چین کی ترقی کے ستر برس

محمد ارشد قریشی  منگل 1 اکتوبر 2019
یکم اکتوبر 1949 کو آزادی حاصل کرنے والا چین اپنا سترواں جشنِ آزادی منارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یکم اکتوبر 1949 کو آزادی حاصل کرنے والا چین اپنا سترواں جشنِ آزادی منارہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یکم اکتوبر 1949 کو آزادی حاصل کرنے والا چین بڑے فخر سے اپنا سترواں جشنِ آزادی منانے جارہا ہے۔ ستر سال پہلے طویل ترین خانہ جنگی کے بعد جب چین نے آزادی حاصل کی تھی تو چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤزے تنگ نے دارالحکومت بیجنگ کے مرکز میں واقع تھیان من کے مرکزی دروازے کے چبوترے پر کھڑے ہوکر عوامی جمہوریہ چین کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے چین کی حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔ اس اہم موقع کے دو برس بعد اکیس مئی 1951 کو چین اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ طور پر سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔

چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے۔ اس وجہ سے چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ دو عشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25اکتوبر 1971 چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کےلیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی، کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کےلیے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹے اور کمزور ممالک کے تحفظ کےلیے موثر کردار ادا کررہا ہے۔

اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی۔ 1970 کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120 ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے، جن میں امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم، کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے چھ ملکی مذاکرات، چین افریقن تعاون تنظیم، بیجنگ سربراہ اجلاس، ایشیا یورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں اپنے فعال کردار کی وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے۔ ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناتے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلا میں بھیجے۔ 70 سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلا کو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کا جامہ پہنایا ہے۔

مستحکم قیمتوں کے حساب سے معلوم ہوا ہے کہ 2018 میں چین کی جی ڈی پی میں 1952 کے مقابلے میں 174 گنا اضافہ ہوا ہے۔ غربت اور کمزور معیشت سے چھٹکارا حاصل کرکے چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔ 70 سال میں، چین کا کھلا دروازہ وسیع تر ہوگیا ہے۔ 1950 میں چین کی بیرونی تجارت صرف ایک ارب تیرہ کروڑ امریکی ڈالر تھی۔ 2018 میں سامان کی مجموعی درآمد اور برآمد کا حجم چار سو چھیالیس کھرب امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔ چاول بیچنے سے لے کر تیز رفتار ریل فروخت کرنے تک، چین کی بیرونی تجارت کی مالیت اور معیار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کل مالیت دو سو اکیس کھرب امریکی ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے۔

1978 میں دنیا کی معیشت میں چین کا تناسب 1.8 فیصد تھا جبکہ 2018 میں یہ شرح 16 فیصد ہوچکا ہے۔ 2006 کے بعد سے دنیا کی معاشی نمو میں چین کا حصہ پہلے نمبر پر آگیا ہے۔ اس لحاظ سے چین عالمی اقتصادی ترقی کا سب سے بڑا انجن بن گیا ہے۔ آج چین دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک، سب سے بڑا کارگو ٹریڈنگ ملک، سب سے بڑا زرمبادلہ ذخیرہ رکھنے والا ملک، اور دوسرا سب سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا ملک ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر تیجانی محمد بانڈی نے کہا کہ پچھلے 70 سال میں چین ایک غریب ملک سے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو عالمی حکمرانی اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کی معاشی ترقی میں رہنما کردار ادا کررہا ہے۔ یہ انسانی ترقی کےلیے ایک بہت بڑی خدمت ہے۔

چینیوں کی زبردست معاشی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ انہوں نے سب ہی ممالک سے دوستانہ اور امن پسندانہ تعلقات رکھے ہیں۔ یوں کسی غیر ضروری مسائل میں الجھے بغیر وہ خاموشی سے معاشی ترقی کرتے رہے۔ لیکن صدر بارک اوباما کی آمد کے بعد امریکی اسٹیبلشمنٹ کھل کر مختلف معاملات پر چینیوں سے منہ ماری کرنے لگی۔ خاص طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ بحیرہ جنوبی چین دونوں بڑی قوتوں کے مابین وجہ تنازع بن گیا۔ جب امریکا کی جانب سے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہی وقت تھا کہ چین نے فیصلہ کیا اب اسے عسکری طور پر بھی مضبوط ہونا پڑے گا۔ اسی تناظر میں 2010 کے بعد سے چینی حکومت نت نئے ہتھیار بنانے کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ امریکا چین کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ہے۔ لیکن امریکی حکمران طبقے کی چال بازیوں سے متنفر ہوکر چین نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کی جائیں تاکہ چینی معیشت محض امریکا پر انحصار نہ کرے۔ یہ معاملہ بھی چین کے نئی شاہراہ ریشم منصوبے کو عملی شکل دینے کا سبب بن گیا۔

بلاشبہ اس قوم کو بھرپور انداز میں اپنی آزادی کا جشن منانے کا حق ہے، جن کے ملک نے 70 سال کامیابی کا سفر طے کیا اور اب بھی شاہراہ ترقی پر پوری رفتار کے ساتھ دوڑا جارہا ہے۔ اور اس کی رفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے چند سال میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔