کائناتی مہمان

محمد شاہ زیب صدیقی  بدھ 2 اکتوبر 2019
’’اومواموا‘‘ نامی یہ لمبوترا پتھر نظام شمسی کے باہر سے آیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’اومواموا‘‘ نامی یہ لمبوترا پتھر نظام شمسی کے باہر سے آیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

19 اکتوبر2017 کی بات ہے کہ چِلّی میں موجود پین اسٹار ٹیلی اسکوپس کے ذریعے رابرٹ وریک نامی ماہرِ فلکیات نے ایک پراسرار شے کو آسمان پر منڈلاتے دیکھا۔ اس کی پراسراریت کا اندازہ ایسے لگائیے کہ اِس کے متعلق رابرٹ وریک نے جیسے ہی عالمی فلکیاتی تنظیموں کو بتایا تو پوری دنیا میں کمپین چل پڑی اور دنیا کی پانچ بڑی خلائی آبزرویٹریز نے اس شے کو بیک وقت اپنے نشانے پر رکھا اور ڈیٹا جمع کیا۔ تحقیقات کے بعد اسے دُمدار ستارہ قرار دیا گیا اور اس کا نام C/2017 U1 رکھا گیا۔

لیکن بعد ازاں اس پر اعتراض اٹھایا گیا کہ دُمدار ستاروں کے پیچھے گیسز پر مشتمل ایک دُم ہوتی ہے، لیکن اس پتھر سے ایسی کوئی گیس خارج ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ جس کی وجہ سے فلکیاتی اجسام کو نام دینے والی تنظیم International Astronomical Union نے اس کو Asteroid قرار دے کر اس کا نیا نام A/2017 U1 رکھ دیا۔

ابھی اس پراسرار شے کے متعلق قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ نئی تحقیقات نے سائنسدانوں کو چونکا دیا۔ اِن تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ اس پتھر کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ نظامِ شمسی سے باہر نکلنے کےلیے 42 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار چاہیے ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لمبوترا پتھر نظام شمسی کے باہر سے آیا ہے۔

یہ حقیقت جاننے کے بعد سائنسدانوں نے جدید کمپیوٹر سیمولیشنز کے ذریعے اس کے راستے کا نقشہ بنانا شروع کیا، جس سے معلوم ہوا کہ 9 ستمبر 2017 کو یہ سورج کے نزدیک سے گزرا۔ اس وقت اس کی رفتار 87 کلومیٹر فی سیکنڈ تک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ International Astronomical Union نے اعلان کیا کہ یہ کوئی عام پتھر نہیں بلکہ یہ پہلا پتھر ہے جو نظام شمسی کے باہر سے آیا ہے۔ لہٰذا اسے انٹرسٹیلر پتھر قرار دے کر 1I نام دیا گیا۔ اس نام میں I کا مطلب انٹرسٹیلر ہے، جبکہ 1 کا مطلب ہے پہلا پتھر۔ یعنی ہم نے نسل انسانی میں پہلی بار ایسے پتھر کا نظارہ کیا جو ہمارے نظام شمسی میں بطور مہمان آیا تھا اور سورج، زمین کے نزدیک سے چکر لگا کر اب نظام شمسی سے باہر نکل رہا ہے۔ عوام کی آسانی کےلیے اسے Oumuamua (اومواموا) نام دے دیا گیا۔ ’’اومواموا‘‘ ہوائین زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’دور سے آیا ہوا پہلا مسافر‘‘۔

بات صرف یہیں تک محدود رہتی تو ٹھیک بھی تھی، مگر اس پتھر نے سائنسدانوں کو مزید ورطہ حیرت میں اس وقت ڈال دیا جب اس سے آنے والی روشنی کو ریکارڈ کرکے معلوم ہوا کہ بظاہر یہ پتھر تو گول ہی دکھائی دے رہا ہے مگر اس سے آنے والی روشنی ہر 8 گھنٹوں میں کم ہوتی ہے اور پھر زیادہ ہوجاتی ہے۔ ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی شے لمبی ہو اور مختلف سمتوں میں قلابازیاں کھا رہی ہو۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اس کی لمبائی 100 سے ایک ہزار میٹر اور چوڑائی 35 سے 167 میٹر کے درمیان ہے۔ یعنی یہ گول نہیں بلکہ سگار کی طرح لمبوترا پتھر ہے۔ اس سے منعکس ہونے والی سرخ رنگ کی روشنی سے مزید معلوم ہوا کہ یہ مکمل دھات سے بنا ہوا پتھر ہے۔ جبکہ اس کی چمک بتا رہی تھی کہ اس نے کروڑوں سال تک کائنات میں موجود خطرناک ریڈی ایشنز کا سامنا کیا ہے۔

اکثر و بیشتر نظام شمسی کے کناروں سے آنے والے پتھروں پر گیسز کی ایک برفیلی تہہ موجود ہوتی ہے، مگر اومواموا پر برفیلی تہہ کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہ تمام نشانیاں دیکھ کر سائنسدانوں کو 1973 میں شائع ہونے والے سائنس فکشن ناول Rendezvous with Rama کی یاد آگئی، کیونکہ اس ناول میں موجود ’’راما‘‘ نامی خلائی جہاز کچھ ایسا ہی تھا، جو کسی اور ستارے سے زمین کی جاسوسی کرنے آتا ہے اور اسی انداز سے نظام شمسی میں داخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لمبوترے پتھر کے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ کہیں یہ کوئی ایلین اسپیس شپ تو نہیں تھی، جو زمین کا چکر لگانے آئی تھی؟

کچھ فلکیات دانوں نے اس کو اتنے وثوق سے ایلین شپ کہا کہ باقاعدہ ریڈیو ٹیلی اسکوپس کو اس کی جانب کرکے سگنلز بھی سننے کی کوشش کی گئی، مگر ایسے کوئی سگنلز ہمیں موصول نہ ہوئے۔ اس پتھر کو ایلین شپ ثابت کرنے کےلیے باقاعدہ سائنسی ریسرچ پیپرز تک لکھے گئے۔

لیکن اس سب کے جواب میں سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر یہ کسی قسم کا خلائی جہاز ہوتا تو یہ یقیناً عجیب و غریب راستے کو فالو کرتا، مگر تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ اسی راستے پر گامزن ہے جو خالصتاً سورج کی کشش ثقل کے باعث بنا ہے۔ اس کے راستے کو دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ ’’اومواموا‘‘ نے لائیرا (Lyra) نامی ستاروں کے جھرمٹ میں موجود ’’ویگا‘‘ ستارے سے چھ لاکھ سال پہلے اپنا سفر شروع کیا ہوگا۔ چھ لاکھ سال خلا کی تاریکیوں میں گم رہنے کے بعد اب یہ ہمارے سورج کا چکر کاٹ کر ایک اور لمبے سفر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس دوران اکتوبر 2017 کو یہ زمین کے نزدیک سے گزرا، جس کے بعد نومبر 2017 کو مریخ، مئی 2018 کو مشتری، جبکہ جنوری 2019 کو زحل کے نزدیک سے گزرا۔ 2022 میں یہ نیپچون کو کراس کرے گا۔ جس کے بعد یہ اگلے 20 ہزار سال تک ہمارے نظام شمسی کے کناروں کی جانب بڑھتا رہے گا اور بالآخر ہمارے کائناتی محلے کو الوداع کہہ دے گا۔ اس کے بعد یہ 76 لاکھ سال تک کائناتی تاریکیوں میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنی اگلی منزل پر پہنچے گا جو کہ Pegasus نامی ستاروں کا جھرمٹ ہے۔

جنوری 2018 کو اس کی روشنی اس حد تک کم ہوگئی کہ یہ عام ٹیلی اسکوپ سے دکھائی دینے کے قابل نہیں رہا۔ جس کے بعد ہبل ٹیلی اسکوپ کو اس کے تعاقب میں لگادیا گیا۔ اس دوران 27 جون 2018 کو ہمیں اس کی رفتار میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ یہ ایک چونکا دینے والی بات تھی۔ کیونکہ یہ رفتار میں اضافہ کشش ثقل کے باعث نہیں تھا۔ پھر ’’اومواموا‘‘ کی رفتار میں اضافہ کیوں ہوا؟

اس کا ممکنہ جواب فلکیات دان یہی دیتے ہیں کہ ممکن ہے اس کی سطح میں کہیں گیسز ٹھوس شکل میں پھنسی ہوں، جو سورج کی مسلسل روشنی کے باعث پگھل گئیں۔ اس دوران جب وہ پریشر سے باہر نکلیں تو انہوں نے اس کی رفتار بڑھا دی۔ لیکن حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اس دوران کسی قسم کی کوئی گیس ریڈی ایشنز کی شکل میں نکلتی ہمیں دکھائی نہیں دی۔ اسی خاطر فلکیاتی جستجو کے حامل احباب یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس پتھر کی جانب کوئی خلائی مشن لازمی بھیجا جانا چاہیے تاکہ اس کی حقیقت اور تاریخ معلوم کی جاسکے۔

اس پراسرار پتھر نے کس ستارے سے اپنا سفر شروع کیا؟ اس متعلق سائنسدان جواب دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ اندازہ یہی کہتا ہے کہ یہ پتھر اربوں سال پرانا ہوسکتا ہے اور کئی ارب سال سے ہماری کہکشاں میں آوارہ گھوم پھر رہا ہے۔ اس دوران یہ کئی ستاروں کا مہمان بھی رہ چکا ہوگا اور آج کل ہمارے سورج کا مہمان بنا ہوا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ پتھر کسی تباہ حال سیارے کا ٹکڑا ہو، کیونکہ جب سیارے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کے ٹکڑے کئی بار اتنی شدید رفتار حاصل کرلیتے ہیں کہ اپنے ستارے کی کشش سے باہر نکل جاتے ہیں، یا پھر جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے شدید قوت سے پھٹتا ہے تو اس واقعے کو سپرنووا کہتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ پتھر کسی سیارے کا ٹکڑا ہو، جو سپرنووا کے باعث اپنے ستارے کے مدار سے نکل گیا اور اس دوران مختلف ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے ان کی کشش ثقل کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہو اور ’’اومواموا‘‘ اسی سیارے کا ایک ٹکڑا ہو جو ہمارے سورج کی جانب آپہنچا ہو۔

نومبر 2018 میں ہاورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم عامر سراج نے مفروضہ پیش کیا کہ عین ممکن ہے اومواموا کی طرح کے کئی پتھر ہمارے نظام شمسی میں آج بھی موجود ہوں، جو زیادہ رفتار نہ ہونے کے باعث نظام شمسی میں رہ گئے ہوں۔ اس ضمن میں انہوں نے مشتری کے نزدیک چند شہابیوں کی نشاندہی بھی کی، جو ممکنہ طور پر نظام شمسی کے باہر سے آئے تھے۔ آج بھی ہمیں معلوم ہے کہ ایسے پتھر ہزاروں کے حساب سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہورہے ہیں، لیکن کھربوں پتھروں میں ایسوں کو دریافت کرنا یقیناً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسے پتھروں کو ڈھونڈنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ اکتوبر 2017 سے لے کر 2019 تک ہمیں کوئی ایسا دوسرا پتھر نہیں ملا تھا، لیکن اب حال ہی میں 30 اگست 2019 کو روس سے تعلق رکھنے والے فلکیات دان Borisov نے ایک اور ایسا آوارہ پتھر دریافت کرلیا ہے، جسے 2I/Borisov نام دیا گیا ہے۔

بوریسوف کی اس دریافت کا موازنہ سائنسدان پلوٹو کی دریافت سے کررہے ہیں، کیونکہ بوریسوف نے کسی دیوہیکل ٹیلی اسکوپ سے نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ایک معمولی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس پتھر کو دریافت کیا ہے۔ یہ Cassiopeia نامی جھرمٹ سے آیا ہے اور 2 کلومیٹر کے سائز کا حامل ایک پتھر ہے، جس سے گیسز کا اخراج ہورہا ہے۔ یہ دسمبر 2019 میں سورج کے نزدیک پہنچے گا۔ اس دوران اس کا کسی بھی سیارے سے سامنا نہیں ہوگا۔ سورج کے گرد چکر لگانے کے بعد یہ Telescopium نامی جھرمٹ کی جانب بڑھ جائے گا۔ یہ ستمبر 2020 تک عام ٹیلی اسکوپس سے دکھائی دیتا رہے گا، جس کے بعد اکتوبر 2020 میں ہبل ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس کو کھوجنے کی کوشش کی جائے گی۔ چونکہ اس کی اور اومواموا کی رفتار انتہائی تیز ہے، جس وجہ سے سائنسدان ان کی جانب مشن بھیجنے سے قاصر ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگر ہم کسی ایسے پتھر پر مشن لینڈ کروانا چاہتے ہیں تو اس کےلیے ہمیں 5 سال پہلے سے تیاری کرنی پڑے گی۔

ہماری کائنات حیرت کدہ ہے، اور یہ حیرت کدہ ہمیں صدیوں سے حیرت زدہ کرتا آرہا ہے۔ اس سارے ضمن میں انسان جب کائنات کو کھوجنے کی بات کرتا ہے تو کئی سوالات اٹھتے ہیں کہ ہم کائنات کے متعلق کتنا جانتے ہیں؟ اور جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ حقیقت کے کتنا قریب ترین ہے؟ کیونکہ ابھی تو ہم اپنے نظام شمسی کی رنگینیوں سے باہر نہیں نکل سکے، باہری کائنات ہمارے لیے کتنے حسین اور حیرت انگیز مناظر سموئے ہوئے ہے، اس کا گمان کرنا بھی شاید ممکن نہ ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد شاہ زیب صدیقی

محمد شاہ زیب صدیقی

بلاگر شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں جبکہ یوٹیوب پر اردو زبان میں سائنسی ڈاکومنٹریز بنانے کے ساتھ مختلف ویب سائٹس پر سائنسی بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ ان کے فیس بک آئی ڈی hellozaib پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔