- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
ڈملوٹی: ڈیڑھ سو سال قدیم فراہمی آب کا نظام تباہ وبرباد ہوچکا
کراچی: کراچی کے لیے انگریزوں کے دور کا پہلا فراہمی آب کا نظام اور تعمیرات کا تاریخی ورثہ سندھ حکومت، واٹر بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال قبل ڈملوٹی کے مقام پر کنویں تعمیر کراکے کراچی شہر کو پانی کی فراہمی ممکن بنائی تھی،15کنویں زمانے کی دست برد کا شکار ہوگئے اور کراچی کو ان کنوؤں سے پانی کی فراہمی کئی سالوں سے منقطع ہے، صرف ایک کنواں قائم ہے جس 5لاکھ گیلن یومیہ پانی گڈاپ کے مقامی علاقے میں فراہم کیا جارہا ہے، ڈملوٹی سے لائنرایریا تک فراہمی آب کا قدیم کنڈیوٹ سسٹم ابھی تک برقرار ہے۔
کینجھر جھیل سے ملنے والا پانی اس کنڈیوٹ سسٹم میں ڈال کر کراچی شہر کو فراہم کیا جارہا ہے، پولیس اور سیاسی بارسوخ افراد کی سرپرستی میں ریتی بجری مافیا نے ملیر ندی کے اطراف سے ریتی بجری اٹھاکر نہ صرف فراہمی آب کے قدیم انفرااسٹرکچر کو تباہ بلکہ ماحول دشمن اس مجرمانہ کارروائی کی بدولت زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر کو بھی نقصان پہنچایا۔
زیر زمین پانی کا لیول نیچے چلا گیا اور کھارا پانی شامل ہونے کی وجہ سے یہ پانی کافی عرصے تک ناقابل استعمال رہا، حالیہ بارشوں سے ملیر ندی کے اطراف زیر زمین پانی کا لیول اونچا ہوگیا ہے اور ملیر و گڈاپ کے کاشت کار کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے اپنی زرعی اراضی کو سیراب کررہے ہیں جبکہ زیر زمین پانی میں موجود کھارا پن بھی ختم ہوگیا ہے، ایسے میں اگر ڈملوٹی کے کنوؤں کو ری چارج کردیا جائے اور دیگر ضروری تعمیرات مکمل کرلی جائیں تو اس نظام کے ذریعے کراچی کو 15سے 20ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے، واٹر بورڈ کی جانب سے اس منصوبے کی منظوری کے لیے7سال سے کوششیں کی جارہی ہیں تاہم سندھ حکومت کی جانب سے منظوری نہ ملنے کے باعث کراچی کے شہری قدیم نظام کے ذریعے پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔
واضح رہے کہ انگریزوں کے تعمیر کردہ اس نظام کے ذریعے کراچی کو 1970تک 20 ایم جی ڈی پانی فراہم ہوتا رہا اور بتدریج اس میں کمی آتی گئی اور کئی سال سے ان کنوؤں سے پانی کی فراہمی صفر ہے۔ پہلے فیز میں انگریزوں نے1881میں ڈملوٹی کے مقام پر ملیر ندی کے قریب کھدائی کرکے کنویں تعمیر کیے جس کے تحت کراچی کینٹ تک 50لاکھ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جانے لگا، دوسرا فیز 1923 میں تعمیر کیا گیا جس کے تحت نئے کنویں کھدوائے گئے اور ان کے ذریعے 15ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جانے لگا۔
اس طرح ڈملوٹی کے مقام سے کراچی کے لیے مجموعی طور پر 16 کنوؤں سے 20ایم جی ڈی پانی کی فراہمی ہونے لگی، ان کنوؤں سے پانی کی فراہمی کے لیے ڈملوٹی سے کراچی تک 32کلومیٹر طویل کنڈیوٹ بھی تعمیر کی جسے ڈملوٹی کنڈیوٹ سسٹم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ پختہ تعمیرات آج بھی برقرار ہے اور اپنی نوعیت کا تاریخی ورثہ ہے جس کے ذریعے آج بھی پانی کی فراہمی کی جارہی ہے، قدیم کنڈیوٹ سسٹم ڈملوٹی سے ملیر کینٹ، صفورا چورنگی، کراچی یونیورسٹی، گلشن بلاک 6، نیپا چورنگی، عزیز بھٹی پارک، مشرق سینٹر، الھلال سوسائٹی، پرانی سبزی منڈی ، کشمیر روڈ اور لائنزایریا تک قائم ہے اور اس سسٹم کے ذریعے کینجھر جھیل سے 15 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔