اب مجھے ضرورت نہیں…

شیریں حیدر  اتوار 29 ستمبر 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘ میں نے ان سے سوال کیا، ’’ ماں باپ تو ساری عمر اسی لیے محنت اور مشقت کرتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو اپنے بعد بھی سکون سے اور تحفظ سے رہنے کے لیے ٹھکانہ میسر کردیں، ان کے لیے پائی پائی جوڑتے ہیں اور آپ نے اپنی اولادوں سے کہہ دیا کہ آپ کو ان کی ضرورت نہیں؟ ‘‘

میں نے انھیں شرمندہ کرنے کی پوری کوشش کی، شاید وہ اپنی سوچ بدل لیتے اور اپنی اولاد کی خاطر سوچتے۔ ان کے بچوں نے مجھے یہ ذمے داری سونپی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے ابا میری بہت عزت کرتے ہیں اور میری بات کو نہیںجھٹلائیں گے ۔ ان کے وہی بچے جو کبھی اپنے گھر آنے پر وہ اپنے کمروں سے نکل کر نیچے سلام کرنے بھی نہ آئے ہوں گے، مجھے یوں تپاک سے ملے بھی نہ ہوں گے، میری خوشی اور غم میں شریک ہونا تو دور کی بات ، انھیں جانتے تک نہ ہوں گے۔ جب انھوں نے اتنے مان سے مجھ سے کہا تومیں نے سوچا کہ جب کوئی آپ کے پاس امید لے کر آتا ہے تو آپ ایک امانت دار ہوتے ہیں جسے ایک امانت سونپی جاتی ہے۔ سو میںنے وعدہ کر لیا کہ میں ان کے والد سے بات کروں گی۔

’’ آپ کو علم ہے نا بہن کہ میں نے کس طرح مشقت کی ہے… محنت کی ہے، اپنا آپ بھول کر ان بچوں کو ہر سہولت فراہم کی۔ یہ میرے چار بیٹے جنھیں دیکھ دیکھ کر میں جیتا تھا، انھیں نظر بھر کر دیکھتا تک نہ تھا، سوچا کرتا تھا کہ بڑھاپے میں یہ میرا آسرا ہوں گے، میرے جنازے کو کندھا دینے کے لیے کسی اور کی ضرورت نہ ہو گی!‘‘ وہ رکے کہ ان کے حلق میں کچھ اٹکا تھا، ’’ ان کی ماں نے کبھی انھیں اٹھ کر پانی تک نہ پینے دیا تھا، ان کے جوتے تک پالش کرتی تھی، ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی و ہ ان کے سارے کام خود کرتی تھی۔ انھیں تکلیف ہوتی تو وہ تڑپ تڑپ کر بے حال ہو جاتی تھی، اسے اس وقت تک چین نہ آتا تھا جب تک کہ یہ سارے سکون سے سو نہ جاتے تھے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیکھتی تھی کہ کوئی بچہ برا خواب دیکھ کر ڈر کر نیند سے جاگ نہ گیا ہو، کسی کاکمبل نہ کھسک گیا ہو اوراسے سردی لگ جائے۔ ان کے امتحانات ہوتے اور وہ رات رات بھر جاگ کر پڑھتے تو اس کا امتحان سب سے کڑا ہوتا، رات کو جاگتی اور انھیں تازہ چپس، سینڈوچ اور برگر بنا بنا کر چائے اور کافی کے ساتھ دیتی کہ کہیں بھوک سے ان کی ذہنی استعداد کم نہ ہو جائے!‘‘

’’ یہ سب تو ایک ماں کے فرائض ہیں، ساری مائیں ایسا ہی کرتی ہیں … ہاں جو کچھ آپ بتا رہے ہیں، وہ بہت زیادہ ہے! ‘‘ میں نے انھیں کہا۔

’’ اس نے ان بچوں کی خاطر اپنی ہستی مٹا دی… میری بیوی مر گئی اور صرف ان بچوں کی ماں زندہ رہ گئی! ‘‘ وہ سسکے۔’’ ایسا سب عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو ہر مرد کو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی ماں نے بھی ان کے لیے یہ سب کچھ کیا ہوتا ہے، جسے وہ اپنے بیوی بچوں میں کھو کر بھول جاتا ہے! ‘‘ میںنے مزید تصدیق کی۔

’’ اس نے مجھے مجبور کر کے وہ گھر بکوایا جو میں نے اسے بنا کر دیا تھا، اس کے اسپنوں کا گھر، جس کی خواہش اسے اس دن سے تھی جب سے وہ میری زندگی میں آئی تھی۔ اس نے ان بچوں کی خاطر اپنے پہلے باقی سارا زیور بیچا، پھر کانوں میں پہنی ہوئی بالیوں کے بعد اپنا آخری زیور جو بیچا جو کہ وہ انگوٹھی تھی جو میںنے اسے منہ دکھائی میں دی تھی۔ سب کچھ تج کر اس نے ان سب بچوں کواعلی تعلیم کے لیے باہر بھجوانے پر لگا دیا اور ہر بچے کی منت کی کہ پڑھ لکھ کر واپس ضرور آنا۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا پھر چوتھا … باہر گئے اور ماں سے کیا ہوا وعدہ بھول گئے۔ اس کی بیماری میں بھی کوئی نہ لوٹا، سب کے پاس مجبوریوں کی داستانیں تھیں۔ وہ ان سب کے سروں پر سہرے سجانے کے خواب دیکھتی رہی اور ان سب نے خود ہی سہرے سجا کر ماں کو اپنی شادیوں کی تصاویر بھجوا دیں۔ اسے ان سب کی بے اعتنائیوں نے مار ڈالا… اس کے جنازے کو کندھا بھی نہ دیا، سب غیروں کے کندھوں پر گئی وہ!! ‘‘ ان کی اس وضاحت سے میرے اندر کچھ بری طرح ٹوٹا۔ ایسا صرف ان کے ساتھ ہی نہیں ہوا، یہ المیہ اب ہمارے ہاں عام ہے۔

’’ تو اب تو وہ سب لوٹ آنا چاہتے ہیں آپ کے پاس اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، آپ انھیں معاف کر دیں! ‘‘

’’ معافی ہی معافی ہے۔ انھوں نے آپ کو بھیجا ہے میر ے پاس، جانتے ہیں کہ آپ کی حیثیت میری نظر میں کیا ہے، میں آپ کو انکار نہیں کر سکتا۔ آپ کہہ رہی ہیں تو میں انھیں معافی دے رہا ہوں ! ‘‘ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔

’’ تو گویا وہ آپ کے گھر پر آ سکتے ہیں ؟ ‘‘ میںنے خوشی سے سوال کیا۔

’’ وہ جب چاہیں، مجھے ملنے کے لیے آ سکتے ہیں ! ‘‘ ان کا لہجہ اٹل تھا۔

’’ یہ تو معافی نہ ہوئی پھر… ‘‘ میں نے منہ لٹکا کر کہا۔

’’ آپ کو نہیں علم کہ وہ کیوں لوٹے ہیں، ان کے معافی مانگنے کے پس منظر میںکیا غرض مضمر ہے! ‘‘ انھوں نے بے بسی سے کہا۔

’’ میںنے اپنی تمام دولت کسی ٹرسٹ کو وقف کرنے کی بات کسی دوست سے کی تھی، اس دوست کا ایک دوست، میرے بیٹوں میں سے ایک کا سسر ہے۔ اس کے ذریعے ان سب کو اس ’’ سانحے ‘‘ کی خبر ہوئی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ عرصہ کے لیے لوٹ آئیں اور وہ سب کچھ ہتھیا لیں جو انھیں چاہیے۔ آپ کو لگتا ہے کہ انھیں ان کا باپ چاہیے؟ کیا وہ واقعی اس بات پر شرمندہ ہیں کہ انھوں نے اپنی ماں کی قربانیوں کی قدر نہیں کی؟ ‘‘

’’ چلیں جو بھی ہے، اب وہ شرمندہ ہیں!! ‘‘

’’ مجھے مجبور نہ کریں پلیز! ‘‘ انھوں نے میرے سامنے ہاتھ باندھ دیے۔

’’ اپنے بچوں کوایسا بنانے میں کچھ حد تک آپ کی اپنی غلطیاں بھی ہیں اور آپ کی مرحومہ بیگم کی بھی! ‘‘

’’ ہائیں؟ یہ کیا کہا آپ نے؟ یعنی غلطی پر وہ ہیں اور آپ نہ صرف مجھے بلکہ میری مرحومہ بیوی کو بھی غلط کہہ رہی ہیں! ‘‘ ان کے لہجے میں حیرت سے زیادہ ناراضی تھی۔

’’ میں ایسا نہیں کہنا چاہتی تھی مگر ایسا ہی ہے۔ ہم مائیں، بالخصوص پاکستانی مائیں اپنے بچوں کو خود ہی ایسا بناتی ہیں کہ انھیں ہم سے پیار اور لگاؤ نہیں ہوتا، ان کا ہمارے ساتھ مطلب اور غرض کا رشتہ قائم ہوتا ہے! ‘‘ میںنے کہا۔

’’کیا مطلب، میں سمجھا نہیں؟ ہم کیوں چاہیں گے کہ ہمارے بچے ہم سے پیار نہ کریں بلکہ ہمیں کسی لالچ کی وجہ سے ماں باپ سمجھیں؟ ‘‘ انھوں نے چہرے پر حیرت سجا کر پوچھا۔’’ کیونکہ ہم اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر کھلاتی ہیں، ان کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہیں تو اس وقت تک بھی ان کی انگلی پکڑ کر چلتی ہیں جب ہمیں انھیں خود سے چلنا اور احتیاط سے چلانا سیکھنا چاہیے ، کیونکہ ہم انھیں اپنے ساتھ لے کر ہی چلتے رہنا چاہتی ہیں۔ انھیں سکھاتی نہیں ہیں کہ جس دن وہ سیکھ گئے وہ اڑ جائیں گے، اس دن ہمارے اور ان کے بیچ کا تعلق کمزور پڑ جائے گا۔

جب پرندے بھی اس قابل ہوتے ہیں کہ پرواز کرنا سیکھ سکیں، ان کی مائیں انھیں اڑنا خود سکھاتی ہیں، وہ گرتے ہیں تو ماں کا دل لرزتا ہے مگر وہ اسے پرواز سکھانا ترک نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ وہ پر اعتماد ہو جاتا ہے اور گھونسلے کو چھوڑ جاتا ہے، اب اس کی اپنی دنیا ہوتی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو پہلے جسمانی اور پھر مالی طور پر اپنا محتاج رکھنا چاہتے ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ صرف یہی ایک تعلق ہے کہ جس کی وجہ سے وہ عمر بھر ہمارے ساتھ رہیں گے، نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

بچوں پرتوجہ دیں، انھیں اچھے برے کی پہچان کروائیں لیکن ان کے پیچھے یوں ہلکان نہ ہوں کہ ان کے بعد ازاں کے رویے آپ کی جان لے لیں۔ بچوں کا آپ کی نسبت، اپنے بچوں اور اپنی بیوی سے زیادہ محبت کرنا ، قدرت کا اصول ہے۔ جب ہم اس اصول کو نہیں سمجھتے تو ہمیں ان کی بے حسی کے رویے ہضم نہیں ہوتے !! ‘‘ میںنے کوشش کی کہ وہ اپنے رویے اور فیصلے میں لچک پیدا کریں ۔ ’’ ابھی آپ نے جو بات کی ہے، وہی اس سارے کا نچوڑ ہے۔ میں نے جوانی میں نہیں سمجھا اس اصول کو مگر اب آپ کے سمجھانے سے سمجھ گیا ہوں ۔ میںنے انھیں جتنا دینا تھا، اس کے لیے مجھے اپنا آپ بھی بیچنا پڑا مگر میں نے انھیں دیا۔

اچھا بچپن، اچھی تعلیم اور ان کے سارے خوابوں کی تعبیریں۔ میںنے اس کے بعد محنت کی اور دن رات گدھوں کی طرح کام کیا اور اپنا آپ نئے سرے سے سیٹ کیا۔ انھیں لگا کہ اب باپ ہمیشہ عزلت میں رہے گا ۔ وہ مجھ سے اس لیے معافی چاہتے ہیں کہ انھیں مجھ سے غرض ہے مگر اب مجھے ان سے کوئی غرض نہیں۔ میں نے اب اپنی آخرت سنوارنے کا سوچا ہے۔ میں انھیں معاف کر رہا ہوں مگر انھیں اب میری جائیداد سے کچھ ملنے والا نہیں ہے!! ‘‘ ان کا لہجہ اور فیصلہ دونوں اٹل تھے ۔’ چلیں … اگر انھیں آپ کی جائیداد میں سے کچھ ملنے والا نہیں ہے تو وہ بھی اس کے بعد آپ کو ملنے والے نہیں ہیں !‘ میںنے دل میں سوچا اور انھیں اللہ حافظ کہہ کر نکل آئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔