آصف زرداری نے مجھے پیغام بھجوایا پاکستان آئیں اور بتائیں کہاں سے انتخاب لڑنا ہے

رضوان طاہر مبین  اتوار 29 ستمبر 2019
لال کرشن ایڈوانی کو جب یہ پتا چلا کہ میں کبھی ہندوستان نہیں گیا، تو وہ بہت حیران ہوئے، ممتاز صحافی۔ فوٹو: فائل

لال کرشن ایڈوانی کو جب یہ پتا چلا کہ میں کبھی ہندوستان نہیں گیا، تو وہ بہت حیران ہوئے، ممتاز صحافی۔ فوٹو: فائل

یہ وہ زمانہ تھا، جب اکلوتا سرکاری ’ٹی وی‘ ہی دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اخبارات نجی تھے، لیکن قارئین انھیں آزاد نہیں سمجھتے تھے۔۔۔ ایسے میں ’ریڈیو‘ کو اِدھر اُدھر کی بازگشت سننے کے لیے ایک برتری سی حاصل تھی۔۔۔ اور پھر ہمارے گھر میں ’ٹی وی‘ کو پڑھنے والے بچوں کے لیے مُضر جانا جاتا، اس کی جگہ ہر جمعے کو ریڈیو پاکستان سے مُنّی باجی کا پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ سنوا کر ہماری سماعتوں کی تربیت ہوتی۔۔۔

امی کبھی کبھی ریڈیو کی سوئی گھماپِھرا کر ’آل انڈیا ریڈیو‘ کے ’حیدرآباد، دکن‘ اسٹیشن کی آواز سنوانے میں بھی کام یاب ہو جاتیں، جہاں سے بچوں کا پروگرام اتوار کو نشر ہوتا، یہ اتوار کی چھٹی ہم جمعے کی چھٹی والے بچوں کے لیے خاصی حیرانی کا باعث بنتی۔۔۔

تب اکثر گھروں میں اسکول اور مدرسے والے بچے جلدی سو جاتے تھے۔۔۔ ہمارے ہاں بھی 10 بجے رات ہو جاتی۔۔۔ لیکن شاید کچھ حالات وواقعات ایسے تھے کہ باخبر رہنا بھی ضروری خیال ہوتا۔۔۔ اور آزاد خبروں کے لیے ’بی بی سی‘ کسی سند کی طرح مانا جاتا تھا۔۔۔

اس لیے ہمارے ابو الماری کے اوپر رکھے ہوئے بڑے سے جاپانی ’کار ٹیپ‘ کے اینٹینے کا رخ اور اس کی ’سوئی‘ کا سمبندھ ایسا کر دیتے کہ جہاں ’بی بی سی‘ صاف سنائی دینے لگتا۔۔۔ پھر اردو نشریات کے لیے ساڑھے 10 بجنے کا انتظار ہوتا۔۔۔ اور غالباً اردو سے قبل بی بی سی کی ’ہندی‘ نشریات جاری ہوتیں۔۔۔

اور ہم سوچتے کہ ’ارے یہ ہندی ہے؟ یہ تو ہمیں بالکل صاف سمجھ میں آرہی ہے، سوائے ہر تیسرے، چوتھے اجنبی سے لفظ کے۔۔۔‘

ابھی ہم اردو اور ہندی کو سمجھنے کی یہ گتھی ہی سلجھا رہے ہوتے کہ یکا یک گھڑیال ساڑھے 10 بجا دیتا۔۔۔ اور ’بی بی سی‘ سے اردو نشریات شروع ہوتے ہی پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش کے مختلف وقت کے ساتھ جب گرینیچ کا وقت شام کے ساڑھے پانچ بتایا جاتا۔۔۔ تو ہمیں کھڑکی سے تاروں بھرا سیاہ آسمان دیکھ کر ایک اور حیرت ہوتی کہ اس وقت دنیا میں کہیں شام بھی ہے۔۔۔!

پھر ’بی بی سی‘ سننے کے اسی بیچوں بیچ گھر میں اکثر کہیں نہ کہیں ’شفیع نقی‘ کا ذکر تواتر سے ہوتا۔۔۔ اُس سمے انہیں سننا تو اتنا یاد نہیں، لیکن ذہن میں غائبانہ اُن کی شخصیت کسی خاکے کی صورت بننے لگی۔۔۔ آواز سنائی دے گئی، تو بتایا گیا کہ یہ ہیں ’شفیع نقی‘ اپنی ہی کالونی کے ہیں۔۔۔ اُن کے والد کی نسبت یہ۔۔۔ اور اُن کا گھر وہ فلاں ہے۔۔۔ اور یوں ہم ایک نئی حیرت میں مبتلا ہوتے۔۔۔ اور اُن سے ملنے کا تجسس ایسا تھا جو ہمارے ساتھ بڑا ہوا، لیکن تب یہ سوچا بھی نہ تھا کہ بی بی سی ’شفیع نقی‘ سے کبھی ہم ملاقات بھی کریں گے اور پھر ہم بھی انہی کی طرح دشت صحافت کی سیاحی کرتے ہوئے ایک دن انہی سے گفتگو کا احوال بھی لکھیں گے۔۔۔

ہماری شفیع نقی جامعی سے پہلی ملاقات انٹر کے زمانے میں ہوئی، اب کی بار وہ کراچی آئے، تو ہم مل نہیں پائے، آخر ہم نے ’وٹس ایپ‘ کے وسیلے اُن سے یہ ملاقات کی، یعنی ’ایکسپریس‘ کے توسط سے ہمارے مواصلاتی انٹرویو کا سلسلہ اب ہندوستان سے ہوتا ہوا ’لندن‘ پہنچ گیا۔۔۔

’بی بی سی‘ لندن والے شفیع نقی، زمانہ طالب علمی کے ’شفیع نقی جامعی‘ کا حلیہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ کاندھوں تک لمبے بال، پولیس کا سائرن لگی ہوئی ہنڈا 250 اسکوٹر پر سوار، جامعہ کی ’یوم حسین‘ کمیٹی کے رکن، محرم میں کالے کپڑے پہننے اور رشید ترابی کی مجالس میں جانے والے۔۔۔‘

ذرا ٹھیریے۔۔۔ ان کے یہ بھرپور اور توانا حالات زیست جاننے سے پہلے ذرا ان کا بچپن جان لیجیے۔۔۔

کہتے ہیں کہ والدہ کے بقول تاریخ پیدائش 27 نومبر 1953ء ہے، والد نے دو شادیاں کیں، 10 بہن بھائیوں میں وہ منجھلے ہیں۔ شفیع نام دادا نے رکھا، لیکن گھر میں والدہ کا دیا ہوا نام ’شاہد اختر‘ ہے۔۔۔ بچپن میں چھے، سات لڑکوں کی شرارتی ٹولی کے قائد تھے اور اپنے گھروں کے باہر ’دکان‘ سجائے بیٹھے بچوں سے ’چُنگی‘ نہ ملنے پر اُن کا سامان لوٹ لیا کرتے۔ اُن کا محلے کے اسکول میں داخلہ ہوا، لیکن وہ پڑھ کر نہ دیے، ایک دن جاتے، اور پورا ہفتہ غائب۔ بڑے بھائی جامعہ ملیہ، میں پڑھتے تھے، جو وہاں کی ہریالی کا ذکر کرتے، جسے سن کر وہ بھی وہاں جانے پر بضد تھے، بالآخر انہیں بھی وہیں بھیج دیا گیا۔ والد ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے آرٹس چُنی۔ کہتے ہیں کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں ’جامعہ ملیہ‘ کی وجہ سے ہوں۔

’’اگر جامعہ ملیہ نہ جاتے تو۔۔۔؟‘‘

اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ پھر کراچی کے ’میریٹ روڈ‘ پر کاروبار کر رہا ہوتا۔
’جامعہ ملیہ‘ ملیر میں ایک یادگار زمانہ گزارنے کے بعد شفیع نقی جامعی ’شعبہ سیاسیات‘ جامعہ کراچی کے طالب علم ہو گئے۔ تب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھی جامعہ کے طالب علم، جب کہ محفوظ یار خان ایڈووکیٹ وغیرہ ان کے ہم جماعت تھے۔
اپنی سیاسی فکر کا رُخ ’بائیں بازو‘ بتانے والے شفیع نقی کہتے ہیں کہ ’1971ء کے بعد وہ ذوالفقار بھٹو کے مخالف ہوگئے، کیوں کہ انہوں نے شیخ مجیب الرحمن کو اکثریت ملنے کے باوجود اقتدار نہ دیا اور ملک توڑ دیا۔ شفیع کی ماموں زاد بہن درشہوار (جو بعد میں ریلوے کی اعلیٰ افسر بنیں) کا بے نظیر اور صنم بھٹو وغیرہ کے ساتھ ’آرٹس لابی‘ میں اکٹھ رہتا، جس سے وہ دور دور رہتے۔‘

جامعہ کراچی میں تشدد کے ذکر پر شفیع نقی بتاتے ہیں کہ ’چُھری چاقو دیکھے تو نہیں، لیکن ایسی باتیں سنائی دینے لگی تھیں، ڈنڈے ونڈے ہوتے تھے، کچھ لڑکے انگلیوں میں مخصوص ’کلپ‘ پہن کر گھوما کرتے تھے۔ اُن کا خیال ہے کہ تشدد بعد میں حکمرانوں کی حرکتوں کے سبب آیا۔ ہم نے اس وقت ماحول کے بدلائو کا پوچھا، تو وہ بولے کہ طلبہ اساتذہ کی بے عزتی کرنے لگے تھے، اُن میں بھٹو والی زبان آگئی تھی ’اوئے‘ والی۔۔۔ جو آج عمران کی زبان ہے!

ہم نے کریدا کہ ’یہ بدزبان طلبہ تھے کس تنظیم کے؟‘ تو ان کا جواب تھا کہ کچھ تو کسی بھی تنظیم کے نہ تھے اور اچھے برے ہر جگہ تھے، میں کسی کا نام نہیں لوں گا۔

شفیع نقی کہتے ہیں کہ وہ کالجوں میں کسی ’گڑ بڑ‘ پر جامعہ کراچی سے ’کمک‘ بھیجا کرتے تھے، نیشنل کالج یونین کے صدر حسین حقانی کو تنگ کیا جاتا، جب ہم اپنی ’فورس‘ بھیجتے تو مخالفین بھاگ جاتے۔ ’اسلامیہ کالج‘ کے قد آور، گھنگریالے بال، صاف رنگت کے حامل ’شہنشاہ‘ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شہنشاہ وہاں ’دادا گیری‘ کرتے تھے۔ ہم نے پوچھا وہ کس تنظیم کے تھے؟ تو بولے کہ وہ خود اپنی ذات میں تنظیم تھے، انہوں نے ایک مرتبہ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کے لڑکوں کو مارا، تو ہم نے جا کر انہی کے کالج میں سبق سکھایا، پھر اُن کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ شاہ فیصل کالونی میں قصاب برادری کی مدد سے غنڈا گردی ہوتی، تو ہم نے اُن پر دھوبی اور گوالے چھوڑ دیے۔

شفیع نقی کے مطابق یہ ساری ’سرگرمیاں‘ جامعہ کراچی سے باہر تھیِں۔ اگرچہ وہ اسے ’قابل فخر‘ نہیں کہتے، لیکن انہیں افسوس یا پچھتا وا بھی نہیں، کیوں کہ وہ برائی کو طاقت سے روکنے پر کاربند رہے، وہ کہتے ہیں کہ کوئی ڈنڈا لاتے، تو ہم بانس لے آتے اور پھر آخری گھونسا ہماری طرف سے ہوتا۔ میرے سخت جواب پر ’جمعیت‘ والے برا بھی مناتے۔ میں جواب دینا ضروری سمجھتا تھا، لیکن پہل کبھی نہیں کی۔

1972ء کی لسانی کشیدگی کے حوالے سے شفیع نقی بیان کرتے ہیں کہ وہ ’جامعہ ملیہ‘ طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری تھے، جب وہاں دیگر کالجوں کے طلبہ احتجاجاً کالج بند کرانے آئے، تو انہیں سمجھایا اور پھر انہیں ملیر چھوڑنے گئے۔ واپسی پر ’کالا بورڈ‘ پر پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا، کہتے ہیں کہ وہاں کے ’ایس ایچ او‘ سردار عزیز نے مجھے زوردار طمانچہ مارا تو میں نے اُن کے منہ پر تھوک دیا، جس کے بعد میرے ہاتھ پیچھے باندھ دیے اور پھر سردار عزیز نے دو اور چانٹے رسید کیے، میں نے دوبارہ تُھوکا، اور پھر پیچھے والے اہلکار کو دھکیل کر سردار عزیز کو ایک ’فلائنگ کک‘ ماری۔ اُدھر طالبات کو خبر ہوگئی، تو جامعہ ملیہ سے شہناز احد اور دیگر نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔ نتیجتاً پولیس تھانے میں اسلحہ چھوڑ کر بھاگی تھی۔ اس کے بعد پہلی بار میرے نام کے ساتھ تعمیری سرگرمیوں کے ساتھ مار پیٹ بھی جُڑ گئی اور سردار عزیز اور میری عداوت بھی شروع ہوگئی۔۔۔

ہم نے شفیع نقی سے پوچھا کہ وہ کراچی کے اسی تشدد کا حصہ رہے، جس نے آگے چل کر پھر ایک ایسی آگ کی شکل اختیار کرلی، جس سے پورا شہر جل گیا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہیں اور سے ہو رہا تھا، شہر میں بھڑکانے والی باتیں ہو رہی تھیں، یہ تشدد پنجہ آزمائی کا نتیجہ تھا۔ ’کوٹا سسٹم‘ کے نتیجے میں یہاں ملازمتیں نہیں مل رہی تھیں، اساتذہ کی بھرتیوں سے، پی آئی اے اور اسٹیل مل تک کی اسامیوں میں نظرانداز کیا جا رہا تھا۔ اردو اور سندھی کا تنازعہ بھی بگڑ رہا تھا، میں اس صورت حال کا ادراک نہ کر سکا، میں صرف زیادتی میں ساتھ کھڑا ہوا، پہل نہیں کی کبھی۔‘

’آپ اُن کے ہم آواز تھے، جنہوں نے پھر بعد میں مارا، یعنی پہلے جو ردعمل میں پُرتشدد ہوتے تھے، پھر وہ پہلے خود تشدد پر اتر آئے؟‘
یہ سوال، ہماری گفتگو کا وہ مرحلہ تھا کہ دبنگ شفیع نقی جامعی نے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ’’مجھے اندازہ نہ تھا کہ یہ تشدد اتنا پڑھتا چلا جائے گا، لیکن جو حالات رہے، اس میں مان لیں کہ ہم بھی اُسی کا حصہ بن گئے۔۔۔!‘‘

شفیع نقی جامعی نے انکشاف کیا کہ 1974-75ء میں جامعہ کراچی میں بطور صدر طلبہ یونین، انہوں نے بانی جماعت اسلامی سید ابولاعلیٰ مودودی کے سامنے تحفظ پاکستان کا حلف اٹھایا۔ کہتے ہیں کہ میں ’ایشوز‘ میں ’جمعیت‘ کے ساتھ تھا، ’درس قرآن‘ بھی کراتا تھا۔ ’قادیانی تحریک کے دوران اکرم کلہوڑو کے ساتھ ریگل سے گرفتاری بھی ہوا، پھر تھانے میں کھٹملوں اور مچھروں کی اذیت سہی، وہاں کی دال روٹی سے رفع حاجت تک کے مسائل بھی یاد ہیں۔ اسی تحریک کے دوران ایک بار فیصل مسجد، اسلام آباد سے بھی پکڑا گیا۔ قادیانی معاملے پر تب ’جمعیت‘ سے متفق تھا، لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ معاملہ افہام تفہم سے حل ہونا چاہیے تھا۔ مجھے اُن کی حقیقت نہیں پتا، انہیں غیرمسلم کہہ دیا، لیکن وہ انسان بھی تو ہیں ناں۔

شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ ’ایم اے‘ کے بعد کچھ وقت جامعہ کراچی میں تدریس کی، پھر روزنامہ ’جسارت‘ میں چند ہفتے نیوز ڈیسک پر گزارے، جہاں آشکار ہوا کہ خبریں بنانا میرا کام نہیں، پھر ’جنگ‘ میں ’چٹکیاں‘ کے عنوان سے کالم لکھنے لگے، ’پری سنسر شپ‘ میں اُن کے کالم بھی رکے، پھر اخبار میں حسب روایت اس کی جگہ خالی ہی چھوڑی جاتی۔ پروفیسر شمیم اختر نے انہیں لکھنے میں مدد فراہم کی، ضیا الاسلام زبیری، دوست محمد فیضی اور خوش بخت شجاعت وغیرہ کا بھی ساتھ رہا۔

وہ کہتے ہیں کہ کالموں کے اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ ’پیٹرول‘ اور کھانے کا خرچ نکل آتا تھا۔ تب بھی یہ سوچ تھی کہ پیسے کیسے؟ ہم تو آپ کو مشہور کر رہے ہیں، لیکن میں نے معاوضے کے بنا کوئی کام نہیں کیا۔ پاکستان کے ٹی وی مذاکروں میں بھی اسی لیے شرکت نہیں کرتا، سوائے اس کے کہ جہاں ’بی بی سی‘ یا کسی دوست کا معاملہ ہو۔

ریڈیو پاکستان سے نتھی ہونے کے حوالے سے شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ ’جامعہ ملیہ‘ کے زمانے میں ہی وہ ریڈیو پر سنائی دینے لگے، پھر ڈرامے وغیرہ لکھ کر اور صداکاری کے ذریعے کچھ پیسے جوڑ لیتے، کبھی ہفتے کے ڈیڑھ، 200 روپے ہو جاتے، جو بڑی رقم ہوتی، لیکن مہینے کے آخر میں ہاتھ پھیل ہی جاتا تھا، شکل ایسی بن جاتی، جس کے بعد والدہ پیسے دے دیا کرتیں، جب کہ والد سے مانگتے ہوئے شرم آتی۔

انہوں نے یہ انکشاف کر کے ہمیں حیران کردیا کہ پیٹرول وغیرہ کے خرچ کے لیے انہوں نے اپنے جیتے گئے کپ اور ٹرافیاں بوری بھر کے بیچ دیے۔۔۔ اُن کے سرٹیفکیٹ اور اہم اخباری تراشے بھی اہل خانہ اور دوستوں نے سنبھالے رکھے۔

شفیع نقی بتاتے ہیں کہ ولی خان، مفتی محمود اور عطا اللہ مینگل سمیت پوری حزب اختلاف کو جامعہ کراچی مدعو کرنے پر بھٹو برہم بہت ہوئے کہ یہ کوئی معیار نہیں کہ آپ جامعہ کراچی میں تقریر کر دیں۔ بھٹو کا بیان چھاپنے پر ’جنگ‘ کے دفتر پہنچے، اپنا جوابی موقف لکھا اور ساڑھے تین بجے تک طباعت کے تمام مراحل دیکھتے رہے، لیکن اگلی صبح جو اخبار نکلا، تو وہاں کچھ اور چھپا ہوا تھا، جس پر ’جنگ‘ کا گھیرائو کرلیا اور پھر معافی تلافی ہوتی رہی، اس کے بعد ’جنگ‘ کے دفتر میں جال کا آہنی دروازہ لگ گیا۔

جامعہ کراچی کے بعد جب وہ لندن کا پھیرا لگانے کے بعد جب کراچی آئے، بتاتے ہیں کہ پھر کچھ اسیروں کی رہائی درپیش تھی، جس کے لیے وہ گارڈن پولیس اسٹیشن گئے، وہاں موجود میجر ارشد بہت زیادہ بدتمیزی سے پیش آئے۔ اُن دنوں بلوچستان کے گورنر جنرل رحیم الدین خان تھے، جو ’جامعہ ملیہ‘ کے ڈاکٹر محمود حسین کے داماد تھے، اس کے بعد یہ ہوا کہ میجر ارشد کو ملٹری چھوڑنا پڑ گئی۔۔۔

لندن روانگی کا ذکر چھِڑا، تو شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ مجھے سیاست میں آنے کا شوق تھا، لیکن اس کے لیے میں نے محسوس کیا، کہ یہ ضروری تھا کہ آپ ’سَن آف دی سوائل‘ (Son of the soil) ہوں یا وزیر، سفیر کی اولاد۔۔۔ میں ان دونوں میں سے کچھ نہ تھا، چناں چہ پھر اس خواب کی تکمیل کے لیے تعلیم ہی آخری راہ تھی، اس لیے پڑھنے لندن گیا۔

اس حوالے سے ذکر کچھ یوں کیا کہ ’کرسچن لیگ ایڈ انٹرنیشنل‘ کے اسکالر شپ کمپٹیشن میں وہ دنیا بھر میں سوم اور ایشیا میں اول آئے، وہ یہ ’تعلیمی وظیفہ‘ پانے والے تیسرے پاکستانی تھے، یوں 1976ء میں وہ پہلی بار لندن گئے، جہاں ’لندن اسکول آف اکنامکس‘ میں داخلہ لیا، ’ایف ایس سی اور ’ایم ایس سی‘ کیا، اور جامعہ ملیہ میں پہلی جماعت سے شروع ہونے والا ’تعلیمی وظیفے‘ کا سلسلہ 1978ء میں، ’لنکنزان ان‘ (Lincoln’s inn) میں ’بارایٹ لا‘ اور پھر 1980ء میں ’یونیورسٹی آف کیمبرج‘ میں ’میری ٹائم لا‘ پڑھنے تک جاری رہا، کہتے ہیں کہ ’میری ٹائم لا‘ میں سمندری امور قوانین کا احاطہ کیا جاتا ہے اور وہ اس شعبے میں معدودے چند پاکستانیوں میں شامل ہیں۔

شفیع نقی نے بتایا کہ 1985ء میں وہ اقوام متحدہ میں جج بھرتی ہوگئے، لیکن بوجوہ وہاں سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا، البتہ وہ ’ریٹنرشپ‘ (Retainership) دے رہے تھے، یعنی آپ تنخواہ لیتے رہیں، مگر مستقل نہیں کر رہے۔ 1979ء سے ’بی بی سی‘ کے لیے ’فری لانس‘ کام کر رہا تھا۔

ہمارا موضوع سخن شفیع نقی جامعی کی ’بی بی سی‘ سے وابستگی کی سمت نکل آیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ سے قربت کے باعث ’بی بی سی‘ کی ’اردو سروس‘ والوں نے رکاوٹیں ڈالیں، چناں چہ پھر ’بی بی سی‘ کے لیے سائنس اور ثقافت وغیرہ کے موضوعات پر انگریزی میں مختصر مواد لکھنے لگے۔ جس کے بعد ’اردو سروس‘ کے ایک صاحب نے گالی دے کر کہا تھا ’لو میاں، جن کو ایک چیز ترجمہ کرنے کو نہ دیا، اب ان کی ٹاکس کا ترجمہ کرو!‘

’بی بی سی‘ کی ’ہندی نشریات‘ تک رسائی کا ماجرا وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ 800 برس برانے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہندوستانی کارڈ پر لکھی ہوئی تحریر ’ہندی سروس‘ کی رماں پانڈے کو بہت پسند آئی، انہوں نے پوچھا کہ آپ اس کا ہندی میں ’انو واد‘ (ترجمہ) کردیں گے؟ میں نے کہا کہ مجھے تو ہندی نہیں آتی، تو میں نے اردو میں ہی لکھ کر دے دیا۔ اس طرح وہ ہندی سیکھنے کی طرف راغب ہوئے، اور ’بی بی سی‘ پر اردو رسم الخط میں لکھ کر ہندی پڑھنے لگے، اب ہندی رسم الخط سمجھ لیتے ہیں، لیکن بولنے میں رواں نہیں۔ اچلا شرما، رماں پانڈے، اور للت موہن جوشی وغیرہ نے انہیں ہندی سکھانے میں بہت محنت کی۔ یوں 1981-82ء تک انہیں ہندی پر عبور حاصل ہوگیا۔ اسی زمانے میں بھارتی راہ نما لال کرشن ایڈوانی ان سے ملے، جب انہیں یہ پتا چلا کہ روانی سے ہندی بولنے والا شفیع کبھی ہندوستان گیا تک نہیں، تو وہ بڑے حیران ہوئے۔

ہم نے پوچھا کہ ’جب ہندی میں آگئے، تو ’اردو سروس‘ میں راستہ روکنے والوں کا رویہ کیسا رہا؟‘ کہتے ہیں کہ وہ حسد کرتے۔۔۔ ایسا لگتا کہ میں نے اُن کی مرغی چرائی ہے یا ان کے محلے کی کسی لڑکی کو چھیڑا ہے۔ ’اردو سروس‘ کی طرف آمد 1987-88ء میں پروگرام ’کھیل کے میدان سے، میں شرکت کے بعد شروع ہوئی، یوں دونوں زبانوں میں یہ سلسلہ چلنے لگا۔

’’اقوام متحدہ میں ’ریٹنر شپ‘، کیمبرج یونیورسٹی میں قانون کی تدریس اور ’بی بی سی‘ میں فری لانس کام بہ یک وقت جاری تھے۔‘‘ شفیع نقی جامعی کی گفتگو اب 1990ء کے زمانے میں پہنچ چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’اب میں نے اپنے کام کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچا، یونیورسٹی میں مجھے ایک سال، جب کہ ’بی بی سی‘ میں تین سال کے ’معاہدے‘ کی پیش کش ہوئی، یوں 1991ء میں، میں ’بی بی سی‘ اردو میں ’کو پروڈیوسر‘ ہوگیا، جس کے بعد ’ہندی سروس‘ سے ناتا ٹوٹنا شروع ہوا۔ پہلے ہندی یا اردو سروس کا انتخاب سامنے آیا تو ہندی شناخت اور منجھ جانے کے باعث ہندی چُنی، لیکن مجھے پھر بھی ’اردو سروس‘ میں بھیج دیا گیا۔

شفیع نقی بتاتے ہیں کہ وہ ’بی بی سی‘ اردو کے پروگراموں میں تو آنے لگے تھے، لیکن 1992ء میں جس روز پاکستان نے کرکٹ کا ورلڈکپ جیتا، اسی روز پہلی بار وقار احمد کی جگہ پروگرام ’سیربین‘ کیا، اور اُن کے الفاظ میں جب یہ پتا چلا کہ یہ پروگرام انہیں کرنا ہے، تو ہاتھوں کے توتے اڑگئے۔۔۔

’بی بی سی‘ پر ماحولیات کے سلسلے وار پروگرام کے لیے شفیع نقی نے آصف زرداری کا انٹرویو کیا، جو اس وقت وزیرماحولیات تھے، زرداری نے اُن سے کہا کہ ’تمہارے تو الیکشن میں آکر میں نے نعرے لگائے ہیں۔۔۔!‘ شفیع کے بقول وہ پہلے بھی پیغام بھجوا چکے تھے کہ ’یہ لندن میں کیا کر رہا ہے، اِسے یہاں بلائو، پوچھو کسی نشست سے انتخاب لڑنا ہے۔‘ ظفر عباس اس کے گواہ ہیں۔

سیاست دان بننے کے خواہش مند شفیع نقی نے یہ پیش کش قبول کیوں نہ کی؟ وہ کہتے ہیں کہ میں اس بکھیڑے میں پھنسنا نہیں چاہ رہا تھا، دل بڑا دُکھا ہوا تھا اور وہ ماحول میرے لیے مناسب نہ تھا۔

’آپ کے لندن میں مستقل ٹھیر جانے کا ذہن کب بنا؟‘
پڑھنے ولایت جانے والے شفیع نقی سے اس کا جواب پوچھا جانا لازم تھا، سو ہم نے پوچھ لیا، وہ بولے کہ بطور جج اقوام متحدہ جانا نصیب میں نہ تھا، پھر وہاں اسکاٹ لینڈ یارڈ میں ایک خاتون ہوتی تھیںِ، اُن سے دوستی ہوگئی، پھر وہ بنوری ٹائون، کراچی میں مسلمان ہو کر راحیلہ ایمان مریم کہلائیں اور 1985-86ء میں ان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ اب شفیع نقی جامعی دو بیٹے اور دو بیٹیوں کے والد ہیں۔ ملک میں واپس نہ آنے کی دیگر وجوہات میں وہ پاکستان میں فوجی حکومت اور ذوالفقار بھٹو کی پھانسی وغیرہ گنواتے ہیں، پھر تین سال کے بعد وہ مستقلاً ’بی بی سی‘ کا حصہ بن گئے اور 15 مارچ 2019ء کو ریٹائر ہوئے۔

ان دنوں وہ ’یونیورسٹی آف لندن‘ میں ایک بار پھر ’میری ٹائم لا‘ کی تدریس پر مامور ہیں۔ انہوں نے وکالت کا باقاعدہ ’لائسنس نہیں لیا، لیکن مختلف کمپنیوں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اب لندن کے کچھ مقامی اخبارات کے ساتھ ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ کے لیے لکھ رہے ہیں، کچھ دنوں میں ذرایع اِبلاغ کے دیگر اداروں کے ساتھ کام کرنے کا عندیہ بھی دیتے ہیں۔

’اگر آپ لندن نہ جاتے تو؟‘

شفیع نقی سے ہمارے سوال نامے کا یہ استفسار بھی اہم تھا، وہ کہتے ہیں ’’تو سیاست میں ہوتا اور 39، 40 سال کی عمر میں مارا جاتا۔۔۔!‘‘
ہم اُن کے اس خیال کو کراچی میں 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی خوں ریزی کی بنیاد پر ایک تجزیہ سمجھے، لیکن انہوں نے ہمیں کچھ یوں بتایا:
’جامعہ ملیہ میں امام صاحب قاری فخر الحسن ماہرعملیات تھے، ان سے ہر مشکل کی گھڑی میں تعویز لیتا تھے۔ انہوں نے احتیاط بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا ایسا ہو سکتا ہے۔‘

’واپسی کا ارادہ ہے کوئی؟‘
اُن کی وطن واپسی کا سوال اُن کے ہر سامع کی طرح ہمارے ذہن میں بھی کلبلایا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، جنگل کے مور کے مصداق ناچ کر خود ہی خوش ہو لیتے ہیں، لیکن یہ سوچ آتی ہے کہ اپنے کام سے کسی کو کیا فیض دیا؟ میں نہیں سمجھتا کہ میں کسی کو کوئی فائدہ پہنچا پایا۔ اپنے ملک کو تو بہت دور کی بات ہے، میں اپنے شہر کے لیے خود کو کام میں نہ لا سکا۔‘

شفیع نقی جامعی کے نزدیک بولے گئے لفظ کے مقابلے میں چھَپے ہوئے لفظ کی اہمیت زیادہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا‘ ایسا طوفان ہے، جو سب بہا کر لے جائے گا، مطبوعہ ذرایع اِبلاغ کو جھٹکا لگ سکتا ہے، لیکن یہ بھی ایسے ہی قائم رہیں گے، جیسے ریڈیو ختم نہیں ہوا۔ اخبار اپنی شکل ضرور بدل سکتا ہے، لیکن کم سے کم آئندہ 50 برس تک کاغذ والا اخبار کہیں نہیں جائے گا۔
پاکستانی ذرایع اِبلاغ کو نصیحت کرنے کا کہا تو بولے کہ اس مقام پر نہیں کہ نصیحت کر سکوں، بس یہ مشورہ ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ وہی کرے۔ نئے آنے والے صحافی پہلے پڑھ لیا کریں، ورنہ بقول جون ایلیا جنہیں پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے رہیں!
ایک اور زندگی ملے تو کیا یہی زندگی جینا چاہیں گے؟ کہتے ہیں کہ اسے اور بہتر کرنا چاہوں گا۔
۔۔۔
٭طالب علم راہ نما:’سنسر بورڈ‘ سے لے کر ’فارمیسی‘ میں داخلے کرانے تک۔۔۔!
شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ جامعہ کراچی کے طلبہ یونین کے صدر کے طور پر منہگی کتب بیچنے والے ناشرین کو تنبیہ کی، وہ نہ مانے تو 10 پیسے فی صفحے کے حساب سے کاپی کرالی، ڈیڑھ ہزار کی کتاب 60، 70 روپے میں آگئی! جس پر بہت واویلا ہوا، میں نے کہا کہ آپ مقدمہ کر دیں، میں خود جا کر عدالت میں لڑ لوں گا۔ اسی طرح میڈیکل کالجوں میں طلبہ کو داخلے نہیں مل رہے تھے، وہ وزیرصحت عبدالوحید کٹپر کے پاس گئے، اور کہا کہ ’کوٹا سسٹم‘ ان بے چاروں کو مار رہا ہے، فارمیسی میں داخلے کے لیے ’ڈومیسائل‘ مانگے جا رہے ہیں۔ کیا یہ ’ڈومیسائل‘ لینے بہار جائیں؟ وزیرصحت نہ مانے، تو پھر انہیں ایک فائل دی، اس میں ’کوٹے‘ کی بنیاد پر آرٹس کے طلبہ کے ہونے والے داخلوں کی تفصیلات تھیں، اور کہا اچھا پھر ٹھیک ہے مطالبات نہ مانے تو یہ والے داخلے تو نہیں ہو پائیں گے اور میں شام کو ایک پریس کانفرنس کرنے والا ہوں! کچھ ہی دیر میں انہوں نے ملنے کے لیے بلوا لیا۔ یہ وہی موقع تھا جب ’اے پی ایم ایس او‘ کے قیام سے قبل الطاف حسین اور دیگر طلبہ ’فارمیسی‘ کی داخلہ پالیسی پر احتجاج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شفیع کہتے ہیں کہ انہیں وزرا گھر تک بھی چھوڑنے آتے تھے، لیکن ہم حکومت سے ملے بھی تو طلبہ کے کام کے لیے، کبھی نئی بسیں منگا لیں، تو کبھی سڑکیں بنوائیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جامعہ کراچی کے صدر طلبہ یونین کے طور پر سنسر بورڈ میں بھی نمائندگی کی۔ ’سانوں نہر والے پل تے بلا کے‘ میں غرارہ کا رخ غیرمناسب پا کر وہ منظر کٹوایا، اس طرح دیگر فلموں کے ایک دو مکالمے اور گانے کے مناظر بھی حذف کرائے۔n

٭میر تقی میرؔ کراچی کی حالت دیکھتے تو خودکُشی کرلیتے!
اپنی جنم بھومی کراچی سے لگائو شفیع نقی جامعی کی شخصیت کا ایک نمایاں جزو ہے۔ ہم نے پوچھا کہ ’اہل کراچی‘ کو شکایت ہے کہ کہ ان کی شناخت اور حقوق کی بات کو دائیں بازو والے ’غیرمذہبی‘ کہہ کر پرے کرتے ہیں، تو دوسری طرف ’لبرل‘ یا ’روشن خیال‘ حلقے چھوٹے سے چھوٹے طبقے کے حقوق کی بات تو کرتے ہیں، لیکن کراچی والوں کے تحفظات پر اِدھر اُدھر کی تاویلیں پیش کرنے لگتے ہیں۔ اس حوالے سے شفیع نقی بولے کہ ’میں انہیں ’لبرل‘ تو نہیں البتہ کشادہ ذہن شمار کرتا ہوں، مجھے نہیں پتا کہ اِن کی گوٹ کہاں دبتی ہے، میری پوزیشن نہیں ہے کہ میں کچھ کہوں، لیکن مجھے نہیں پتا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مساوی حقوق کی بات کرتے ہوئے، سب کو برابر سمجھنا چاہیے۔‘

شفیع نقی کا خیال ہے کہ ’ایم کیو ایم‘ کو کراچی کو سنوارنے کا بہت اچھا موقع ملا تھا، یہ کچھ کر پائے اور کچھ نہیں کر پائے، مجھے اِن کا شیرازہ بکھرنے پر افسوس ہے۔ میں اردو اسپیکنگ، لیکن پاکستانی ہوں، پنجاب کے دوستوں کو سمجھاتا ہوں کہ ہر اردو بولنے والے کو ’ایم کیو ایم‘ کا سمجھنا ٹھیک نہیں۔ کراچی پاکستان کی ماں ہے، جس نے ٹیکس دے دے کر پاکستان بنایا، لیکن اس کا جو حشر ہوا ہے، بہت تکلیف دہ ہے۔ دلی اجڑنے کا نوحہ کہنے والے میر تقی میر ہوتے اگر کراچی کی حالت دیکھتے خود کُشی کر لیتے۔

ہم نے لندن میں جلاوطن رہنے والے سیاست دانوں کا ذکر کیا تو بولے یہاں آنے والے تمام ہی بڑے سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا، یہاں سب کی گردن کے سریے نکل جاتے ہیں!

وہ لندن میں ’ایم کیوایم کی جانب سے منعقدہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی یاد میں تعزیتی تقریب میں بھی شریک ہوئے۔ ہم نے اس قربت کا سبب ٹٹولا، تو وہ بولے کہ ڈاکٹر حسن ظفر کے نظریات سے قطع نظر، جامعہ کراچی میں میرا ان سے ایک الگ ہی تعلق رہا ہے، وہاں الطاف سے کہا تھا کہ آپ کے ہاں سخی دل لوگوں کی کمی نہیں، انہیں زندہ رکھنے کے لیے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے نام پر ’اسکالر شپ‘ جاری کریں، دوسرا ’جامعہ ملیہ‘ کو ’ڈی نیشنلائز‘ کرا کے اسے ایک جامعہ کا درجہ دلوائیں۔

ہم نے پوچھا ’ایم کیو ایم‘ کی پیدائش آپ کی سیاست کے سامنے کا واقعہ ہے، ان کی حوالے سے کیا کہیں گے؟‘

یہ موضوع گفتگو کے اُن دو ایک مقامات میں سے تھا، جس پر وہ بولنا نہیں چاہتے تھے، لیکن ہمارے سوال کی لاج رکھی لی، بولے کہ اقتدار خراب کرتا ہے اور کُلی اقتدار تباہ کر دیتا ہے، پارٹی کے اندر جب تک کشادگی نہ ہو اور نئی قیادت تیار نہ کی جائے، تو وہ پارٹی چل نہیں پاتی۔ جیسے قائداعظم کا انتقال ہوا، تو ایک دم گورنر جنرل، مسلم لیگ کے صدر، سربراہ فوج، اور قائد وغیرہ سمیت کئی عہدوں کا خلا پیدا ہوگیا، اور کوئی اور یہ خلا پُر کرنے والا تھا ہی نہیں!

ہم نے کہا ’ایم کیو ایم‘ پر یہ الزام ہے کہ اس میں قائدانہ صلاحیت رکھنے والے راہ نما ہی ہٹا دیے جاتے ہیں؟‘ تو وہ بولے کہ مجھے اس کا علم نہیں، جب گھر کم زور ہو تو پڑوسی مزے بھی لے گا اور مذاق بھی اڑائے گا۔ ’ایم کیو ایم‘ کے مستقبل کے سوال پر بولے ’جب تک اتحاد نہ ہو کئی مستقبل نظر نہیں آتا۔‘

٭بے نظیر نے پوچھا ’’بتائیں آپ نے کس کو مارا۔۔۔؟‘‘
سوال پوچھنے کے فن میں شفیع نقی جامعی خاصے طاق مانے جاتے ہیں۔۔۔ ہم نے تیکھے سوالات پر جوابی غصے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ پیپلزپارٹی کی شیری رحمٰن انٹرویو چھوڑ کے چلی گئیں، پھر واجد شمس الحسن انہیں منا کر لائے، ایک بار وزیرمالیات اسحٰق ڈار نے بھی بہت برا مانا۔ کہتے ہیں کہ صحافی خبر دیتا ہے، خبر کا حصہ نہیں بتنا، ہم بس خبر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شفیع نقی کے بقول انہیں کئی بار دھمکیاں بھی ملتی ہیں کہ ’آپ پاکستان تو آئیں گے ناں کبھی۔۔۔‘ کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ تیاری کر کے انٹرویو لیتا ہوں، طریقہ یہ ہے کہ مہمان کی عزت کرو، اگر جواب نہ دے رہا ہو تو دوسرے یا تیسرے طریقے سے پوچھ لو۔ ایک مرتبہ ’سیربین‘ میں ہندوستان کے ایک بیوروکریٹ Gopalaswami Parthasarathy سے کشمیر کے موضوع پر سوال کیا تو وہ برہم ہو کر کہنے لگے کہ ’جانتا ہوں تم کو۔۔۔! تم ’آئی ایس آئی‘ کے ایجنٹ ہو۔۔۔!‘ جس پر انہیں جواب دیا، جو نشر بھی ہوا، جب ایسا ہو تو پھر بات کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اسی طرح پرویز مشرف کے زمانے میں ’پی ٹی وی‘ کے ایک پروگرام میں لیفٹننٹ جنرل (ر) تنویر نقوی کے سامنے مزا کرکرا ہوا، جب انہوں نے میرے ہر سوال کے جواب میں الٹا پوچھنا شروع کردیا کہ ’آپ بتائیں؟‘ تو انہیں کہا کہ سوال میں کر رہا ہوں یا آپ؟ ایک مرتبہ ناظم کراچی بھی ’بی بی سی‘ کے پروگرام میں چِِلانے لگے، تو ان سے کہا کہ دیکھیں، آپ مجھ سے زیادہ چلّا کر نہیں بول سکتے، بہتر ہوگا کہ حقائق پر بات کرلیں، تو وہ پروگرام ہی چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے۔۔۔

بے نظیربھٹو کے حوالے سے شفیع نقی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں بہت زیرک اور بردبار پایا۔ دوران گفتگو جب بے نظیر یہ بولیں کہ ہم یہ کریں گے، وہ کریں گے، جس پر میں نے کہا کہ ’جب دادا مریں گے تو بیل بٹیں گے‘ میرے اس بامحاورہ انداز پر وہ بار بار یہ پوچھتی رہیں، کہ ’آپ بتائیں آپ نے کس کو مارا؟‘

شفیع کہتے ہیں کہ پہلے مصطفیٰ جتوئی، پیار علی الانہ وغیرہ جیسے مہذب لوگ ہوتے تھے، جن سے گفتگو کر کے اچھا لگتا، پیر پگارا سے گفتگو کریں، تو معلومات کا ایک خزانہ ملتا، فاروق لغاری کے پیچھے تو میں نے نماز پڑھی، اسی طرح جنرل (ر) حمید گل کی باتوں سے چاہے اتفاق نہ کریں، لیکن ایک طریقے کے آدمی تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ جہلا کی ایک فوج ہے، ایک پتھر اٹھائو تین نکل رہے ہوتے ہیں۔

نوازشریف کے قریبی آدمی ہونے کے تاثر پر وہ بولے کہ میری ہر شریف اور اچھے انسان سے بات ہے، میں آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن سے بھی قریب کہا جاتا ہوں۔ یہ اتفا ق ہے کہ نوازشریف سے ایسے موقع پر دھائیں دھوں والے انٹرویو ہوئے، جس سے ایسا محسوس ہوا۔ وہ اکبر بگٹی، ولی خان، خیر بخش مری اور عطا اللہ مینگل وغیرہ کے انٹرویو بھی یاد کرتے ہیں، پرویزمشرف سے محو کلام ہونے کے لیے فون کیا تو ان کے والد سے بات ہوگئی، یوں ان کا بھی ’انٹرویو‘ کرلیا۔n

٭بی بی سی: دور کے ڈھول سہانے ہیں۔۔۔!
شفیع نقی جامعی بتاتے ہیں کہ وہ ’بی بی سی‘ میں بالکل نچلے درجے سے شامل ہوئے، پروڈیوسر، پرزینٹر، رائٹر کے ساتھ ’بی بی سی‘ کے انٹرنیشنل کور میں ٹرینر بھی رہے۔ ’اردو سروس‘ کے قائم مقام سربراہ بھی رہے، وہاں ڈراموں میں آواز کے جوہر دکھائے، ’اردو سروس‘ کی ٹی وی نشریات پر شروع سے میزبانی کی۔ کہتے ہیں کہ میں بڑا بول نہیں بولتا، ’اردو سروس‘ کے تقریباً تمام ہی پروگرام بڑھانے اور سنوارنے میں سرگرم رہا، اتنا کہ پھر دوسری جگہ ’بی بی سی‘ کی نقل ہوتی تھی۔ وہ 2003ء- 2004ء میں پاکستان میں ’ایف ایم‘ کے ذریعے ’بی بی سی‘ کی نشریات کے لیے یہاں آئے اور رکاوٹوں سے بھی نبردآزما رہے۔ کہتے ہیں وہ فوج کا دور تھا، ’بی بی سی‘ کی ’ایف ایم‘ سے نشریات میں رکاوٹیں ڈالی جاتیں۔ ایک مرتبہ گورنر پنجاب خالد مقبول نے ہمارا سامان بھی اٹھوا لیا تھا۔ پھر ’غیرملکی‘ کے اعتراض کا جواب ’بی بی سی‘ لندن کے بہ جائے، ’’بی بی سی، پاکستان‘‘ کرکے دیا گیا، جو آج بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔

ہم نے ’بی بی سی‘ کی خرابیاں پوچھیں تو وہ بولے کہ ’’دور کے ڈھول سہانے ہیں، ورنہ گھپلے یہاں بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنی یادداشتوں میں یہ سب مثالوں کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ ’بی بی سی‘ میں بھی مبینہ زیادتیوں کی ایک تاریخ ہے، لیکن یہ 80 فی صد شفاف ادارہ ہے۔‘‘

٭انتقاماً دوست کا پاسپورٹ ضایع کر دیا۔۔۔!
بچپن کی شرارتوں کا ذکر کرتے ہوئے شفیع نقی نے بتایا کہ اُن کی کئی بار ہڈیاں ٹوٹیں، لحیم شحیم ہونے کے باعث ایک مرتبہ ’مارم پیٹی‘ کھیلتے ہوئے دونوں ٹیموں کے بچوں نے یہ طے کر لیا کہ کسی طرح گیند ان کے پاس نہ آئے، اور یہاں ’گیند‘ کا کام ایک رکشے کے ٹائر کی بھری ہوئی ٹیوب سے لیا جا رہا تھا، کچھ دیر بعد جوں ہی انہیں موقع ملا، تو انہوں نے پھر یہ کسی کو پھینک کر مارنے کے بہ جائے ہاتھ میں ٹیوب لے کر سب کا حساب ’بے باق‘ کرنا شروع کیا۔

اس دوران کسی نے کہا کہ پیچھے دیکھو ’کلّو قسائی‘ آرہا ہے، انہوں نے سوچا کہ شاید میرا دھیان بانٹنے کے لیے کہہ رہا ہے اور حقیقت تب پتا چلی جب وہ ’کلّو قسائی‘ کی گدھا گاڑی کے پہیے تلے آگئے، جس کے بعد حالت غیر ہوگئی، اور پھر جناح اسپتال سے ٹانکے لگوائے گئے۔ ’جامعہ ملیہ‘ میں ’سی سا‘ (SeeSaw) میں جھولتے ہوئے توازن بگاڑ کر میں دوسروں کو گرا دیتا تھا، ایک بار خود بھی اس کا شکار ہوگیا۔

شفیع نقی کے بقول میں بچپن میں اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام برداشت نہیں کر سکتا تھا، ایک مرتبہ ’پیر کالونی‘ میں چچا کے گھر پر چھوڑا گیا، تو پہلی منزل سے پائپ کی مدد سے نیچے کود کر دوست کے ہاں چلا گیا۔ گھر میں ڈھونڈ پڑ گئی، والد الگ چچا پر برہم کہ تمہارے گھر میں تمہاری ذمہ داری تھا، ڈیڑھ دن بعد گھر پہنچے تو پتا چلا کہ پیچھے کیا کہرام برپا تھا۔

’جامعہ ملیہ‘ سے گھر کے لیے پہلا خط اپنے دوست سلطان لوہیا سے لکھوایا، جنہوں نے خط کے آخر میں لکھ دیا ’میں سلطان احمد لوہیا، خط لکھنے والا‘ اس پر گھر میں میرا بہت مذاق اڑا۔ اسے میں نے معاف نہ کیا، بعد میں جب ان کا پاسپورٹ بنا، تو اس پر اپنے دست خط کر کے وہ پاسپورٹ ضایع کر دیا۔ وہ بگڑے، تو یاد دلایا کہ یہ اُس مذاق کا انتقام ہے، جس پر پھر سلطان احمد خود بھی ہنسے۔n

٭ماڈلنگ کی تو ’جمعیت‘ نے ’’خارج‘‘ کردیا۔۔۔
شفیع نقی جامعی نے بتایا کہ وہ اِن دنوں وہ ’زمانہ بہ زمانہ‘ اپنی یادداشتیں سپرد قلم کر رہے ہیں، امید ہے کہ پانچ حصوں میں یہ مکمل ہوجائیں گی۔ جس کے بعد وہ اسے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شایع کریں گے، اور ہو سکتا ہے کہ یہ صرف لندن سے ہی شایع ہو۔ یہ ’آن لائن‘ بھی دست یاب ہوگی، جس میں صوتی جھلک کی اضافی سہولت بھی میسر ہوگی۔ ان دنوں اردو کی ایک ویب سائٹ نے اس کے کچھ اقتباس چھاپنے شروع کیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کوئی اخبار ڈھنگ کے پیسے دے، تو وہاں بھی اشاعت ممکن ہے۔

ماضی کے در وا کرتے ہوئے شفیع نقی نے بتایا کہ اُن کے بہت قریبی دوست عبدالمالک شرٹوں وغیرہ کا کام کرتے تھے، جن کے ’ٹی وی‘ کے ایک اشتہار میں انہوں نے بھی کام کیا، جس میں اُن کے ساتھ سفید ساڑھی میں ملبوس تارا گھنشام بھی جھولے میں بیٹھی تھیں۔ اس اشتہار میں کام کرنے کے لیے انہوں نے ’جامعہ کراچی‘ سے رخصتی کا انتظار کیا۔

جوں ہی یہ اشتہار نشر ہوا، توں ہی ایک ہنگامہ مچ گیا، ایک طرف والد ناراض، تو دوسری طرف ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ نے انہیں اپنی رکنیت سے ’خارج‘ کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جب میں کبھی رکن ہی نہیں بنا، تو خارج کرنے کا کیا سوالَ؟ کہتے ہیں کہ سید منور حسن اور اکرم کلہوڑی نے مجھے روک لیا، ورنہ پھر میرے جواب سے انہیں شکایت پیدا ہوجاتی۔ عارف الحق عارف اور عارف اسحٰق وغیرہ اس کے گواہ ہیں، لیکن صورت حال قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا جیسی ہوگئی۔ بہرحال والد کی ناراضی کے سبب جیسے تیسے وہ اشتہار رکوایا، اس کی ساری تفصیلات بھی میری کتاب میں ہیں۔

٭پرویزمشرف کی صحافتی آزادی اس لیے تھی کہ ڈالر آرہے تھے!
شفیع نقی کہتے ہیں کہ 1999ء میں ’بی بی سی‘ نے ایک سلسلہ وار پروگرام ’’فوج خود آتی ہے یا بلائی جاتی ہے‘‘ کیا، جس میں بری، بحری اور فضائی تینوں حاضر سروس جرنیلوں کے انٹرویو لیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنرل پرویز کو میں نے بہت تیز اور شاطر پایا۔ ان کا تنقید برداشت کرنے کا تاثر غلط ہے۔ ان کے زمانے میں ’آزادیٔ اظہار‘ اس لیے تھا کہ یہ دکھا کر امریکا سے ڈالر آرہے تھے، ورنہ ان کا صحافتی آزادی سے کیا لینا دینا۔۔۔! اقتدار سنبھالنے کے بعد پرویزمشرف کا بالمشافہ انٹرویو کیا، اور اس موقع پر شفیع نقی نے جنرل پرویز سے ہاتھ نہیں ملایا اور یہ کہا کہ میں آپ سے کیسے ہاتھ ملائوں، آپ نے تو آئین توڑا ہوا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کا یہ رویہ صحافتی اخلاقیات کے مطابق ہے؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ادب کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہاتھ ملایا جائے، بڑھے ہوئے ہاتھ کو چھوڑ دیا، یہ میرا حق ہے۔

٭میں باقاعدہ سند یافتہ ’’جامعی‘‘ ہوں۔۔۔!
شفیع نقی جامعی کے بقول وہ سات سال کی عمر میں جامعہ ملیہ بھیج دیے گئے، بڑے بھائی سے جن باغات کا سن کر یہاں آنے کے لیے بضد ہوئے تھے، وہ یہاں تھے تو، لیکن وہاں جانے کی اجازت نہ تھی، کہتے ہیں کہ جامعہ ملیہ میں فوجی نظم وضبط کے ساتھ پلا بڑھا۔ مضمون نگاری اور جوش خطابت سے بھاگنے دوڑنے اور تیرنے تک سب سکھایا گیا۔ یہاں صبح فجر کے لیے اٹھاتے، کنویں کے پانی سے نہلاتے، ورزش اور صفائی ستھرائی ہوتی، پھر مانیٹر کی جانب سے ناخن اور کپڑوں وغیرہ کی چیکنگ۔ ایک دن مدرسہ بھی ہوتا۔ درختوں پر مچان بنا کر ٹھیرنے سے جنگل میں رہنا تک سب سکھاتے، پتھر سے آگ نکالنے سے خرگوش اور مرغی پکڑ کر کھانے تک سب چیزوں کی تربیت ہوتی۔

جامعہ ملیہ میں 10برس گزار لینے کے بعد نام کے ساتھ ’جامعی‘ کا لاحقہ اعزازی طور پر لگایا جاتا۔ میرے پاس باقاعدہ اس کی سند ہے، اب تو بہت سے ’جامعی‘ ہوگئے، پتا نہیں کتنوں نے وہاں 10 سال پورے کیے ہیں۔ شفیع نقی بتاتے ہیں کہ وہ چوتھی میں پہلی بار طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری اور پانچویں میں صدر منتخب ہوئے، پھر آٹھویں میں سیکریٹری، نویں میں نائب صدر اور میٹرک میں صدر چُنے گئے۔ کالج میں سیکریٹری اور پھر صدر بنائے گئے۔ 1972-73ء میں جامعہ ملیہ سے رخصت ہوئے اور پھر جامعہ کراچی میں بھی طلبہ یونین کی صدارت پر برا جمان ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔