محبت کیوں ضروری ہے؟

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 28 ستمبر 2019
محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور معاشرے کی ترقی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شاید وہ واحد نعمت ہے جو انسان کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ملنی شروع ہوجاتی ہے اور اس کے مرنے کے بعد تک ملتی رہتی ہے۔ ماں باپ اپنے ہونے والے بچے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے اور اولاد اپنے گزر جانے والے والدین کے لیے کیسے کیسے ایصال و ثواب کراتی ہے، صحیح راہ پر چلتے ہیں کہ کوئی طعنہ نہ دے کہ فلاں کے بچے کیا کررہے ہیں۔

محبت نام ہے وفا کا، نبھانے کا، مان جانے کا، اطاعت کا، سر تسلیم خم کر دینے کا، سن لینے کا۔ آج کل کے دور میں تحفے تحائف کی آڑ میں ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا جو دھندہ چل رہا ہے، اللہ ایسی محبت سے سب کو بچائے۔

محبت مبالغہ آرائی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ہوتی بھی ہمیشہ مادری زبان میں ہی ہے۔ جس زبان میں آپ دل کے حال کا اظہار نہ کرپائیں، دل لگی کا احساس نہ سمجھ پائیں اس زبان میں محبت اور اس زبان سے محبت بھلا کیسے ممکن ہے۔

عشق، محبت، الفت، پیار، دل لگی، پسند، جھیل، جھرنا، چاند، تارے اور نہ جانے کتنے ہی استعارے ایجاد ہوگئے مگر محبت والوں کو آج تک کسر محسوس ہوتی ہے کہ محبوب کی تعریف کا حق ادا نہیں ہوا۔ بقول شاعر:

ابھرا نہ تیرا نقش و خدوخال ابھی تک
تصویر تیری قرض ہے تصویر گروں پر

محبت وفا ہے۔ یہ دعوی کرتی ہے اور یہ دلیل چاہتی ہے۔ بے وفائی سے بڑا گناہ شاید کوئی نہیں۔ شرک بے وفائی ہی تو ہے کہ زبان سے معبود کسی اور کو مانا اور دل کی امیدیں کسی اور سے وابستہ ہیں۔

دل کے معبود جبینوں کے خداؤں سے الگ
ایسے عالم میں عبادت نہیں ہوگی ہم سے

محبت ہر معراج پر پہنچ کر پیاسی رہ جاتی ہے۔ تھوڑی اور کی طلب اسے اعتدال کی ساری بندشوں سے آزاد کردیتی ہے۔ کتنا ہی اونچا مقام مل جائے، چاہنے والا ناچیز ہی رہتا ہے۔ اگر آپ کی محبت اصولوں، ضابطوں اور وقت کی پابندیوں کے ساتھ منسلک ہے تو ہزار بار سوچیے کہ آیا محبت ہے بھی کہ نہیں۔

کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے
جو حد اعتدال سے آگے نہ جاسکے

پتہ نہیں اللہ کے عذاب کی یہ کون سی شکل ہے کہ ہمارے معاشرے سے محبت ختم ہوتی جارہی ہے۔ نہ باپ کو بچوں سے، نہ شوہر کو بیوی سے، نہ بندے کو اپنے رب سے، نہ شاگرد کو استاد سے، نہ مالک کو نوکر سے، نہ دکاندار کو گاہک سے، نہ پرندوں اور جانوروں سے، نہ پنچھی اور پھولوں سے، نہ موسم سے نہ بارش سے، حتیٰ کہ اپنے آپ سے بھی نہیں۔ ہر شخص بس ٹائم پاس کر رہا ہے۔

ہم گھر میں بہت سارے بچے تھے اور محلے میں اس سے بھی زیادہ، مگر ہماری ماں ہمیں ہمارے ہنسنے، رونے، حتیٰ کہ کھانسنے کی آواز سے بھی پہچان جاتی تھی۔ایک شخص ملا، برا حلیہ، گندا حال، بوسیدہ کپڑے، بکھرے بال، حالانکہ آئی ٹی کمپنی میں اچھی جاب کر رہا تھا۔ تھوڑی جانکاری کے بعد احساس ہوا کہ اس کا باپ ہمیشہ اسے ’’منحوس‘‘ کہہ کر بلاتا تھا۔ یہ بات اس کی گھٹی میں بیٹھ گئی اور اب وہ اپنے آپ سے بھی محبت نہیں کرتا۔ گھر جاکر اپنے بچوں کو گلے سے لگائیے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ کتنی زور سے آپ کو بھینچتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت کیجئے، اپنی صحت اور حلیے پر توجہ دیجئے، اپنے کام سے محبت کیجئے، اپنی پڑھائی سے محبت کیجئے، رشتے داروں، محلے والوں، دوستوں اور آفس کولیگ سے محبت کیجئے۔ جو لوگ ہر وقت منفی سوچتے اور بولتے رہتے ہیں، انہیں نہ صرف طرح طرح کی بیماریاں ہوجاتی ہیں بلکہ ان کا کیریئر بھی رک جاتا ہے۔

اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کیجئے۔ محبت میں آدمی زیادہ سے زیادہ محبوب کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ محبوب کی معرفت اسے ہر روز ایک نیا رنگ دیتی ہے۔ میرا دوست عبداللہ کہتا ہے کہ اس نے گن کر 23 عشق کیے ہیں۔ ہر بار پہلے سے اچھا محبوب نظر آتا تو اسے چھوڑ کر اگلی منزل کی طرف چل پڑتا۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے سامنے نظر ہٹا لینا، کسی اور کی طرف دیکھنا، گھڑی میں ٹائم دیکھنا اور فوکس نہ رہنا، اس بات کی نشانی ہے کہ دل اکھڑ گیا ہے۔

حیران ہوں کہ لوگ مسجد میں موبائل سے کیسے کھیل لیتے ہیں، گھڑی کیسے دیکھ لیتے ہیں۔

’’حقوق العباد کی فکر کرو، حقوق اللہ تو معاف ہوجائیں گے‘‘۔ ایسا جملہ صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے جس نے کبھی محبت نہ کی ہو۔ جن لوگوں کا خمیر محبت سے اٹھا ہو آپ انہیں واضح طور پر زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرتا دیکھیں گے اور جن کی مٹی حسد اور شک پر مبنی ہے، وہ اپنی صلاحیتوں پر بھی شک ہی کرتے ہیں۔

کچھ گناہ بس ہوجاتے ہیں، بغیر کسی دلیل و سبب کے۔ دل چاہا، مزہ آیا، لذّت ملی، اچھا لگا، انا کو تسکین پہنچی، کر لیا۔ یہ چھوٹے گناہ ہیں، یہ ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔ بس معافی مانگیں اور آگے چلیں۔ کچھ گناہ ہم پلاننگ کرکے کرتے ہیں، اس طرح فلاں شہر، فلاں ہوٹل جائیں گے، فلاں ملک کی سیر کریں گے، وہاں یہ یہ گل کھلائیں گے۔ یہ ہوتے ہیں بے وفائی والے گناہ۔ یہ محبت کے ساتھ نہیں چلتے۔ یا گناہ چھوڑیں یا محبت کو خداحافظ کہہ لیں۔ چھوٹے موٹے افیئر پر بیوی چھوڑ کر چلی جاتی ہے، اللہ کی ذات تو بے نیاز ہے، کچھ تو وفا کا بھرم رکھیں۔

محبوب کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے، اس کا نمبر، اس کا نام، اس کی چوڑیاں، اس کا روٹھنا، اس کی ادا۔ پھر پتہ نہیں اذان کی آواز سے اتنی چڑ کیوں ہے، مسجد میں لڑنا کیوں گوارا ہے، مولوی صاحب کی تضحیک سے کیا سکون ملتا ہے؟ اگر اولاد اس بات پر ناراض ہونے لگے کہ ماں باپ نے ساتھ فلم نہیں دیکھی تو یقین جانیے ہاتھ ہوگیا ہے پھر سے شروع کریں۔

آپ سے ایک کام کی بات عرض کروں۔ محبت میں ہجرت ممکن ہے، محبت سے ہجرت ممکن نہیں۔ نہیں بھاگ سکتے۔ اگر سچا عشق کیا ہے، چاہے کچھ عرصے کے لیے ہی، وہ رنگ دکھائے گا۔ بہت ہی بلیک اینڈ وائٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی محبت نہ کی ہو، ورنہ ہر شخص کے موبائل میں کوئی نہ کوئی ایسا نمبر تو ہوتا ہی ہے جو نہ ڈائل کرسکے نہ ڈیلیٹ کرسکے۔

آئیے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہماری زندگیوں میں محبت واپس لے آئے اور ہمیں سب سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔