بچوں کے ساتھ زیادتی؛ ریاست کیا کرے؟

مناظر علی  جمعرات 26 ستمبر 2019
پاکستان میں کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کمسن بچوں اور بچیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز، ایک غیر سرکاری تنظیم کی سروے رپورٹ اور خیبرپختونخوا میں بچیوں کےلیے عبایہ پہننے کی پابندی کا نوٹیفکیشن اور پھر اس پر حکومتی یوٹرن۔ اس ساری صورتحال کے بعد ایک نئی بحث بھی چھڑگئی ہے کہ کیا زیادتی کے واقعات کا تعلق لباس سے ہے؟ اگر ہے تو پھر عبایہ کی پابندی کا حکم صرف بچیوں کےلیے جاری کیا گیا، حالانکہ زیادتی کے کیسز میں تو بچے بھی شامل ہیں اور قصور اسکینڈل میں درندوں کا شکار بچے ہی تھے۔ اس صورتحال کے بعد ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ زیادتی سے بچاؤ کا حل کیا صرف عبایہ ہی ہے اور ریاست میں اس میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟

ایک ٹی وی شو میں خیبرپختونخوا کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش اینکر کے سوال پر الجھن کا شکار نظر آئے کہ ان کی حکومت نے ایسا حکم کیوں جاری کیا؟ اور وہ زیادتی روکنے میں عبایہ کے سودمند ہونے کو بھی ثابت نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس حکم پر زیادہ دیر تک قائم بھی نہیں رہ سکے اور ریاست نے عبایہ لازمی قراردینے کے اپنے ہی حکم پر یوٹرن لے لیا۔

اگر ہم فرض کرلیتے ہیں کہ ایک اوباش جب صنف نازک کے جسم کو نمایاں دیکھتا ہے تو یہ منظر اسے اپنی خواہش کی تکمیل میں زور زبردستی پر اکساتا ہے۔ لہٰذا اس کا حل صرف یہی ہے کہ عورت چاردیواری میں بیٹھ کر سبھی امور نمٹائے یا پھر ایسا لباس زیب تن کرے جس سے مرد کے اندر صنف نازک کی عزت کی چیرپھاڑ کرنے والا شیطان نہ جاگنے پائے۔ اگر بعض لوگوں کے نزدیک عورت کا لباس اس کی عزت کا جنازہ نکالنے کی سب سے بڑی وجہ ہے تو پھر مجھے وہ اس بات کا جواب دیں جب کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہاں شیطانی گروہ کے ان کارندوں کو کون سی چیز انہیں نوچنے پر اکساتی ہے؟ اسی تناظر میں جب ہم مدارس میں زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے دیکھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر لباس زیادتی کی وجہ بنتا ہے تو پھر مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں سے بڑھ کر کون سی ایسی جگہ ہوگی جہاں دینی اصولوں کی پابندی اور لباس کا خیال رکھا جاتا ہوگا؟

قصور میں درندگی کا شکار ہونے والی زینب کا لباس کس نے نہیں دیکھا؟ کیا وہ لباس غیر مناسب تھا؟ کیا اس معصوم کو دیکھ کر کوئی ہوشمند انسان کچھ غلط کرنے کا سوچ سکتا تھا؟ اکیس ستمبر 2019 کو راولپنڈی دھمیال کیمپ میں مولوی سے دینی تعلیم حاصل کرنے والا بارہ سالہ بچہ جواد ظریف اپنے ہی استاد کی درندگی کا شکار ہوا۔ والدین کو یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ ایک استاد اپنے شاگرد کے ساتھ ایسا عمل کرسکتا ہے۔ پھر پولیس تفتیش کے بعد ثابت ہوگیا کہ استاد ہی شاگرد کے ساتھ شیطانی کھیل کھیلتا رہا۔ لباس کو وجہ زیادتی قرار دینے والے یہاں جواد ظریف کو کون سا لباس تجویز کریں گے، تاکہ وہ آئندہ ایسے کسی خوفناک واقعے سے بچ سکے؟

ہفتہ اکیس ستمبر کو ہی ایک خبر سامنے آئی کہ فیصل آباد سمندری کے گاؤں 222 میں ایک درجن سے زائد بچوں سے زیادتی کا انکشاف ہوا۔ تھانہ ترکھانی میں بچوں سے زیادتی کے دو مقدمات بھی درج ہوئے۔ ایک ملزم پولیس نے گرفتار کیا جس کے قبضے سے متاثرہ بچوں کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز برآمد کی گئیں۔ منڈی بہاؤالدین کے تھانہ سٹی کی حدود میں اسی سال اکیس ستمبر کو ایک اور خبر منظرعام پر آئی جہاں نو اور دس سالہ بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا، جو پولیس کی گرفت میں بھی آگئے۔ تین ماہ قبل ٹنڈو محمد خاں میں جمنا نامی معصوم بچی نے کون سا نیم برہنہ لباس پہن رکھا تھا کہ روشن شیخ اور رجب نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا؟

جوان لڑکیوں کے علاوہ اگر ہم یہاں صرف کمسن بچوں کے ساتھ ہونے والے خوفناک واقعات ہی لکھنا شروع کردیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی جو معاشرے کے ان ناسوروں کی انتہائی گھٹیا حرکات پر مشتمل ایک نامہ اعمال کی صورت میں رہتی دنیا تک چیخ چیخ کر گواہی دیتی رہے گی کہ ایک قوم ایسی بھی دنیا میں گزری ہے جنہوں نے قوم لوط کے بھی سارے ریکارڈ توڑ کر رکھ دیئے تھے۔

مگر ہم پھر اسی پوائنٹ پر آئیں گے کہ کیا لباس زیادتی کی وجہ ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر عبایہ یا اس جیسے احکامات دے کر ریاست اپنے فرائض سے بری الذمہ کیسے ہوسکتی ہے؟ ریاست خود کو عالم دین بنانے کی کوشش نہ کرے اور اسے پردے جیسے دینی مسئلے کے ساتھ بھی جوڑنے کی کوشش نہ کرے۔ جیسا کہ خیبرپختونخوا کے مشیرتعلیم نے کہاکہ پردے کا مذاق بنایا جارہا ہے۔ یہ مذاق پردے کا نہیں بلکہ ریاست زیادتیوں کے بڑھتے واقعات کی وجوہات جاننے اور انہیں روکنے کےلیے ٹھوس اقدامات کے بجائے خود کا ہی مذاق بنارہی ہے۔ یہاں ریاست کے ساتھ معاشرے کے ذمے داروں کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے کے افراد جنہیں کرنے کےلیے کوئی کام نہیں، انہیں مصروف کیسے رکھنا ہے؟ اس کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ فوری طور پر ایک سروے کرایا جائے اور ملک بھر کے بیروزگاروں کی ایک فہرست تیار کی جائے۔ اس سروے میں یہ جاننے کی بھی کوشش کی جائے کہ یہ بیروزگار افراد اگر کچھ نہیں کرتے تو پھر آخر کیا کام کرتے ہیں؟ سروے کے بعد اگلا مرحلہ انہیں کسی کام پر لگانے کا ہے۔ ہر بیروزگار آدمی کو اس کی اہلیت کے مطابق سرکاری نہیں تو غیرسرکاری اداروں میں روزگار فراہم کیا جائے۔ اس کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہروں کے گرد نئے صنعتی یونٹ لگائے جائیں، جہاں ہنرمندوں اور بے ہنرافراد دونوں کےلیے کام پیدا کیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ فارغ رہنے والے لوگ سارا دن کام کریں گے اور شام کو تھک ہار کر سوجائیں گے اور اگلے دن صبح اپنے دفتر، فیکٹری یا کام کی جگہ چلے جائیں گے۔ انہیں بے راہ روی کی تاریک دنیا سے نکال کر ریاست جہاں ان کی مددگار بن جائے گی، وہیں ان کے خاندان کی آمدن میں بھی اضافے کی وجہ بنے گی۔

ریاست کے کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ہر علاقے کی خالی جگہوں پر خوبصورت پارک، ورزش کی جگہیں اور صحت مند سرگرمیوں کےلیے ہر علاقے میں کمیٹیاں بنادی جائیں۔ جو دلچسپ اور قابل عمل پروگرام ترتیب دے کر لوگوں کو فارغ اوقات میں مصروف رکھیں۔ ریاست کے کرنے کا تیسرا کام یہ ہے کہ والدین اور بچوں کے درمیان خلا کم کرنے کےلیے اسکولوں اور گلی محلوں میں آگاہی مہم چلائیں اور والدین کو اپنے بچوں کی تربیت اور اچھے برے کی تمیز سکھانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس دوران انہیں موبائل فون اور انٹرنیٹ کا درست استعمال بتایا جائے اور انہیں بہتر اور دلچسپ مواد کی طرف راغب کیا جائے۔

ریاست کے کرنے کا چوتھا کام یہ ہے کہ میڈیا کو اصلاح معاشرہ پر مبنی پروگرام نشر کرنے یا پابند بنائے اور سوشل میڈیا، ڈراموں، فلموں اور تھیٹر کی کڑی نگرانی کی جائے۔

ریاست پانچواں کام یہ بھی کرے کہ حکومتی اعلیٰ سطح پر ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں سیاستدانوں کو شامل نہ کریں بلکہ اس میں ماہرین نفسیات، ڈاکٹرز، قانون دان، ماہرین تعلیم، اعلیٰ پولیس افسران اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام شامل ہوں۔ ان سے سفارشات تیار کراکے یہ فیصلہ کیا جائے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔

اگر فوری طور پر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ مرض بڑھتے بڑھتے کینسر کی شکل اختیار کرجائے گا۔ جس کا انجام انتہائی بھیانک ہونے کا خدشہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔