ڈینگی جان لیوا نہیں۔۔۔اجتماعی کوششوں سے خاتمہ ممکن ہے!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 30 ستمبر 2019
 ماہرین صحت، حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

 ماہرین صحت، حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ملک بھر میں ڈینگی وبائی شکل اختیار کر گیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ ڈینگی سے متاثرہ افراد کی اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حالات میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ حکومت کیا کر رہی اور متعلقہ ادارے ڈینگی کے تدارک کے لیے کیا کام کر رہے ہیں؟ ’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹرز، محکمہ صحت اور سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان سید حماد رضا بھی موجود تھے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر شہناز نعیم
( پروگرام منیجراینٹی ڈینگی پروگرام پنجاب)

پنجاب میں ڈینگی کے3076مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 2410 مریض صحت یاب ہوکر گھر جا چکے ہیں۔ گزشتہ روز220 مریض آئے جن میں 150مریض علاج کرواکر گھر جاچکے ہیں۔ گزشتہ روزراولپنڈی میں 140، لاہور میں 8 اور گجرات میں 6مریض رپورٹ ہوئے۔ہم روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا مرتب کرتے ہیں۔

راولپنڈی کی ایک یونین کونسل کے علاقے پوٹوہار ٹاؤن میں ڈینگی وباء کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ یہ علاقہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی دونوں کی حدود میں آتا ہے۔ پوٹوہار ٹاؤن کے علاقے میں وقت سے پہلے بارشیں ہوئیں، وہاں واٹر سپلائی سکیم نہیں ہے، لوگ پانی زیر زمین یا پلاسٹک کے ٹینکوں میں ذخیرہ کرتے ہیں، غفلت کی وجہ سے لاروا بن جاتا ہے جو ڈینگی کا سبب ہے۔راولپنڈی کی انتظامیہ تو کام کرتی رہی مگر اسلام آباد میں کام نہیں ہوا۔

جس کی وجہ سے یہ مسئلہ خراب ہوگیا۔ اب کووارڈینیشن میٹنگ کے بعد بہتری آئی ہے اور اسلام آباد کی طرف سے بھی مریضوں کی رپورٹنگ کی جارہی ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد صحت کو صوبائی سبجیکٹ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ہر صوبہ خود پلاننگ کرتا ہے اور صوبوں کے درمیان رابطوں کا مسئلہ ہے۔ محکمہ صحت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور ان کے مابین بھی رابطوں کے مسائل ہیں۔

صوبوں اور اداروں کے درمیان روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام ہسپتال ڈینگی کے مریضوں کو ڈھونڈھتے ہیں۔ جس بھی مریض پر ڈینگی لاحق ہونے کا شعبہ ہو اسے رجسٹرڈ کیا جاتا ہے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہوں گے اتنا ہی اس مرض کا خاتمہ آسان ہوگا۔ جس مریض کو 2 سے 10 دن کے قریب بخار ہو، جسم میں درد ہو، آنکھوں میں درد ہو، یا اس طرح کی کوئی بھی دو علامات ہوں تو اس پر شک کا اظہار کرکے ڈینگی کے مبینہ مریض کے طور پر رپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ بعدازاں اس کا CBC ٹیسٹ کیا جاتا جس سے صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔

سی بی سی کرنے کے بعد جس کے WBC چار ہزار سے کم ہو یا پلیٹ لیٹس ایک لاکھ سے کم ہوں تو ایسے مریض کا ڈینگی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر ٹیسٹ میں ڈینگی ثابت ہوجائے تو وہ ڈینگی کا مریض ہوتا ہے ورنہ اس کا دوسرا علاج کرکے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ڈینگی مچھر سے پھیلتا ہے اور جہاں بھی صاف پانی کھڑا ہو اس کی افزائش ہوجاتی ہے۔ جب تک ہم مل کر اس بیماری پر توجہ نہیں دیں گے تب تک اس پر قابو نہیںپایا جاسکتا۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے ٹیسٹ اور علاج معالجہ مفت ہے جبکہ نجی لیبارٹریوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 90 روپے میں ’سی بی سی‘ ٹیسٹ کریں، یہ فیصلہ کیبنٹ کمیٹی نے کیا۔

جس مریض پر شبہ ہوتا ہے ڈینگی ٹیمیںاس کے گھر جاتی ہیں اور ارد گرد کے 17 گھروں کی سرویلنس کرتی ہیں کہ کہیں کوئی انڈہ، بچہ یا مچھر تو نہیں ہے، اگر ہے تو اس کا خاتمہ کیا جانا ہے۔ اگر مریض دوسرے مرحلے میں چلا جاتا ہے تو پھر 29 گھروں میں سرویلنس کی جاتی ہے لیکن اگر مرض کنفرم ہوگیا ہے تو 49 گھروں میں سرویلنس اور سپرے کیا جاتا ہے۔

اب تک ڈینگی کے کیس سامنے آنے والے 100 فیصد مریضوں کے گھروں ،کام کی جگہ اور ان کے ارد گرد سرویلنس کی گئی ہے۔ اسی طرح اگر کہیں سے لاروا ملتا ہے تو اسے تلف کرتے ہیں۔ اگر زمین پر پانی گرا دیا جائے تو لاروا مر جاتا ہے۔ اس برتن کو اچھی طرح صاف کردیا جائے تاکہ برتن میں انڈے ، بچے لگے نہ رہ جائیں کیونکہ جب اس میں پانی بھریں گے تو وہ انڈے دوبارہ سے لاروا میں بدل سکتے ہیں۔

اگر کہیں اڑتا ہوا مچھر نظر آتا ہے یا جس علاقے سے زیادہ مریض آتے ہیں وہاں ٹارگٹڈ فوگنگ کی جاتی ہے۔ فوگ زہر ہے۔ جب تک گھروں میں دھواں نہ چھوڑا جائے لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ ہم اپنے ایس او پیز کے تحت کام کر رہے ہیں۔ تتلیاں اور جگنو دیکھے عرصہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ آلودگی ہے۔ ہمیں اپنی صحت بھی عزیز ہے اور اپنے بزرگوں اور بچوں کی بھی ۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں ڈینگی کے صرف 90مریض سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حکومت اور محکمے اپنا کام کر رہے ہیں۔

ڈینگی کے حوالے سے احتیاط انتہائی اہم ہے، خوف پھیلانے کے بجائے لوگوں کو احتیاطی تدابیر بتائی جائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلوایا جائے تاکہ بہتری لائی جاسکے۔ سکولوں میں ڈینگی کے حوالے سے زیرو پیریڈ جاری ہیں جبکہ ہم آگاہی مہم کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم بلاوجہ ایف آئی آر نہیں کرواتے، پہلے وارننگ جاری کی جاتی ہے اور جو ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو عوام کے وسیع تر مفاد اور ان کے صحت کے تحفظ کی خاطر مقدمہ درج کروایا جاتا ہے تاکہ ڈینگی کو پھیلنے سے روکا جاسکے، اب تک 32 ہزار لوگوں کو وارننگ جاری کی جاچکی ہے، اگر وہ تعاون نہیں کریں گے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ڈی سی لاہور اور ڈی سی راولپنڈی کو بھی ناقص کارکردگی پر معطل کیا گیا ہے لہٰذا حکومت کی توجہ عوام کا تحفظ اور بہتر سہولیات ہیں۔ ڈینگی کا خاتمہ صرف ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کام نہیں بلکہ یہ محکمہ ماحولیات، عوام و معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 ڈاکٹر شعیب الرحمن گرمانی
(سی ای او ہیلتھ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور )

2010ء میں بلا سوچے سمجھے بے جا فوگنگ سے لوگوں کو سینہ، دمہ، الرجی و دیگرامراض لاحق ہوگئے جس کے بعد حکومتی پالیسی میں تبدیلی آئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر جگہ فوگنگ نہ کی جائے بلکہ اب صرف ٹارگٹڈ فوگنگ کی جاتی ہے۔لوگوں کو سپرے کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے اور لوگ فوگنگ کو ہی سپرے سمجھتے ہیں۔ ہم جہاں IRS کرواتے ہیں وہاں بھی لوگ کہتے ہیں کہ سپرے کریں حالانہ آئی آر ایس ایک سپرے ہے۔

لاہور میں ہماری 1400 ’ ان ڈور‘ جبکہ 500 ’آؤٹ ڈور‘ ٹیمیں ہیں ۔ہماری ان ڈور ٹیمیں گھروں میں جاتی ہیں۔ پہلے ہماری ٹیم 25 گھروں میں جاتی تھی جو اب 40 سے 45 گھروں میں جاتی ہے۔ ہم لاہور میں روزانہ 60 سے 65 ہزار گھروں کی سرویلنس کرتے ہیں اور یہ واضح رہے کہ ہم ہر گھر میں IRS یا فوگنگ نہیں کرتے۔ جس گھر میں لاروا ملے ، اس گھر میں اور اس کے اردگرد کے 4 گھروں میں IRS کرواتے ہیں۔ اگر ان 4 گھروں میں سے کسی اور گھر میں لاروا مل جاتا ہے تو اس گھر کے اردگرد بھی چار گھروں میں سپرے کروایا جاتا ہے۔

جہاں ضرورت ہووہاں سپرے کرواتے ہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں نہیں کرواتے۔ جہاں ایڈلٹ لاروا ملے وہاں ماہرین کی نگرانی میں فوگنگ کروائی جاتی ہے کیونکہ یہ صحت کے لیے نقصاندہ ہے۔ ڈینگی کا ہر مریض رجسٹرڈ کیا جارہا ہے، لاہور میں ڈینگی کے اب تک صرف 90 مریض سامنے آئے ہیں اور کوئی موت نہیں ہوئی۔

ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم دن رات محنت کے ساتھ کام کر رہے ہیں لہٰذا ہمارے کام کی تعریف کی جائے۔ جس مریض پر بھی شبہ ہو اس کی رجسٹریشن کرتے ہیں، بعدازاں ٹیسٹ کیا جاتا ہے، ابھی تک ڈینگی کے شبہ والے 5000 مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 90 کو ڈینگی تھا جبکہ باقی لوگوں کو کوئی اور مرض تھا۔ یہ ڈیٹا صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی ہسپتال بھی مرتب کر رہے ہیں۔

وہاں آنے والے مریض بھی ڈیش بورڈ پر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ 24 گھنٹے میں مریض کا مکمل ریکارڈ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں کام کرتا ہے،ا س کا گھر کہاں ہے۔ ہم اس کے گھر اور کام کی جگہ جاتے ہیں اور وہاں ڈینگی کی سرویلنس کرتے ہیں۔ اگر مریض کو ڈینگی کنفرم ہوجائے تو ہم ا س کے گھر کے 49 گھروں میں IRS کرواتے ہیں تاکہ ڈینگی کا تدارک کیا جاسکے۔ وزیرصحت کی ہدایت کے مطابق لاہور کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں 670 بیڈزڈینگی کے مریضوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہد ملک
( سیکرٹری جنرل پی ایم اے)

ڈینگی صرف پاکستان نہیں بلکہ 107 ممالک کی بیماری ہے اور اس کی تین پوزیشنز ہیں۔پہلی یہ کہ self limited بیماری ہے۔ 10 دن کا بخار ہے، جس طرح نزلہ ہوتا ہے اسی قسم کی بیماری ہے۔ اس مرض سے موت کی شرح انتہائی کم ہے۔ ایک ہزار میں سے صرف ایک مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے وہ بھی اس لیے کہ اگر اس کا علاج نہ ہو یا غلط علاج ہو۔

یہ مچھر سے لاحق ہونے والی بیماری ہے اور اس قسم کی 93 بیماریاں کتابوں میں موجود ہیں۔ افسوس ہے کہ صرف ہمارا ملک ایسا ہے جہاں محض ڈینگی کا ڈیش بورڈ بنایا ہے۔ 2010ء میں بھی اس پر سیاست کی گئی جو غلط تھی۔ڈینگی صرف صحت نہیں بلکہ سماجی ایشو ہے جس کا تعلق ماحول اور رویوں سے بھی ہے۔ ڈینگی بیماری کے حوالے سے لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ اس بیماری نے خود بخود ختم ہونا ہے لہٰذا خوف ہراس نہ پھیلایا جائے۔

ڈینگی کے ایسے مریض جن کا علاج نہ ہو تو ان میں سے صرف 2 فیصد ڈینگی ہیمرجک فیور میں جائیں گے۔ پلیٹ لیٹ کاؤنٹ گرے گا اور اوپر آئے گا۔ ڈینگی کے حوالے سے 107 ممالک میں خوف نہیں ہے لہٰذا یہاں بھی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی ضرورت نہیں مگر بدقسمتی سے یہاں اس بیماری پر سیاست کی جاتی ہے۔

اس وقت 8 ہزار کے قریب ڈینگی کے مریض رپورٹ ہوئے ہیں ، یہ اصل میں ڈینگی کے مریض نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جن پر ڈینگی ہونے کا شبہ ہوا۔ان میں سے بیشتر مریض صحت یاب ہوکر گھر جاچکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈز بن رہی ہیں اور حکومت اپنی کپیسٹی کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہمیں بیماریوں پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

ہمیں عوام کو آگاہی دینی چاہیے کہ اس سے بچنا کیسے ہے۔ یہ مچھر طلوع اور غروب کا مچھر ہے۔ اس مچھر نے صبح صبح کاٹنا ہے یا پھر رات کے وقت کاٹنا ہے۔ صاف پانی کے اندر اس کی افزائش ہوتی ہے۔ سب سے پہلے لاروا بنتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہر لاروا خطرناک نہیں ہے۔ اگر اس لاروے میں وائرس ہی نہیں ہے تو اس سے خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ٹیمیں جاتی ہیں، پانی دیکھتی ہیں اور لاروا کا کہہ کر ایف آئی آر کروا دی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے پاس کون سی خوردبین ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ لاروا ہے۔ میرے نزدیک یہ خراب ڈینگی ریگولیشنز ہیں جن کا فائدہ نہیں ہے۔ اگر آبادی کا 10 فیصد حصہ کسی بیماری کا شکار ہو تو اسے وبائی مرض کہا جاسکتا ہے مگر یہاں تو صرف 8 ہزار مریض ہیں مگر خوف پھیلایا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ اگر درست وقت پر سپرے کردیا جاتا اور لاروا تلف ہوجاتا تو پھر بیماری نہ پھیلتی۔ اب اگر بخار ہوگیا ہے تو اس کے تین فیز ہیں۔ماضی میں جو اموات ہوئیں وہ CLD کی بیماری تھی۔

ڈینگی سے موت صرف اس شخص کی ہوگی جسے اور بیماریاں بھی ہیں۔ 0.02 فیصد اس کی شرح اموات ہے۔ لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ماحول کو صاف کرلیا اور صاف پانی کو محفوظ بنا لیا تو بیماری کی شرح خودبخود کم ہوجائے گی۔

آئمہ محمود
(نمائندہ سول سوسائٹی )

حکومت 10 ہزار ڈینگی کے مریض خود تسلیم کرچکی ہے جبکہ حقیقت میں تعداد اس سے زیادہ ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس مرتبہ یہ تعداد اس لیے زیادہ لگ رہی ہے کیونکہ ماضی میں ڈینگی کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہوچکا تھا اور ادارے اپنا کام کر رہے تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ اب بھی ادارے موثر کام کریں مگر افسوس ہے کہ حکومتی اقدامات نظر نہیں آئے۔ ڈینگی کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔

لہٰذا ہم یہ خیال کر رہے تھے کہ ہمارے ادارے اس مرض سے نمٹنے کے حوالے سے قابل اور تجربہ کار ہیں، اس لیے ڈینگی اب پہلے جیسی صورتحال اختیار نہیں کرے گا مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ ڈینگی صرف مخصوص موسم میں آتا ہے اور پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا اداروں کی کارکردگی نظر آنی چاہیے تھی جو نہیں آئی۔ گزشتہ دور حکومت میں ڈینگی کنٹرول ٹیم لوگوں کے گھروں میں جاتی تھی اور واٹر کولر، گملوں و دیگر جگہ پانی چیک کرتی تھی مگر اس مرتبہ کوئی ٹیم نظر نہیںآئی۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور محکمہ صحت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔

70 فیصد مریضوں کا تعلق پنجاب سے ہے جن میں لاہور کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لاہور ملک کا دل ہے، یہاںہر قسم کی سہولیات موجود ہیں، بڑے ہسپتال ہیں لہٰذایہاں حکومتی مشینری کو موثر ہونا چاہیے تھا ، سوال یہ ہے کہ کوتاہی کیوں برتی گئی؟ افسوس ہے کہ مسئلہ درپیش آنے پر ہم موثر کام کرنے کے بجائے نمائشی اقدامات شروع کردیتے ہیں جن کا فائدہ نہیں ہوتا۔بعض افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ جو غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اس کے خلاف کارروائی ضرورہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو اداروں کی غیر ذمہ داری کے خلاف ایف آئی آر کروانے کا اختیار حاصل ہے؟

میرے نزدیک اگر محکمانہ غفلت پر عوام کو ایف آئی آر درج کروانے کا اختیار دے دیا جائے تو اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔جب ہر تھانے میں اس بات پر ایف آئی آر ہوگی کہ ہمارے ہاں ڈینگی سروے ٹیمیں نہیںآئیں، سپرے نہیں ہوا ، سکولوں میں ٹیمیں نہیں گئیں تو پھر ادارے خود بخود کام کریں گے۔ بدقسمتی سے ڈینگی سے ہلاکتوں کے بعد چند واکس کی گئیں جن کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان کو آگاہی ملی۔چاہیے تو یہ تھا سکولوں میں جاتے اور بچوں کو آگاہی دیتے۔ اس وقت ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں، اس صورتحال میں ڈینگی مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ریکارڈ پر ہی نہیں آرہے۔

موجودہ حکومت نے صحت کے قوانین میں جو تبدیلی کی ہے اس پر ڈاکٹر ناخوش ہیں۔ عام مریض کو مفت علاج اور ادویات نہیں مل رہیں، ٹیسٹ مفت نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا نجی لیبارٹریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ ڈینگی کا تشخیصی ٹیسٹ سستے داموں کریں۔ کیا انہیں ڈینگی مریضوں کو علاج میں سبسڈی دینے کی کوئی ہدایت کی گئی ہے؟ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں تو ان کو متبادل کیا سہولیات فراہم کی جارہی ہیں؟ میرے نزدیک ہسپتالوں میں صرف خصوصی وارڈ قائم کردنیا اور چند مریضوں کو وہاں سہولیات دینا کافی نہیں بلکہ ہر شہر ، قصبہ، گلی میں لوگوں کو آگاہی دی جائے اور موثر سٹرٹیجی بنا کر ڈینگی کے بارے میں آگاہی مہم وسیع پیمانے پر چلائی جائے۔

ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی کارکردگی دیکھی جائے تو پھل و سبزی منڈیوں میں کیچڑ اور پانی کھڑا ہے اس کے علاوہ اور بہت سارے معاملات خراب ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ کن کن اداروں نے ڈینگی کے حوالے سے کام کرنا ہے اور کہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ڈینگی کے حوالے سے اداروں کی کیا کپیسٹی بلڈنگ کی گئی؟آج یہ کہا جا رہا ہے کہ ملازمین دن رات ڈیوٹی کریں کیونکہ ڈینگی کے حوالے سے ہنگامی صورتحال ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ انہیں خدمات کے بدلے میں کیا سہولیات دی جارہی ہیں ؟ حکومت اوور ٹائم لگانے والوں کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

بدقسمتی سے صحت کا گزشتہ برس کا بجٹ مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جاسکا۔ حکومت نے ادویات کی مفت فراہمی بند کر دی ہے، ہسپتالوں کا بنیادی انفراسٹرکچر تبدیل کیا جارہا ہے لہٰذا اس صورتحال میں ڈینگی کا جو چیلنج سامنے آیا ہے، دیکھنا ہے کہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے۔ عوام کو چند واکس اور بینرز نہیں چاہئیں بلکہ انہیں ڈینگی سے نجات اوربنیادی سہولیات چائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اس وقت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تمام میڈیا ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ ڈینگی کے حوالے سے خوف و ہراس نہ پھیلائیںبلکہ خبر کے ساتھ ساتھ مریضوں کو ڈینگی سے احتیاط کیلئے آگاہی دی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن کو بلیم گیم اور ایک دوسرے سے موازنہ کرنے کے بجائے مل کر عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ ڈینگی کے خاتمے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو یک زبان اور یک جان ہو کر محنت کرنا ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی کپیسٹی بلڈنگ کی جائے۔ بدقسمتی ہم علاج پر توجہ دے رہے ہیں مگر علاج سے پہلے احتیاط پر توجہ نہیں ہے لہٰذا ہمیںا پنے رویے بدلنا ہوں گے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ’احتیاط، علاج سے بہتر ہے‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔