کرتی تھی۔ ان کے گھر کی خواتین اٹھ کر پانی نہ پیتیں۔ اس زمانے میں ان کے پاس گاڑی ہوتی تھی جب لوگوں کے پاس پرانی سائیکل بھی نہ ہوا کرتی تھی۔ کچھ عرصے بعد تایا سے سنا کہ ان کے خاندان کے سربراہ کی جیب میں دو چار ہزار روپے ہوا کرتے تھے۔ یعنی اتنی رقم جس سے اس وقت کوئی مکان یا دکان خریدی جاسکتی تھی۔ ایسے واقعات آپ کو بھی اپنے خاندان میں نظر آتے ہوں گے۔ لوگ امیر سے غریب کیوں ہوجاتے ہیں؟ وہ اپنی شان و شوکت کیوں نہیں بچا سکتے؟ اس لیے کہ وہ چار امور سرانجام نہیں دیتے۔ کالم ’’سامان سو برس کا‘‘ میں چار کاموں کا ذکر تھا جس کی تفصیل آج بیان کی جارہی ہے۔ چار نکتوں کی زد میں آنے سے کون بچ سکتا ہے؟ امیر سے غریب کون ہوجاتا ہے؟ خوشحالی سے بدحالی کن لوگوں کا مقدر ٹھہرتی ہے؟ افراد و خاندان ہی نہیں بلکہ ممالک اور ریاستیں بھی دھوپ چھاؤں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس میں کہیں تقدیر کو دخل ہوتا ہے تو کہیں تدبیر کو۔

سعودی عرب اور حیدر آباد دکن کی بات کرنے کے بعد ہم وہ چار نسخے بتائیں گے جو نہ اپنانے پر امیر خاندان غریب ہوسکتے ہیں۔ وہ چار فارمولے جنھیں کوئی خوشحال کنبہ اختیار کرلے تو اس کے مفلس ہونے کی امید کم ہوجاتی ہے۔ اگر نہ کرے تو ذلت و خواری سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ حیدرآباد دکن انگریزوں کے زمانے میں ہندوستان کی امیر ترین ریاست ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ وہاں ہیرے جواہرات نکلتے تھے۔ مسلم حکمران نظام کے پاس وہ قیمتی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں جو بڑے بڑے انگریز لارڈز بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ اس دور میں مشرق وسطیٰ میں تیل نہیں نکلا تھا۔ حیدرآباد کے حکمران مقدس مقامات کی دیکھ بھال میں اپنا حصہ بٹایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مکے کے گورنر نے حیدرآباد دکن کے نظام کو لکھا کہ خانہ کعبہ کا فرش پچیس فیصد ٹوٹ چکا ہے اور مرمت کے لیے ایک لاکھ روپے درکار ہیں۔

نظام نے پانچ لاکھ روپے بھجوائے اور کہا کہ پورا فرش ایک مرتبہ اچھی طرح تعمیر کریں۔ حالات نے پلٹا کھایا۔ ہندوستان آزاد ہوا تو حیدرآباد پر بھارتی فوجوں نے قبضہ کرلیا اور سب کچھ لٹ گیا۔ سعودی عرب میں تیل نکل آیا اور اب خانہ کعبہ و مسجد نبوی کی تعمیرات پر وہ اربوں ڈالر سالانہ خرچ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ نظام کی اولاد کس حال میں ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ اسے ہم تقدیر کہہ سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ایک خاندان اپنی خوشحالی کی طبعی عمر پوری کرکے رخصت ہوا۔ انفرادی طور پر محل سے جھونپڑے اور بوسکی سے دھوتی میں کوئی آجائے تو اس میں تقدیر کے علاوہ تدبیر کا بھی دخل ہوتا ہے۔ پچھلے کالم کی اشاعت کے بعد قارئین کا شدید دباؤ تھا کہ جلد ازجلد چار کام بتائے جائیں جس سے باکمال شخص زوال سے بچ سکتا ہو۔

دولت آتی ہے وراثت، ہنرمندی اور تعلیم سے۔ قسمت ہو تو ٹھیلے سے چھوٹی دکان اور پھر گاہکوں کا ہجوم۔ رب کا کہنا کہ ’’ہم جسے چاہتے ہیں بے شمار رزق دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں نپا تلا‘‘۔ اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو اکثر خاندان آپ کو دینے سے لینے تک آجانیوالی پوزیشن میں دکھائی دیں گے۔ غریب علاقوں میں رہنے والے بیس برسوں میں امرا کی بستیوں میں اور پوش علاقوں میں رہنے والے چھوٹے کوارٹرز میں زندگی گزارتے دیکھے گئے ہیں۔ مخیر حضرات کہلانے والے بمشکل سفید پوشی کا بھرم رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ باوردی ڈرائیور کے دروازہ کھولنے پر گاڑی سے اترنے والوں کو بے بسی سے بس اسٹاپ پر دیکھ کر نظریں بچانی پڑی ہیں۔ حقیقتیں انتہائی تلخ ہیں۔ وہ دکان جس پر باپ سیٹھ بن کر آتا تھا اسی دکان پر بیٹے کو نوکری کرتے دیکھ کر آنکھوں نے ہلکی سی نمی محسوس کی ہے۔ ہر دس سال بعد سیاسی و معاشی حالات کی تبدیلی یا بے تدبیری یا بدنیتی کئی خاندانوں کو کمال سے زوال کی طرف لے جاتی ہے۔ اب صورت حال سے بچنے کے چار نکاتی فارمولے پر ہم گفتگو کر رہے ہیں۔

غرور و اکڑ بڑی خطرناک بیماریاں ہیں۔ مشترکہ خاندانی کاروبار ہو تو کوئی ایک فرد پوری ناؤ کو چلاتا ہوا نظر آتا ہے۔ مال خریدنے، بیچنے اور بنانے کا فیصلہ وہی کرتا ہے۔ تیزی مندی میں اس کے اندازے درست ثابت ہوتے ہیں۔ یہیں سے وہ خرابی جنم لیتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ ایسے شخص میں عاجزی نہ ہو تو انجام عبرت ناک ہوتا ہے۔ اس سے ملتا جلتا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ چار پانچ خاندانی کاروبار میں ایک دو پھلتے پھولتے ہیں۔ اب جو پارٹنر وہاں بیٹھتے ہیں وہ بھی پھولنے لگتے ہیں کہ وہ بڑے قابل ہیں۔ کم منافع والے کاروبار سنبھالنے والوں کو یہ پارٹنر دباؤ میں رکھتے ہیں۔ کم اہم کام کرنیوالے شریک کا دوسرے پارٹنر جینا محال کردیتے ہیں۔ وہ طنز و طعنے کہ اللہ کی پناہ۔ ایسے سلسلے تادیر نہیں چل سکتے اور قدرت اپنی برتری ثابت کرکے رہتی ہے۔ غرور سے بچنے کے لیے دوسری لازمی بات یہ ہے کہ بھائی و پارٹنرز آپس میں مخلص ہوں۔ اگر کوئی کسی چمکتے دمکتے ہوئے کاروبار یا گھر پر قبضے کی پلاننگ کرتا ہے تو یہ کشتی میں شگاف ڈالنے والی بات ہے۔

حساب نہ دینا اور کہنا کہ ’’تم اپنا کما کھاؤ میں اپنا کما کھاتا ہوں‘‘ بدنیتی ہے جس سے روٹی آدھی رہ جاتی ہے۔ ’’نیت بد مانی ادھ‘‘ سندھی کی کہاوت ہے۔ یاد رکھیے کسی بڑے بھائی کا چھوٹے کو نیک نیتی سے ٹوکنا کوئی بری بات نہیں۔ غیر ضروری گاڑی یا مہنگا گھر خریدنے، بچے کی شادی میں فضول خرچی، زیادہ غیر ملکی دوروں پر اعتراض کو قابل اعتراض نہیں سمجھنا چاہیے۔ مخلص بھائی اور سمجھدار پارٹنر کی یہ نصیحت کاروبار کے لیے مفید ہوتی ہے۔ غرور و بدنیتی سے بچنا آدھا سفر ہے۔ زوال سے بچنے کے لیے۔اگر بھائیوں نے کسی وارث خاص طور پر بہنوں کا حق نہیں مارا تو یہ زوال سے بچنے کا تیسرا نسخہ ہے۔ حق تلفی کرکے تیزی سے سیڑھیوں پر چڑھنے والوں کو 98 پر سانپ کو نہیں بھولنا چاہیے۔ بہنوں کے حصے پر ڈنڈی مارنیوالے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں شاندار بنگلوں سے گندے کوارٹرز میں دیکھے گئے ہیں۔ دفتر کی کرسیوں پر روتی ہوئی بہنوں کی فریاد کئی مرتبہ یہ گنہگار کان سن چکے ہیں۔

ایسے بھائیوں کو اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا گیا ہے۔ جن کی خاطر قبر کا عذاب مول لیا وہ دنیا میں بھی عذاب کا سبب بن جاتے ہیں۔ مقدمے کے بغیر بہنوں کو حصے دینے کی وکیل کی درخواست کو غرور سے رد کرنے والے ان ہی کرسیوں پر مفلسی سے بیٹھے تھے۔ ذہنی طاقت اور جسمانی قوت ساٹھ ستر سال کی عمر تک رہتی ہے۔ پھر کاروبار، رقوم اور فیصلہ بیٹیوں کے ہاتھ میں آجاتی ہیں جسے کوئی نہیں روک سکتا۔ وقت اچھے اچھوں کو پچھاڑ دیتا ہے۔ جس اولاد کی خاطر بہنوں کا حق مارا تھا وہی اس شخص کی بیٹیوں کو وراثت نہ دے کر روایت قائم کرتے ہیں۔ بہنوں کا حق مارنے کی روایت۔چوتھا کام عزیزوں، رشتے داروں، غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنا ہے۔ جو شخص اور خاندان اس کام میں جتنا آگے ہوگا وہ اپنی خوشحالی کی معیاد میں اتنا ہی اضافہ کرے گا۔ جن کاروباری امپائرز کے مالکان اپنے ملازمین کو خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں تو ان کا اسٹاف بھی فرم کو فیملی سمجھتا ہے۔

دولت کے تناسب سے معاشرے کی مدد کرنیوالا دعائیں لے کر اپنی اقبال مندی کی لیز کی مدت میں اضافہ کرسکتا ہے۔ یہ سخاوت اپنی دولت کے نسبت سے ہونی چاہیے۔ اونٹ کے منہ میں زیرے یا بقدر اشک بلبل کی سی مدد سے خوشحالی کے سورج کو نصف النہار پر رکھنے کی امید لاحاصل ہوگی۔ حصہ بقدر جثہ کی کیفیت ہونی چاہیے۔ بٹوے، تجوری اور جیب پر ہاتھ تیزی سے چلا جائے تو خوشحالی کو دوسری تیسری اور چوتھی نسل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ سو سالہ خوشحالی کا دعویٰ کون سا خاندان کرسکتا ہے؟ دانشمند اور اعلیٰ ظرف شخص خوشحالی دوسری نسل تک منتقل کرتاہے یا قدرت کے ہاتھوں پٹ جاتا ہے۔ اگر کوئی خوشحال شخص یا امیر خاندان اس چار نکاتی فارمولے پر پورا نہیں اترتا تو ذلت و مفلسی سے نہیں بچ سکتا۔ قدرتی اسپرے معاشرے کے لیے ناسور بن سکنے والے جراثیم کا خاتمہ یہ نعرہ لگا کر کردیتا ہے کہ ’’نہیں بچے گا‘ نہیں بچے گا‘‘۔ اگر کسی باکمال کو زوال سے بچنا ہے تو اسے غرور، بدنیتی، بددیانتی اور کنجوسی سے بچنا ہوگا۔ عزت اسی کو ملے گی جو عاجزی، نیک نیتی، ایمانداری اور سخاوت کے اصول اپنائے گا۔ وہ چودھویں کا چاند بن کر چمکے گا اور اس کے خاندان پر چار چاند لگ جائیں گے جو کرے گا یہ چار کام۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔