پیسے درختوں پر نہیں اگتے…

شیریں حیدر  ہفتہ 5 اکتوبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

تم بھی چلے گئے موجی… تم اور میں تو ان چند لوگوں میں سے تھے نا جنھیں کبھی یہ ملک چھوڑ کر نہیں جانا تھا چاہے زمین کتنی ہی تنگ کیوں نہ ہو جاتی؟ جب ہم سنتے تھے کہ کوئی ملک چھوڑ کر جا رہا ہے تو کتنے دکھی ہوتے تھے، جانے والوں کے پاس تو جواز ایک لمبی فہرست کی صورت موجود ہوتے ہیں جس کی آخری لائن ہوتی ہے کہ یہاں اب کیا رکھا ہے؟ مگر تم تو کہتے تھے   ؎

میرے دیس دیا مالکا، توشکردا رہویں احسان

تیرا وسدا رہوے کعبہ، میرا وسدا رہوے پاکستان

آج کل جس سے ملو، تین فقروں کے بعد سوال ہوتا ہے … ’’آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘ بغیر پوچھے علم ہوتا ہے کہ اس ارادے کا تعلق کس بات سے ہے، یہ ارادہ ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ آپ اس ملک کی ترقی کے لیے کیا ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ سوال کا مقصد ہوتا ہے کہ آپ کس ملک کی شہریت حاصل کرنے لے لیے کاوشیں کر رہے ہیں… جب دو ایسے لوگ ملتے ہیں جو کہ دو مختلف ملکوں کی شہریت کے لیے کوشاں ہوتے ہیں تو وہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر کے فریق مخالف کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا انتخاب بہتر ہے۔

نوجوان تو اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں، ماں باپ لاکھوں روپیہ صرف کر کے ملک کی یونیورسٹیوں میں انھیں تعلیم دلواتے ہیں، اس کے بعد ان نوجوانوں کو جب جگہ جگہ ملازمت کے لیے کوشش کے جواب میں ٹکا سا جواب ملتا ہے تو وہ بد دل ہو جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک پڑھا لکھا نوجوان فقط ایک اچھی دفتری ملازمت کر سکتا ہے، چھوٹا موٹا کاروبار جو کہ کم سرمائے سے شروع ہو سکتا ہے اور محنت سے اسے چھوٹے پیمانے سے ترقی کر کے بہتر مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ کام کرنے کو ہمارے ہاں حقیر سمجھا جاتا ہے، یہ حقارت صرف اپنے ملک کی حد تک ہے، جب ہم اس حد کو پار کرتے ہیں تو یہ حقارت ختم ہو جاتی ہے اور ہم گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔

مجھے آج تک یاد ہے، اوکاڑہ میں، میں جس دکان سے گوشت کی خریداری کے لیے جاتی تھی، وہ قصاب اکثر بات کے دوران انگریزی فقرے بولتا تو میں سمجھتی کہ خواہ مخواہ چند لفظ بول کر گاہکوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک بار میں گوشت لینے گئی تو اس کی دکان پر اس کے ساتھ ایک انتہائی اسمارٹ نوجوان بھی بیٹھا کام کر رہا تھا۔ ’’میرا بیٹا ہے باجی!‘‘ اس نے تعارف کروایا، ’’واجد باجی کو ان کے آرڈر کے مطابق گوشت تیار کر کے دو!‘‘ واجد نے باپ کے حکم کی تعمیل کی اور ایسا گوشت تیار کیا کہ میں حیران رہ گئی، کاش اس کے باپ نے اس کو اپنے ساتھ کام پر لگانے کی بجائے تعلیم دلوائی ہوتی، کتنا اسمارٹ نوجوان ہے… میں سوچنے کے بعد بولے بغیر بھی نہ رہ سکی تھی۔ ’’آپ اس کو اپنے ساتھ کام پر لگانے کی بجائے پڑھاتے…‘‘ میری بات سن کر وہ ہنسا،  میری بقایا رقم لوٹاتے ہوئے کہا، ’’پڑھتا ہے جی یہ… لاہور میں، گرمیوں سردیوں کی چھٹیوں میں آتا ہے تو میرے ساتھ کام کرتا بھی ہے اور سیکھتا بھی ہے… میرا کام کل کو میرے بڑھاپے میں اسی نے سنبھالنا ہے…‘‘

’’اچھا کیا پڑھتا ہے اور کہاں سے؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا، جواب میں اس نے جس یونیورسٹی کا بتایا، میں سن کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ اکنامکس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رہا تھا اور توقع تھی کہ کوئی پوزیشن حاصل کرے گا! ’’آپ سمجھتے ہو کہ یہ اتنی اچھی ڈگری حاصل کر کے یہی کام کر لے گا؟‘‘ میں نے حیرت کی زیادتی سے اپنی آنکھیں پھٹتی ہوئی محسوس کیں۔

’’کیوں نہیں کرے گا جی… کام کوئی بھی گھٹیا نہیں ہوتا، یہ فخر سے اس کام کو کرے گا جس سے اس کی پرورش ہوئی ہے، اس کی تعلیم کا خرچ بھی اسی سے نکلتا ہے، میرا گھر بھی چلتا ہے، میرے باقی بچے بھی پڑھتے ہیں اور ہم اچھا کھاتے، پہنتے اوڑھتے اور رہتے ہیں۔ یہ پڑھ لکھ کر اس کام کو اور بہتر طریقے سے چلائے گا، میں نے اپنے شوق کے باعث تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی، اسے اس ڈگری کا شوق تھا، یہ ڈگری تو اسے کاروبار کو بڑھانے میں اور بھی فائدہ دے گی…‘‘ میری آنکھیں اس کی اس سوچ پر نم ہو گئیں اور میں جو سمجھتی تھی کہ صرف جاہل اور کم پڑھے لکھے لوگ ہی ایسے پیشوں کو اختیار کرتے ہیں، میرا خیال مکمل غلط ثابت ہو گیا تھا، چاہے ایک ہی سہی، مگر استثناء ہے تو سہی، میں نے دل ہی دل میں اسے سیلوٹ کیا…بات ہو رہی تھی، حصول تعلیم کے لیے باہر جانے والے نوجوانوں کی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

بچوں کو باہر بھجوانا بسا اوقات  ماں باپ کی جیب کی استطاعت سے بڑھ کر ہوتا ہے مگر ہمارے جیسے ماں باپ اپنی اولاد کو ( بقول ان کے) ان کی بہتری کی خاطر ملک بدر کرتے ہیں، ان کی جدائی سہتے ہیں، اپنی ہزاروں خواہشات کا گلا گھونٹ کر ان کے اخراجات برداشت کرتے ہیں… دو تین برس کا عرصہ جانے کس طرح گزارتے ہیں، اول تو جانے والے لوٹ کر ہی نہیں آتے اور جو لوٹ آئیں تو وہ اتنے ’’با صلاحیت‘‘ ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے؟ اب اس ملک میں ان کی قابلیت کے مطابق ملازمت ہی نہیں ہوتی، تین برس پہلے وہ پچیس تیس ہزار کی ملازمت کو لات مار کر جاتے ہیں تو لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی ان کی worth میں اتنا زیادہ اضافہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ماں باپ کے احسان کا بدلہ بھی چکا سکیں۔ (اگرچہ ماں باپ اسے احسان کے کھاتے میں شامل بھی نہیں کرتے)

جن اونچی کرسیوں کی طرف وہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں، وہ گنتی کی ہوتی ہیں، ان پر بھی یا تو واقعی وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں نے اپنی عمر کا بہترین حصہ اس سے بہت نیچے سے کام شروع کر کے وہاں تک رسائی حاصل کی ہوتی ہے یا پھر وہ کہ جن کی ’’پہنچ‘‘ کہیں اوپر تک ہے، اس طرح اس کرسی پر انھیں ’’سفارش کی کرین‘‘ میں بٹھا کر بٹھا دیا جاتا ہے، اس طرح تو کئی بار ہمارے ہاں کرسیء اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کی مثالیں بھی ہیں۔

کچھ نوجوان ہی بے تاب ہیں اور کچھ ایسے والدین بھی لا تعداد ہیں جن کے خیال میں ان کے بچوں کا باہر جانا اہم ہے… اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے خواب ڈالروں میں ہوتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ کسی بھی ملک میں نوٹ درختوں پر نہیں اگتے… طبقہء امراء میں بچوں کا پڑھنے کے لیے باہر جانا، اسی طرح status symbol ہے جس طرح ان کے پاس اچھی گاڑی، گھر، زیورات اور کاروبار کا ہونا ہے۔ کسی امیر آدمی کا بیٹا یا بیٹی باہر نہ پڑھتا ہو تو وہ دوسروں کے سامنے نظر اٹھا کر دیکھ بھی نہیں سکتا۔

لوگ دھڑا دھڑ کاروبار باہر منتقل کر رہے ہیں، انھیں اس ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا، اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ نہ ہم مخلص عوام ہیں نہ ہمارے حکمران ہمارے اور اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں۔ ہم ہر آزمائے ہوئے کو اس امید پر آزماتے ہیں کہ شاید اب انھیں ہدایت آ گئی ہو، مگرکوئی کرے بھی تو کیا؟ اس ملک کو بیچ کھانے میں سب شریک ہیں، حمام میں ایک ننگا کسی دوسرے کی طرف دیکھ کر ٹھٹھا نہیں لگاتا۔ موجودہ حکومت جسے ہم بڑے ارمانوں سے لائے تھے، اس امید پر کہ ’’ہم دیکھیں گے… وہ وقت کہ جس کا وعدہ ہے‘‘ مگر اب ہم شمار کیے جا رہے ہیں، ایک ماہ کی کارکردگی… صفر، دو ماہ… صفر، سودن… صفر!!! صرف کارکردگی صفر ہے ورنہ جرائم، دہشت گردی، مہنگائی… یہ سب تو اتنے عرصے میں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ کتنی جلدہ وقت آگیا ہے کہ سو دن پہلے تک مطعون حکمرانوں کے قصیدے زبان زد عام ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں سے لوگوں کو امیدیں بہت تھیں …سابقہ تو امیدوں کی کسی فہرست میں تھے ہی نہیں…

حلقہء احباب میں جانے کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے پورے پورے خاندانوں سمیت ’’ہجرت‘‘ کر چکے ہیں کہ اس ملک کی زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی، ملازمت یا کاروبار کے مواقع ناپید تھے… وہ خود کواس ملک میں ’’ان فٹ‘‘ بلکہ اس ملک کو اپنے لیے ’’ان فٹ‘‘ سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔ بہت سوں نے دوسرے ممالک کی شہریت کے لیے اپنی دستاویزات جمع کروا رکھی ہیں، متعدد نے اپنی سرکاری ملازمتوں کے با وصف دوسرے ملکوں کی خفیہ شہریت حاصل کر رکھی ہے، ان ملکوں میں ان کے کاروبار ہیں، خزانے ہیں… اس فہرست میں تو کئی صاحبان اقتدار ’’پردہ نشینوں‘‘ کے نام بھی ہیں۔ سب نے اس ملک کو بیچ کر بھاگنے کے لیے اپنا کاروبار، سرمایہ، خاندان اور اپنے مفادات دوسرے ملکوں میں محفوط کر رکھے ہیں۔ جانے کیوں کسی وقت سوچ آتی ہے کہ کیا ہم لوگ بے وقوف ہیں جو کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کوشس نہیں کر رہے؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ ہی تجویز کریں کہ ہمیں کس ملک کے لیے کوشش کرنی چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔