کڑوی گولی کھانا پڑے گی

رئیس فاطمہ  ہفتہ 5 اکتوبر 2013

ہمیشہ کڑوی گولی عوام کو کیوں کھانا پڑتی ہے؟ حزب اختلاف جس کو گزشتہ پانچ سال میں ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا نیا نام عطا کیا گیا تھا تاکہ وہ آئندہ آنیوالے برسوں میں دوستانہ اور مربیانہ اندازروا رکھے اور وہ قرض اتارے جو اس پر واجب تھے اور اس نے بخوبی یہ کردار ادا کیا لیکن وقفے وقفے سے فرینڈلی اپوزیشن بیانات کے جھٹکے دیتی رہتی تھی۔ کبھی چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا لالی پاپ اور کبھی مہنگائی کے جن کو قابو میں رکھنے اور بوتل میں بند کرنے کی احمقانہ اور بچکانہ باتیں لیکن اقتدارکا تاج سر پر رکھتے ہی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ شاید گرگٹ بھی اتنی تیزی سے اپنا رنگ نہیں بدلتا، جتنی برق رفتاری سے سیاستدان اور حکمران اپنے بیانات بدلتے ہیں اور اس پر انھیں کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے پاس ہر موقع کا جواب لکھا ہوا موجود ہوتاہے۔ باقاعدہ ایک ٹیم ان کاموں کے لیے موجود ہوتی ہے جو حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں کے لیے بیک وقت کام کرتی ہے۔

الگ الگ پیشے کے مرتبانوں میں مختلف نوعیت کے بیانات تیار رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ڈاکٹر کے کلینک میں الگ الگ مرتبانوں میں مختلف امراض کی گولیاں رکھی ہوتی ہیں۔ ہمارے وزراء اور دیگر کو مرتبان سے پرچی نکالنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ کیونکہ یہ کام ان کے سیکریٹری کرتے ہیں یا پھر پی۔ آر۔ او،  … اسی لیے بعض اوقات بڑے مضحکہ خیز دعوے جو بعد میں خاصی رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس لیے کہ اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی ان کا رابطہ عوام سے یکسر ٹوٹ جاتاہے۔ وہ صرف دو بیانات یاد رکھتے ہیں … نمبر ایک۔ ’’ہمارے پاس کوئی جادوئی چراغ نہیں ہے جو برسوں کی گند مہینوں میں صاف کردیں‘‘۔ اور دوم ’’مجبوری ہے۔ قیمتیں بڑھانا پڑیںگی … عوام کو کڑوی گولی کھانی پڑے گی۔‘‘ سارا پچھلا منظر نامہ دیکھ لیجیے اور چند دن پہلے کے اخبارات دیکھ لیجیے، یہی بیانات ملیںگے۔ پہلے یہ بیانات پی پی حکومت دیتی تھی، آج (ن) لیگ کی حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار کا کھیل میوزیکل چیئرکا کھیل ہے لیکن مجھے اس سے مکمل طورپر اتفاق نہیں ہے کیونکہ میوزیکل چیئر میں آخر میں کون گیم سے باہر ہوگا یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا اور آخر میں کون ونر (WINNER) ہوگا یہ بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا لیکن ایک اور گیم ہے جسے SEE,SAW کہتے ہیں۔ وہی جس سے سب ہی بچپن میں واقف تھے۔ ایک لوہے کے بار پر ایک لکڑی کا تختہ۔ جس کے دونوں طرف آہنی راڈ لگی ہوتی ہے۔ تاکہ جھولا جھولنے والے نیچے نہ گر جائیں … پاکستان میں در اصل یہی جھولا اقتدار کے ایوانوں میں لگادیا گیا ہے۔ جھولے کے دونوں طرف بیٹھنے والے کھلاڑیوں کو پتہ ہوتاہے کہ کس کو کب اوپر جانے کا اشارہ ملے گا اور کس کے مقدر میں زمین سے لگنا لکھاہے۔ زمین سے لگنے والے اپوزیشن کا روپ دھار کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، یہی کھیل برسوں سے جاری ہے۔ ’’جمہوریت تمام دکھوں کا علاج ہے اور پاکستانی عوام کی قسمت بدلنے والی ہے، ایک نیا سویرا طلوع ہونے والا ہے‘‘ … واقعی سچ ہی کہا تھا نیا سویرا مہنگائی، ڈالر کے ریٹ بڑھنے، گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہوچکا ہے۔

اب ہر گھر میں مہنگائی کا ماتم ہے … لیکن ہمارے حکمرانوں کو سوائے اس جملے کے کوئی دوسرا جملہ ابھی یاد نہیں ہوا کہ ’’عوام کو مہنگائی کی کڑوی گولی نگلنی ہوگی‘‘ آخر کب تک عوام یہ کڑوی گولیاں نگلتے رہیںگے۔ حکمرانوں کی عیاشیوں اور پرتعیش زندگیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا، خواہ پٹرول مہنگا ہو یا ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ جائے۔ ان کے دسترخوانوں پر انواع واقسام کی ڈشیں بدستور موجود رہتی ہیں۔ ایک کمپنی سے چار کمپنیاں، ایک مل سے بائیس مل بنانا اب معمولی بات ہے۔ حکمران پر آسائش محلات، لندن، پیرس، نیو یارک اور سوئٹزر لینڈ میں خریدتے رہیںگے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر اس کے وجود سے انکاری رہیں اور اس کثرت اور تواتر کے ساتھ جھوٹ بولیں کہ وہ سچ لگنے لگے۔ اور جب اقتدار کے غبارے میں سے ہوا نکل جائے تو مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ تمام حقائق کو ’’اگنور‘‘ کردیں کہ سیاست کا پہلا سبق یہی ہے کہ اس کثرت اور اعتماد کے ساتھ جھوٹ بولو کہ لوگ اس کو سچ سمجھنے لگیں‘‘ لیکن کہیں نہ کہیں کوئی سقراط اب بھی موجود ہے، جو سچ بیان کرنے کی کوشش میں جان کی بازی ہار کر امر ہوجاتاہے … لیکن افسوس کہ سلیم شہزاد کے بعد یہ کہانی یہیں ختم ہوجاتی ہے … جھوٹ کی سیاست زوروں پر ہے۔

عوام کو اقتدار کے شکنجے میں کس کر ان کا خون چوسا جارہا ہے۔ عوام کب تک یہ کڑوی گولیاں نگلتے رہیںگے …؟ کیا آپ کی عیاشیاں کچھ کم نہیں ہوسکتیں؟ اسمبلیوں میں منتخب ہونے والے کس بات کا ماہانہ بھتہ لیتے ہیں … ہاں میں اسے بھتہ ہی کہوںگی، کیوںکہ جو پیسہ بغیر کام کیے، بغیر محنت کیے حاصل کیاجائے وہ بھتہ ہی کہلائے گا … ہمارے وزیراعظم کی معصومیت ملاحظہ کیجیے کہ وہ ہم سب سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’یہ دہشت گرد کون تھے‘‘ … جب ملک کی اہم ترین شخصیت کا یہ حال ہو کہ وہ اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ سے بے خبر اور انجان ہو تو پھر یہ تو کہنا پڑے گا کہ … حکومت کی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت کہیں ہے ہی نہیں۔ اگر کسی کو کہیں نظر آجائے تو ہمیں بھی با خبر کرے۔

جہاں لوگ کیڑوں مکوڑوں کی طرح روز مررہے ہوں، جہاں ننھی ننھی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے آزادانہ گھوم رہے ہوں۔ کیا اس ملک میں حکومت کی رٹ قائم ہے۔ جہاں پولیس والے خود بھتہ خور بن جائیں۔ کیا وہاں حکومت کی رٹ قائم ہے۔ جہاں ذاتی اور سیاسی مخالفتوں کی بناء پر زبان، مذہب اور فرقوں کو بنیاد بناکر معصوم اور بے گناہ لوگوں کو جیلوں میں بند کردیا جائے۔ کیا وہاں حکومت کی رٹ موجود ہے۔ جہاں ایک معمولی چھابڑی والے سے لے کر مہنگے ترین علاقوں کے کاروباری جب چاہیں من مانی قیمتیں بڑھادیں اور کوئی انھیں چیلنج نہ کرسکے، کیا وہاں حکومت موجود ہے۔ جہاں جعلی دوائوں کا کاروبار کرنے والے جبوں اور عماموں کی سیاست کرنے لگیں اور جسے چاہیں کافر قرار دے کر واجب القتل قرار دے دیں۔ اور حکومت صرف تماشائی بنی دیکھتی رہے۔ کیا وہاں حکومت کی رٹ موجود ہے؟ جس ملک میں استاد دو کوڑی کا سمجھا جائے، ادیب بے توقیر ہو۔

سچ تو صرف یہ ہے کہ ’’پیسہ بولتاہے‘‘ ایک چور، ڈاکو، اسمگلر، قبضہ مافیا اور بھتہ مافیا باعزت ہیں۔ وہ زمانے گئے جب نوجوان نسل آئن اسٹائن، برٹینڈرسل، سرسید اور جناح کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے۔ آج کی نسل تو ان بڑے لوگوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ اور بھلا کیونکر ہوںگے۔ جس ملک میں جعلی ڈگری ہولڈر اسمبلیوں کے ممبر ہوں۔ جہاں اعلیٰ ترین امتحانوں میں باقاعدہ کھلے عام نقل کروائی جارہی ہو، جہاں امتحان شروع ہونے سے پہلے پرچہ آئوٹ ہوجانا معمول کی بات ہو، کیا تب بھی آپ کہیںگے کہ حکومت کی رٹ قائم ہے …؟ … بے شک ہمارے ایک صدر، وزیراعظم اور اسمبلیاں موجود ہیں، لیکن فعال و متحرک حکومت نام کی کوئی شے سرے سے موجود نہیں ہے۔ جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ جعلی ڈگری کو جائز قرار دے تو پھر تو بات ہی ختم ہوجاتی ہے … پھر بھی آپ کو اصرار ہے کہ حکومت کی رٹ موجود ہے … ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ والا معاملہ ہے… کاش (ن) لیگ اپنی صفوں میں سے ان بے ایمان اور جھوٹے لوگوں کا صفایا کردیتی جو جعلی ڈگری اور جعلی سرٹیفکیٹ کے حامل ہیں … کاش وزیراعظم ان تمام لوگوں کا قلع قمع کروادیں جو جعلی ڈگری کی بدولت اعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہیں۔

کیا ایسا کوئی جرأت مندانہ قدم اٹھا پائیںگے۔ ہمارے وزیراعظم … اگر واقعی ایسا کیا تو ہم کہیں کہ حکومت کی رٹ موجود ہے … لیکن ایسا ہوگا نہیں کیوںکہ جس ملک میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل در آمد نہ کیا جاتاہو۔ جہاں لوگوں کو گھروں سے اٹھاکر ہمیشہ کے لیے غائب کردیا جاتاہو۔ کیا وہاں کہیں حکومتی رٹ نظر آتی ہے … یہ تو دیوانے کا خواب ہے۔ کیوںکہ پاکستان صرف چوروں، اچکوں، بھتہ خوروں، قبضہ گروپ اور دو نمبر کے کاروباری گروپوں کے لیے بنا ہے۔ اور کسی حکومت میں یہ مجال نہیں کہ ان کے خلاف کوئی ایکشن لے اس کے پاس تو تمام عذابوں سے نجات کا ایک ہی علاج ہے۔ ’’عوام کو کڑی گولی کھانی ہوگی۔ مہنگائی تو بڑھے گی‘‘ … خدا خوش رکھے حکمرانوں کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔