کراچی کا طلسم ہوش ربا

اسلم خان  جمعـء 4 اکتوبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

کراچی شہر نہیں، انسانوں کا جنگل ہے جس میں درندوں کے گروہ بے بس اور لاچار شہریوں کا شکار کھیل رہے ہیں۔

2 کروڑ انسانوں کا مسکن یا پھر دنیا کا سب سے بڑا  قیدخانہ، جس کی بیشتر آبادی خوف و دہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان گنت جرائم پیشہ گروہوں نے کراچی کو چھوٹے بڑے حصوں میں بانٹ رکھا ہے لیکن کئی برسوں سے نسلی، لسانی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے گروہ شہر نگاراں کے غالب حصے پر قابض ہیں جن کے شہ دماغوں نے جرم اور سیاست کے تال میل سے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ دہشت گردی‘جرم اور سیاست کو الگ الگ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

ان گروہوں کا سیاسی ،مذہبی اور عوامی چہرہ بڑا معصوم اور دلآویز ہے۔ لیکن پردے کے پیچھے اصل چہرہ انتہائی بھیانک خونخوار ہے۔ ان کے بندوق بردار اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں بروئے کار ہیں۔ نسلی، لسانی اور مذہبی پس منظر رکھنے والے یہ گروہ اپنے اپنے  لوگوں کو ہر مشکل وقت میں متحرک کرلیتے ہیں، کچھ عرصے سے کراچی میں مدارس کے طلباء کو بھی غیر محسوس انداز میں بروئے کار لایا جارہا ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ ہڑتالوں اور مظاہروں کے دوران ہوا جب جوابی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان طلبہ نے چشم زدن میں شہر کے اعصابی مرکز کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔

کراچی میں جرم اور سیاست کا کھیل اصل میں روزانہ کروڑوں اربوں روپے کی بھتہ خوری کے منظم کاروبار میں ہے۔ جو بڑے منظم انداز میں سخت گیر ہتھکنڈوں کے سا تھ موثر “کمانڈ اینڈ کنڑول” کے تحت چلایا جا رہا ہے جس کی بنیاد عالمی شہری مافیائوں کے تنظیمی خطوط پر رکھی گئی ہے۔ ان تمام تنظیموں نے کراچی کو ایک سو سے زائد حلقوں اور ہزاروں یونٹوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ جو شہر کے کونے کونے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عام طور پر ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کو یونٹ کا درجہ دیا جاتا ہے جب کہ 5 سو گھروں کے علا قے اور گلیوں کو یونٹ در یونٹ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یونٹ سربراہ اپنے حلقے کے سربراہ کو رپورٹ کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

یونٹ  کے ارکان انھی گلی محلوں کے باسی ہو نے کی وجہ سے ہر رہائشی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ ہر دکان پر ان کی کڑی نظر ہوتی ہے، وہ علاقے کے کیبل آپریٹر سے لے کر پولیس، عملہ صفائی تک تما م سرکاری اہلکاروں تک کو جانتے ہیں۔ بھتہ اکٹھا کرنا اور اس کا حساب کرکے نہایت دیانتداری سے جمع کرانا، موبائل زیورات اور پرس چھینے کی وارداتوں سے جمع ہونے والی رقم کی تقسیم کا احسن طریقے سے انتظام کرنا بھی ان کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اب تو امتحانی سینٹروں میں نقل کرانے، عید قربان پر کھالیں جمع کرنے اور عید الفطر پر فطرانے کے لیے ‘معصومانہ’ پرچیاں بھجوانے کا انتظام کیا جاتا ہے‘ اس طرح اوپر سے نیچے تک تقسیم در تقسیم کے سلسلہ وار منظم طریقے سے روزانہ کروڑوں نہیں اربوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے خودکار ہتھیار، گولہ بارود خفیہ ٹھکانوں پر محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مختلف گروہوں کے ناظم یا حلقہ کے سربراہ کے ایک اشارے پر بندوق بردار لے کر گلی کوچوں، چوک اور چوراہوں میں نکل آتے ہیں۔ لمحوں میں کراچی جام ہوجاتا ہے سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں جگہ جگہ الائو جلنا شروع ہو تے ہیں۔

کراچی کے شریف النفس شہری ایسے منظم گروہوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں جنہوں نے بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کو بھی اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ خوف و ہراس کا یہ عالم ہے کہ شہریوں نے شادی بیاہ کے موقع پر گھروں کی روایتی آرائش کرنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ کہیں غیر ضروری نظروں میں آ کر بھتہ خوری کی رقم میں اضافے کی پرچی نہ آ جائے۔المیہ تو یہ ہے کہ سب کچھ کھلے بندوں ہو رہا ہے۔ مقامی پولیس، رینجر اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کو تما م گروہوں کی مع تصاویر تمام تفصیلات کا علم ہے۔ کراچی دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے لیے سونے کی کان بن چکا ہے۔ جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر “کا ن کنی” کیے جا رہے ہیں۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ہر لسانی اور مذبی گروہ اپنے لوگوں کو  یہ کہہ کر مستقل بنیادوں پر خوفزدہ کرتے ہیں کہ ہماری حمایت نہیں کرو گے تو تمھاری خواتین اور بچوں کی زندگیاں خطر ے میں پڑ جائیں گی۔ ریاستی عملداری نہ ہونے کی وجہ سے اس پیش کش کو قبول نہ کرنا اپنے آپ کو خطر ے میں ڈالنے کی احمقانہ حرکت ہوتی ہے۔

لیاری کراچی شہر کا انتظامی حصہ ہوتے ہوئے ایک نیا جہاں ہے اب کراچی کے مالی وسائل کی تقسیم پر ان کا دعویٰ بھی فائق ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے سے پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔ بلوچ اور سندھی باہم دست و گریبان ہیں مختلف اڈوں اور باڑوں کی خون ریز لڑائیاں عروج پر ہیں۔این اے پی، باچا خان کے روشن خیال نظریات کے علمبردار ہے لیکن ان کی روشن خیالی پختون روایات کے تابع ہے۔ سہراب گوٹھ ان کی طاقت کا مرکز تھا جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا تھا۔ پھر ایک صبح انجمن فلاح و بہبود محسود قبائل کا فوٹو کاپی حکم نامہ مختلف نمایاں جگہوں پر چسپاں دکھائی دیا اور چشم زدن میں سرخ جھنڈے غائب اور سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ ایم کیو ایم بھی لسانی دائرے میں رہنے پر مجبور ہے اور اس کا نام لے کر بعض افراد  لوگوں کو بلیک میل کر رہے ہیں۔

آج کراچی میں پولیس اور رینجر کا مشترکہ آپریشن جاری ہے جہاں کہیں سخت ہاتھ پڑتا ہے واویلا ہوتا ہے اور چیخیں نکلتی ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان مجرموں کی سیاسی شناخت چھپانے کی حکمت عملی بیان کر رہے ہیں۔ شرجیل میمن انٹرنیٹ بند کرا رہے ہیں بعد از خرابیٔ بسیار سب کو احساس ہونے لگا ہے کہ جاری آپریشن ہر حال میں کامیاب ہونا چاہیے ورنہ کراچی سے آگے سمندر ہے‘ اتھاہ گہرا اور بیکراں بحر ہند، ویسے اس آپریشن کا یہ عالم ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی کی بس صبح سویر ے لوٹ لی گئی، پہلے یہی واردات کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ بھی ہو چکی ہے۔

حرف آخر یہ کہ چیئرمین نیب کی خالی کرسی چھ ماہ گزرنے اور وزیر اعظم نواز شریف سے سید خورشید شاہ کی 5 لا حاصل ملاقاتوں کے بعد آج بھی ہماری اجتماعی دانش منہ چڑا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔