پہاڑ چاروں جانب یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہو

محمد صدیق پراچہ  اتوار 6 اکتوبر 2019
سی پیک کے باعث دینور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، گلگت میں گزرے ماہ و سال کا دلچسپ احوال

سی پیک کے باعث دینور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے، گلگت میں گزرے ماہ و سال کا دلچسپ احوال

( قسط نمبر 2)

ائر پورٹ کی پرانی عمارت میں اب محکمہ موسمیات اور پاک فضائیہ کے دفاتر ہیں۔طیارہ گلگت ائرپورٹ پر اُترا۔رفتار کم ہوئی تو رن وے کے دوسرے سرے سے مڑ کر عمارت کی طرف لے جایا گیا۔ جہاز رُکا،اور مسافروں نے اُترنا شروع کیا۔ میں نے جب طیارے سے باہر سیڑھی پہ قدم رکھا تو سرد ہوا کا ایک تھپیڑے نے استقبال کیا۔

میں نے گرم کپڑے اور اوپر چترالی چغہ پہن رکھا تھا، اس لئے زیادہ ناگوار محسوس نہ ہوا۔ ائرپورٹ کے گرد  ایک دائرے کی صورت پہاڑ کچھ یوں سر اُٹھائے کھڑے ہیں جیسے انہوں نے گلگت کا محاصرہ کر رکھا ہو۔ فروری کے ابتدائی دن ہونے کے باعث زیادہ تر درختوں کے پتے گر چکے تھے۔خزاں اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ چھائی ہوئی تھی۔ پہاڑوں کے دامن میں بہتا نیلگوں دریائے گلگت، جس کی ایک جھلک طیارے کے اُترتے وقت نظر آئی تھی اب آنکھوں سے اوجھل کہیں گہرائی میں بہہ رہا تھا۔

مجھے لینے کے لئے دفتر کی گاڑی کے علاوہ رحمت علی انجنیئر نگ منیجر، شیر محمد نیوز ایڈیٹر اور شاہ زمان اکاؤنٹنٹ اپنی گاڑیوں پر موجود تھے۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کہ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کرنے والے اپنی گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔کیونکہ اس ’اشکِ بلبل‘ جتنی تنخواہ میں تو مہینہ گذارنا دوبھر ہوتا ہے،کجا یہ کہ نئے ماڈل کی جاپانی گاڑیاں زیر استعمال ہوں۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسٹم ڈیوٹی ادا کئے بغیر بہترین جاپانی گاڑیاں سستے داموں    بٹ خیلہ، سوات، بشام اور دیر سے خرید سکتے ہیں۔چترال ، گلگت،غذر، چلاس،ہنزہ، نگر،استور ، سکردو ،گھانچے اور شگر میںچلنے والی اسی فیصد سے زیادہ کاریں، جیپیںاور دیگر گاڑیاں نان کسٹم پیڈ ہیں۔عام متوسط طبقے کے لوگ دو اڑھائی لاکھ روپے میں جبکہ زیادہ خوشحال لوگ مہنگی لینڈ کروزرگاڑیاں خرید لیتے ہیں۔ ائر پورٹ سے نکل کر ہم لوگ ریڈیو اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئے جو گلگت چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں واقع ہے۔ریڈیو اسٹیشن  پہنچ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

عمارت نہایت مناسب محل و وقوع پر ایستادہ ہے اور اس کی تعمیر بھی اچھے انداز میں کی گئی ہے۔اس سے پہلے میں جن اسٹیشنوں پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے چکا تھا۔اُن میں سکردو، پشاور،راولپنڈی، تراڑکھل، ژوب، چترال، بنوں اور کوہاٹ شامل ہیں۔ ان میں سے کوہاٹ اور بنوں کے اسٹیشنوں کی عمارتوں کا ذکر کرنا تو لایعنی ہے کیونکہ ان دونوں اسٹیشنوں کا عملہ گذشتہ گیارہ برس سے اپنی عمارتوں سے محروم کرایے کے مکانوں میں دھکے کھا رہا ہے۔اس عرصہ میں دودو بار عمارتیں تبدیل کی جا چکی ہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ انجینئرنگ سیکشن والے کرائے کے ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقل ہونے پر کم از کم دس لاکھ روپے خرچ کرواتے ہیں۔

یہ ضائع ہوجانے والی رقم ہر پانچ سات برس بعد ریڈیو انتظامیہ بخوشی مہیا کر دیتی ہے لیکن اپنی زمین خریدنے اور اُس پر عمارت تعمیر کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔کرائے کی عمارتوں میں چلنے والے ریڈیو اسٹیشن کوہاٹ اور بنوں کے علاوہ سرگودھا، سیالکوٹ، مٹھی، بھٹ شاہ اور میانوالی میں بھی ہیں۔جن کے کرایے کی ادائیگی پر ہر سال لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔

جن مقامات پر ریڈیو پاکستان نے اپنی زمین خرید کر سٹیشن تعمیر کئے ان میں سے چترال سٹیشن شہر کے سب سے نچلے مقام پر واقع ہے جہاں نصب ٹرانسمیٹر کی آواز دو تین کلو میٹر کے دائرے سے آگے نہیں جاتی تھی۔ ژوب اسٹیشن کی عمارت بہت اچھی بنی تھی تو دیکھ بھال کے لئے فنڈز مہیا نہ کئے جانے کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہی صورت حال دیگر سٹیشنوں کی بھی ہے۔خیر اس جملہ معترضہ کی معذرت کئے بغیر میں دوبارہ گلگت کی طرف آتا ہوں جہاں سٹیشن تعمیر کرنے کی غرض سے 1980 ء کے عشرے میں بارہ کنال رقبہ خریدا گیا تھا۔ جوٹیال کے علاقے میں یہ سٹیشن گلگت شہر کے بلند ترین مقام پر بنایا گیا ہے۔

اس میں تین اسٹوڈیوز، لائبریری، عملے کے دفاتر، کنٹرول روم، جنریٹر روم ،سٹور، پولیس بارک اور دو وسیع چمن ہیں۔ ریڈیوپاکستان گلگت کا آغاز دنیور کے علاقے میں چونتیس کنال رقبہ خرید کر کیا گیا تھا۔اُس وقت250 واٹ طاقت کا ایک چھوٹا سا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا جس کی نشریات صرف پانچ کلومیٹر کے دائرے میں واقع گلگت وادی میں سنی جا سکتی تھیں۔ 1950 ء کے عشرے میں یہ ٹرانسمیٹر آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ میں ویلج براڈکاسٹ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نصب کئے گئے تھے۔

اُن ممالک کی یہ ضرورت پوری ہوئی تو یہ ٹرانسمیٹر تھوک کے حساب سے ریڈیو پاکستان کے سر تھوپ دیئے گئے۔  ملتان،ایبٹ آباد، سکردو، گلگت، فیصل آباد اور کئی دیگرسٹیشنوں کے ابتدائی دنوں میں لگائے گئے یہ ننھے منے ٹرانسمیٹر اب تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ لیکن چترال کے لوگوںکی قسمت میں اب تک یہی ٹرانسمیٹر لکھا ہوا ہے۔

جس کے نہ تو پرزے ملتے اور بنتے ہیں اور نہ ہی اس وقت ریڈیوپاکستان میں اسے ٹھیک کرنے والا کوئی پیشہ ور انجینئر باقی رہا  ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس کی آواز براڈکاسٹنگ ہاؤس سے باہر نہیں جاتی۔ 2006 ء میں چترال میں نصب ہونے والا ایف ایم ٹرانسمیٹر اپنی زندگی کی آخری سانس لے چکا ہے اور بکر آباد چترال میں اس کی تنصیب کے لئے لی گئی کرائے کی عمارت  خالی کی جا چکی ہے۔

( 2015 ء میں طوفانی بارشوں اورسیلاب کے بعد ریڈیوپاکستان صدردفتر نے چترال شہر میں ایک عمارت کرایہ پر لے کر اُس میں ایف ایم کا ٹرانسمیٹر نصب کرکے ریڈیوپاکستان چترال کی نشریات بحال کر دی ہیں)گلگت دنیور کا یہ پرانا اسٹیشن،  جسے  Low Power Transmitter کہتے ہیں اورجہاں اب دس کلو واٹ طاقت کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر نصب ہے، شاہراہ قراقرم کے کنارے واقع ہے۔یہاں 1979 ء میں خاردار تار کے ذریعے اس احاطے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

سنتیس برس گذرنے پر اب یہ خار دار تار جگہ جگہ سے منہدم ہوچکی ہے ۔ گلگت شہر اور دینور کے سینکڑوں کتے ایل پی ٹی کے احاطے میں براجمان ہیں۔ اکثر و بیشتر عملہ کے لوگ بھی ان کے حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔شاہراہ قراقرم پر واقع ہونے کی وجہ سے دینور میں ہمارے اس اسٹیشن کے دائیں بائیں ہر طرف بڑے بڑے شاپنگ سنٹر بن چکے ہیں۔

سی پیک کی تعمیر کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ چین کی مختلف کمپنیاں اور اُن کا عملہ گلگت پہنچ چکا ہے اور دینور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ پاکستان بھر کی طرح گلگت میں بھی قبضہ مافیا موجود ہے اور اپنے وجودکا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ہمارے ایل پی ٹی کا محل و وقوع بہت اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ قبضہ مافیا اس قیمتی رقبے پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے میں نے صورت حال کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد طریقہ کار کے مطابق محکمہ تعمیرات گلگت  بلتستان سے ایل پی ٹی کے اردگرد چہار دیواری کی تعمیر کا تخمینہ حاصل کیا۔ چاردیواری کی تعمیر پر محکمہ پی ڈبلیو ڈی گلگت بلتستان نے اُنچاس لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا تھا۔

میں نے ایل پی ٹی میں شاہراہ قراقرم کے کنارے چوالیس دکانوں پر مشتمل سی پیک شاپنگ سنٹر کے نام سے ایک تعمیراتی منصوبہ تیار کرکے ارباب اختیار کو ارسال کر رکھا ہے جس کی تعمیر کے لئے ریڈیوپاکستان کو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ ہر دکان کے دو برس کے کرایے کی رقم بطور ایڈوانس کرایہ داروں سے وصول کرکے نہ صرف یہ شاپنگ پلازہ تعمیر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس رقم سے چار دیواری بھی تعمیر ہو جائے گی اور ریڈیو پاکستان کوکم از کم پانچ لاکھ روپے ماہانہ کرایہ کی مد میں وصول ہوں گے۔معلوم کرنے پر پتہ چلا ہے کہ یہ منصوبہ ارباب اختیار کو پسند تو آیا ہے لیکن اسے سرد خانے میں ڈال دیا  گیا ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟۔

دینور میں چونکہ عید گاہ کے لئے کوئی جگہ مختص نہیں اس لئے ضلعی انتظامیہ مقامی آبادی کے مطالبے پر پچھلے چند برس سے یہ وطیرہ اپنائے ہوئے ہے کہ عیدین کے مواقع پر ریڈیوپاکستان گلگت کے اس دفتر کی خاردار تار کو بلڈوز کرکے ٹرانسمیٹر کے انٹینا کے عین نیچے شامیانہ لگا کر نماز عید کے لئے جگہ بنا دیتی ہے اور اپنے اس اقدام کے بارے میں سٹیشن ڈائریکٹر کو محض ایک خط اطلاع دینے کے لئے لکھ دیتی ہے۔

دینور کی عید گاہ کے لئے مجوزہ جگہ علاقے کے عوام کے لئے بقول شخصے دور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ۔سوچنے کی با ت یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی ،ایک اہم قومی ادارے کی حساس تنصیبات کو یوں داؤ پر لگانا کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔

دینور میں بنا پہلا اسٹیشن گلگت شہر سے تیرہ کلو میٹر دور دریا پارواقع ہے۔ پروگراموں میں حصہ لینے والے فنکاروں اور دیگر افراد کو آنے جانے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا اس لئے جب نیا براڈکاسٹنگ  ہاؤس بنانے کا فیصلہ کیاگیا تو اس مقصد کے لئے گلگت  چھاؤنی کے علاقے جوٹیال میں زمین خریدی گئی۔ گلگت لاری اڈا جوٹیال میں منتقل ہونے کے بعد اس علاقے میں تعمیرات کا آغاز ہوا۔ ریڈیو پاکستان کا سٹیشن بننے کے بعد رفتہ رفتہ یہاں عدالت عالیہ،سکریٹریٹ، سرینا ہوٹل تعمیر ہوا اور کئی دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے اپنے دفاتر تعمیر کئے۔اب یہ علاقہ گلگت کا سب سے مہنگا اورآباد علاقہ بن چکا ہے۔

جہاں زمین کی عمومی قیمت کم و بیش ایک سے دوکروڑ روپے فی کنال ہے۔ گلگت شہر سے چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باوجود اسٹیشن کے اردگرد کا ماحول شہر جیسا ہے۔جدید شاپنگ سنٹر، کھانے پینے کی دکانیں گلگت لاری اڈے تک پھیل چکی ہیں جو ریڈیو پاکستان گلگت سے مزید ڈیڑھ دو کلو میٹر آگے شاہراہ قراقرم پر واقع ہے۔گلگت شہر کا ایک حصہ دریائے گلگت سے اُس پار واقع ہے۔ دینور کی یہ آبادی شہر سے دریا پر بنے ہوئے دو پلوں کے ذریعے منسلک ہے۔جبکہ ایک پل زیر تعمیر تھا ( یہ پُل 2016 ء کے اواخر میں مکمل ہو گیا تھا) جس کی اونچائی کچھ زیادہ نہیں اور گرمیوں میں دریا کی سطح عمومی طور پر اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ پل مکمل ہونے  کے بعد زیادہ عرصہ چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ بہرحال اگر اس زیر تعمیر پل کی بدولت کچھ لوگوں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہو چکا ہے تو یہ الگ بات ہے؟۔

ریڈیو اسٹیشن کے پیچھے بیچلر ہاسٹل تعمیر کیا گیا ہے جس میں چوبیس کمرے ہیں۔ اس ہاسٹل کا ر استہ براڈکاسٹنگ  ہاؤس کے ساتھ اوپر جوٹیال کی آبادی کی طرف جانے والی گلی میں ہے۔

چونکہ پی آئی اے کی پرواز پر بیس کلو گرام کے ایک اٹیچی کیس کے علاوہ ایک ہینڈ بیگ کی اجازت ہے۔ اس سے زائد سامان کے ہر  نگ پر تین ہزار روپے بطور کرایہ دینا پڑتا ہے اس لئے میں نے اپنا زیادہ تر سامان نیٹکو کی بس سروس کے ذریعے گلگت بھجوا دیا تھا ۔میرا سامان پہنچ چکا تھا اور میرے کمرے میں لگا دیا گیا تھا۔ گذشتہ تیس برس کے دوران یعنی 1985 ء سے دسمبر2014 ء تک یہاں تعینات ہونے والے تمام اسٹیشن ڈائریکٹر مقامی تھے اور اس بیچلر ہاسٹل میں ٹھہرنے پر مجبور نہ تھے۔ اس لئے مجھے صرف بھائیں بھائیں کرتاخالی کمرہ اور صرف ایک پلنگ ملا۔ وہ بھی سکردو سے تعلق رکھنے والے اسٹیشن ڈائریکٹر غلام حسین کی دُوراندیشی کا نتیجہ تھا کہ ایک کمرے کو مہمانوں کے لئے تیار کیا گیا تھا اور یہ پلنگ اس میں موجود تھا۔ سامان دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دفتر کا رخ کیا جہاں اسٹیشن کے تمام شعبوں کے سربراہ اور یونین کے عہدیدار میرے منتظر تھے۔

ان میں سے صرف شاہ زمان سے میری آشنائی تھی۔ وہ کچھ عرصہ صدر دفتر اسلام آباد میں تعینات رہا تھا۔ اور اب میرے پرسنل اسسٹنٹ اور اکاؤنٹس آفیسر کی دُہری ذمہ داریاں نبھا رہا  ہے۔ (ریڈیو پاکستان گلگت میں اکاؤنٹس کے شعبے میں تعینات جعفر علی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوچکے ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں سے اکاؤنٹس کا کوئی افسر یہاں آنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کے شعبہ اکاؤنٹس میں ایک عرصہ سے آسامیاں پُر نہیں کی گئیں اور پورے ملک میں اکاؤنٹس کے عملے کی شدید قلت ہے۔ ) باقی سب لوگوں سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں نے تعارف کے بعد مختصر سی گفتگو کی اور اُن سے کہاکہ مجھے کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں لانا صرف اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور اس سلسلے میں ہم سب نے مل جل کر کام کرنا ہے۔ تاکہ اس دور افتادہ سٹیشن کی کارکردگی کسی بھی بڑے اسٹیشن سے کم تر نہ ہو۔ چونکہ ریڈیو پاکستان گلگت کی سالگرہ دو اپریل کو منائی جاتی ہے اس لئے میں انہیں اس حوالے سے ایک شایان شان تقریب کا اہتمام کرنے کے لئے بھی کہا اور اس سلسلے میں سب کی ذمہ داریوں کا تعین کردیا۔

ریڈیو پاکستان گلگت پہنچنے کے بعد سب سے زیادہ تلخ تجربہ بجلی کی طویل بندش کی صورت میں جھیلنا پڑا۔ برف پوش پہاڑوں، گنگناتے ندی نالوں، رواں دواں چشموں، وسیع ترین گلیشیروں اوردرجنوں چھوٹے بڑے دریاؤں کی قدرتی دولت سے مالا مال گلگت سردیوں میں چوبیس گھنٹوں میں بیس سے بایئس گھنٹے بجلی سے محروم رہتا ہے۔معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ سردیوں میں ندی نالوں میں پانی کم ہو جانے کی وجہ سے بجلی کم بنتی ہے۔ آبادی بہت زیادہ ہو چکی ہے اور گذشتہ بیس برس سے کوئی نیا پن بجلی گھر نہیں لگایا گیا۔(2016-17 میں چین کی مدد سے نلتر کے علاقے میں سولہ اور اٹھارہ میگا واٹ کے دو بجلی گھر تعمیر کئے گئے ہیں۔جن سے بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے اور گلگت میں صورت حال خاصی بدل چکی ہے لیکن سردیوں میں اور سیلاب کے دنوں میں مسئلہ بہرحال اپنی جگہ رہتا ہے)

دوسرا تلخ تجربہ یہ ہوا کہ گلگت میں درجن بھر مقامی روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ ان اخبارات نے کارٹل بنا کر پاکستان کے دیگر علاقوں میں چھپنے والے اخبارات کی گلگت آمد پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ اب کسی کو کوئی اخبار پڑھنا ہو یا میری طرح روزانہ چار پانچ اخبارات پڑھنے کی عادت ہو تو اُس کے لئے گلگت میں رہنا ایک بہت بڑی سزا سے کم نہیں کیو نکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے انٹر نیٹ پر بھی مطلوبہ اخبار کھولنا اور پڑھنا ناممکن ہے، یہ اور بات ہے کہ بجلی آجانے پر آپ کے اعصاب کی ایک بہت بڑی آزمائش انٹر نیٹ کی سست رفتار کی صورت میں ہوتی ہے۔گلگت  بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولیات سپیشل کیمونیکیشن آرگنائزیشن مہیا کرتی ہے۔

اس کے لائن مین سول ملازمین ہوتے ہیں۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پھرپی ٹی سی ایل کیا بری تھی؟ انٹرنیٹ کے ڈی ایس ایل کنکشن کے نرخ پاکستان کے دیگر علاقوں سے تین گنا زیادہ ہیں۔ چونکہ گلگت آنے والی فائبر آپٹک لائن مظفر آباد سے ہوکر آرہی ہے اس لئے اس میں روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے نقائص کا سدباب کرنا ایس سی او کے بس سے باہر ہے۔

ریڈیوپاکستان گلگت کی نشریات روزانہ دوپہر دو بجے سے شب دس بجے تک ہوتی ہیں۔ اردو کے علاوہ یہاں سے شینا، بروشسکی، کھوار اور واخی زبانوں میں پروگرام اور خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ مجھے خورشید احمد خان، ڈاکٹر شیر دل خان، محمد اسماعیل اور واجد علی، چار اسسٹنٹ پرڈیوسرز کی خدمات میسر تھیں۔    ( 2015 ء میں یہ چاروں پروگرام پروڈیوسر اور 2019 ء میں سینئر پروڈیوسر کے عہدوں پرترقی پا گئے)پروگراموں میں کوئی نیا پن نہیں تھا۔

گھسے پٹے موضوعات ، تھکی ہوئی آوازیں،مسودہ لکھنے اور نشر کرنے سے پہلے منظور کرانے کا سلسلہ متروک ہو چکا تھا۔ پروگراموں میں ڈرامہ، مشاعرہ، واکس پاپ،انٹرویوز شامل نہیں ہوتے تھے اس کے علاوہ بچوں اور طلبہ جیسے خصوصی سامعین کے لئے کوئی پروگرام نہ تھا۔حالاںکہ یہاں قراقرم یونیورسٹی گذشتہ چھ برس سے قائم تھی۔جس میں ہزاروں طلبہ وطالبات زیر تعلیم تھے۔ پروگرام چلتا پھرتا مائیکرو فون کے نام سے تو وہ واقف تھے لیکن کبھی کیا نہیں تھا ۔اسی طرح سے ’’ ریڈیومیلہ ‘‘کرنے کا بھی کوئی رواج نہ تھا۔ مجھے یہ سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا۔

چونکہ گلگت میں بجلی کا بحران نہایت ہی شدید تھا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے گلگت کو بجلی سپلائی کرنے والے نظام کا جائزہ لیا جائے اور اس کے بارے میں تحقیقاتی پروگرام تیار کیا جائے۔ گلگت شہر کو بجلی فراہم کرنے کا نظام کارگاہ نالہ پر بنے ہوئے سات پن بجلی گھروں سے منسلک ہے۔ کارگاہ نالہ اصل میں تین الگ الگ نالوں کی ایک ہی گذرگاہ کا نام ہے۔کارگہ نالہ گلگت شہرکے قریب ترین اور خوبصورت سیر گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس کا یخ بستہ سفید جھاگ اُڑاتا پانی جس زور و شورسے بہتا ہے اُسے دیکھ کر کمزور دل والے ایک بار تو دہل جاتے ہیں۔ یہ نالہ دوپہاڑوں کے درمیان ایک قدرتی درے میں بہتا ہے۔  ایک طرف ٹوٹی پھوٹی پگڈنڈی نما سڑک ہے اور دوسری طرف پہاڑ،یہ اور بات ہے کہ سڑک بھی پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں گھنے جنگل ہوا کرتے تھے۔اب چھدری ہوئی جھاڑیاںاور کہیں کہیں بلند و بالا درخت ہیں۔ایک وقت تھا کہ یہاں مارخور،آئی بیکس،اُڑیال اور مارکوپولوشیپ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ریوڑوں کی صورت گھومتے تھے۔اب یہاں ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔کارگاہ نالے کی روانی ایک خاصے کی چیز ہے۔کیونکہ چھ سات کلو میٹر اوپرسے دریائے گلگت میں شامل ہونے تک کا نالے کا راستہ بہت نشیبی ہے۔

اسی اترائی کے پیش نظر جہاں کہیں کھلی جگہ میسر ہے وہاں پن بجلی گھر بنائے گئے ہیں۔ یہ پن بجلی گھر کم و بیش تیس سے پینتیس برس پہلے تعمیر کئے گئے تھے۔نصف سے لے کر چار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ بجلی گھر صوبائی محکمہ پانی و بجلی کے زیر انتظام ہیں۔کارگہ کی طرف جاتے ہوئے گلگت شہر سے کچھ ہی فاصلے پر بسین گاؤں ہے جہاں پولیس کا ایک تھانہ موجود ہے اور رینجرز کی ایک چوکی بھی قائم ہے۔ میں نے رینجرز کے جوانوں سے بات کرنے کے لئے گاڑی رکوائی۔اُن کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر پر نظر رکھنے کے لئے گلگت شہر کے ہر قابل ذکر مقام کے ساتھ ساتھ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر رینجرز تعینات ہیں۔وہ باقاعدگی سے ریڈیوپاکستان گلگت کی میڈیم ویو نشریات اور ایک نجی ایف ایم چینل کی نشریات سنتے ہیں۔ کارگہ نالے کی طرف مڑنے والی ایک تنگ سی پگڈنڈی نما سڑک کے ساتھ ہی ایک چٹان پر گوتم بدھ کا ایک نقش کھدا ہوا ہے۔

شاہی قلعہ لاہور میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر محمد افضل خان کے مطابق پورے گلگت  بلتستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان میں بدھ مت دور کی اس طرح کی نشانیوں ، تصاویر، بتوں اور نقش و نگارکی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔بدھا کا یہ نقش تیس چالیس فٹ اونچی چٹان پر کس طرح سے کھودا گیا ہوگا۔یہ تو تاریخ دان ہی بتا سکیں گے بہرحال آثارقدیمہ کو محفوظ کرنے اور انہیں سیاحتی دلچسپی کے لئے استعمال کرنے میں ہم پاکستانی دنیا بھر کے مقابلے میں پھسڈی ہیں۔

یہ سڑک کارگہ نالہ کے ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بڑھتی ہے۔اس نالے میں بلکہ پورے گلگت  بلتستان میں 2010 ء میں شدید سیلاب آیا تھا جس کے اثرات کا اندازہ پانچ برس گذر جانے کے باوجود سر بسجود بجلی کے کھمبوں اور سیلاب کی وجہ سے اُدھڑی ہوئی سڑک کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے نالے کی سیلابی کیفیت آشکار ہوتی گئی۔پختہ سڑک کئی مقامات سے گرمیوں کے موسم میں آنے والی طغیانی کی وجہ سے نالہ برد ہو چکی تھی۔

بجلی کے کھمبے سجدہ ریز تھے جبکہ گاڑی کو وہ جھٹکے لگ رہے تھے کہ اچھی بھلی پجیرو جیپ میں بیٹھے ہوئے بھی ہمارے انجر پنجر بُری طرح ہل رہے تھے۔ یاد رہے کہ حکومت نے اس طرح کی قدرتی آفات کے نقصانات کے ازالے کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز مختص کئے ہوتے ہیں۔ جانے وہ کہاں اور کن کن پیٹوں کی نذر ہوئے، بہر حال کچھ اوپر گئے تو کارگہ نالہ پر بنا ہوا پہلا پن بجلی گھر آگیا۔اس کے سامنے محکمہ ماہی پروری کا آزمائشی مچھلی فارم تھا۔ پہلے بجلی گھر  کے اندر گئے تو وہاں دو افراد توے جیسی آہنی چادر پر بجلی کے چھ راڈ جلائے خود کو گرم کر رہے تھے۔

ان میں سے ایک نے فوراً باہر نکل کر موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ وہ صاحب فورمین تھے۔چوکیدار کا کہنا تھا کہ بجلی گھر خراب ہے اس لئے بجلی بن ہی نہیں رہی۔ اندر جھانکا تو زنگ آلود مشینری اُدھڑی ہوئی حالت میں ہمارا منہ چڑا رہی تھی۔ 800کلو واٹ گنجائش رکھنے والا یہ بجلی گھر 1988 ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں آنے والے ضعف کا علاج نہ کیا گیا اور اب عملہ تنخواہ وصول کرنے اور رہی سہی بجلی پر خود کو گرم رکھنے کے لئے آتا ہے۔ اس میں نصب دو مشینوں میں سے ایک خراب تھی اور دوسری بھی اپنی آدھی طاقت سے کام کر رہی تھی کیونکہ اس میں پانی کے آنے اور بجلی بنانے کے بعد اس کی نکاسی کا سارا نظام بیٹھ چکا تھا۔ رستا ہوا پانی سارے فرش پر پھیلا تھا۔ اس میں کام پر متعین لائن مین یا الیکٹریشن کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر یہ مشین چلا رہے ہیں۔ اور گیلے فرش کو دیکھتے ہوئے اُس کی یہ بات غلط بھی نہ تھی۔

یہ اور بات ہے کہ آٹھ سو کلو واٹ بجلی پیدا کرنے والے اس بجلی گھر میں ملازمین کے کمرے میں آہنی توے جیسا جو خودساختہ ہیٹر لگا ہوا تھا۔اُ س پر نصب راڈ ز کی تعداد دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہ تھا کہ یہاں پیدا ہونے والی بجلی کا چوتھائی حصہ تو  یہیں ان ملازمین کو گرم رکھنے اور ان کی چائے کھانا پکانے میں خرچ ہو رہا ہے۔پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ مشینیں عرصہ دراز سے اسی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔انہیں ٹھیک کرانے یا انہیں تبدیل کرنے کے لئے آنے والے فنڈز متعلقہ حکام کے اوپر کے اخراجات میں صرف ہو جاتے ہیں ۔ اس بجلی گھر کے سامنے ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کا ایک سرکاری فارم تھا۔ اس کے اندر گئے تو جلال خان نامی ایک بوڑھے چوکیدار سے ملاقات ہوئی۔ تالابوں میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف جسامت کی ٹراؤٹ مچھلیاں تیر رہی تھیں۔جلال خان نے بتایا کہ ٹراؤٹ مچھلیاں ناران سے یہاں لائی گئی ہیں جبکہ ایک اور تالاب میں کارگہ نالے سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کو افزائش کے لئے رکھا گیا تھا۔

مارچ میں یہ مچھلیاں فروخت کے لئے تیار ہوجا تی ہیں۔ اور ان کی قیمت ایک ہزار روپے فی کلو گرام ہے۔چونکہ میں ست پارہ جھیل سے خود ٹراؤٹ شکار کر کے لطف اندوز ہو چکا تھا اس لئے جلال بابا کو بتایا کہ مجھے ایک ہزار روپے کلو مچھلی کھانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ اس ٹراؤٹ فارم اور اس سے منسلک ہیچری کے بارے میں پروگرام ریکارڈ کرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل کر اگلے بجلی گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ جس کی پیداواری گنجائش 1250کلو واٹ یا سوا میگا واٹ تھی۔دو کلو میٹر کے فاصلے پر بنے ہوئے اس بجلی گھر کی حالت زار پہلے والے سے چنداں مختلف نہ تھی۔ ان پن بجلی گھروں کو مہیا کرنے کے لئے پانی کی جو گذرگاہیں تعمیر کی گئی تھیں۔

اُن میں سے جگہ جگہ پانی رس رہا تھا۔ اگر اس پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے تو بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ سڑک کی حالت بہت ہی خراب تھی اس قدر خراب کہ مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں ریڈیو پاکستان گلگت کی  فور وھیل جیپ بھی جواب نہ دے جائے کیونکہ وہ کافی معمر ہوچکی ہے۔1985 ء ماڈل کی پجارو گاڑی کا رواں دواں رہنا ہی بہت بڑی بات تھی۔ خیر کچھ آگے بڑھے تو کارگاہ نالہ کا سب سے بڑا پن بجلی گھر نمبر چھ آگیا۔ جس کی پیداواری صلاحیت چار میگا واٹ تھی۔ 2010 ء میں آنے والا سیلاب اس بجلی گھر کی دیواروں کو توڑ کر اندر آگیا تھا اور ایک ایک میگا واٹ کی جرمنی ساخت کی چار مشینوں میں سے تین سیلاب کے پانچ برس گذر جانے کے باوجود مرمت طلب حالت میں پڑی تھیں۔یہاں کام کرنے والے ملازمین چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کے بعد تین دن چھٹی پر رہتے ہیں، اور پھر رات دن ڈیوٹی کے لئے آجاتے ہیں۔ ہر شفٹ میں کام کرنے والوں کے برتن، بستر اور دیگر سامان دوسری شفٹ والوں سے الگ ہیں۔

پچیس ہزار روپے ماہوار تنخواہ پانے والے ان ملازمین کی سخت کوشی کی داد دینا پڑتی ہے کہ شدید سرد موسم میں برف باری ہو یا تیز ہوا چل رہی ہو۔ یہ اپنی ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں۔یہاں ریکارڈنگ کرنے کے بعد میں نے سڑک بلکہ اس پگڈنڈی کی حالت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا کہ مزید آگے جا کر کارگہ نالہ کے دیگر پن بجلی گھروں کو دیکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ چار بجلی گھروں کی حالت یہ بتانے کے لئے کافی تھی کہ گلگت شہر ہر سال ستمبر سے اپریل تک روزانہ بائیس گھنٹے بجلی سے محروم کیوں رہتا ہے؟

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔