آر ایس ایس کی نظریاتی تاریخ

سید عاصم محمود  اتوار 6 اکتوبر 2019
انسانی معاشروں میں امن ومحبت کا پیغام پھیلاتے مذاہب کو اپنے مفادات کے لیے نفرت و دشمنی کا ہتھیار بنا لینے والے شیطان صفت انسانوں کی چشم کشا اور عبرت ناک داستان

انسانی معاشروں میں امن ومحبت کا پیغام پھیلاتے مذاہب کو اپنے مفادات کے لیے نفرت و دشمنی کا ہتھیار بنا لینے والے شیطان صفت انسانوں کی چشم کشا اور عبرت ناک داستان

’’ہندوستان میں آباد تمام اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو مقامی رسم و رواج اور طور طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ وہ یہاں رہتے ہوئے کھلم کھلا اپنے مذہبی عقائد کی اشاعت نہیں کرسکتے۔ اگر انہوں نے اپنے رنگ ڈھنگ تبدیل نہ کیے تو ہندوستان میں بھی اندلس کی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔‘‘

ساٹھ سال قبل پیش کیے گئے درج بالا اعلان کو زبانی دعوی مت سمجھئے،یہ آج بھارت میں عملی جامہ پہن چکا۔اندلس کی طرح بھارت میں بھی مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کر دینے کے سوچے سمجھے ظالمانہ و خوفناک پلان پہ ہندو انتہا پسند عمل شروع کر چکے۔پلان بنانے والوں کا حقیقی ارادہ یہ ہے کہ سرزمین بھارت سے مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے۔

اگر ایسا نہ ہو سکے تو کشمیر سمیت تمام بھارتی ریاستوں میں آباد مسلمان اتنے زیادہ خوفزدہ اور دبا دئیے جائیں کہ وہ اندلس کی طرح بھارت میں بھی اپنا مذہب،تشخص اور تہذیب و ثقافت پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ اپنی جانیں ہندو انتہا پسندوں کی وحشت و بربریت سے بچا سکیں۔ یہ جملے کسی عام انتہا پسند ہندو نہیں مہادیو گوالکر کی کتاب’’Bunch of Thoughts‘‘ سے لیے گئے ہیں جو 1966ء میں شائع ہوئی تھی۔

گوالکر تیتیس سال (1940ء تا 1973ء) ہندو انتہا پسند اور متشدد تنظیم، آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا سربراہ رہا۔ اسی نے بھارت میں آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو جماعتوں کو مقبول بنایا اور انھیں ’’سنگھ پریوار ‘‘کے جھنڈے تلے جمع کر دیا۔ نریندر مودی، امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور دیگر انتہا پسند ہندو لیڈر اسے ’’گروگوالکر‘‘ کہتے اور اس کے نظریات پر شدومد سے عمل پیرا ہیں۔ اسی گوالکر نے 1938ء میں ناگ پور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانانِ ہندوستان کو دھمکی دی تھی:

’’اگر انہوں نے ہندوستان میں اپنا علیحدہ مذہبی، معاشرتی اور معاشی تشخص برقرار رکھا تو جس طرح ہٹلر نے جرمنی میں یہود کا صفایا کیا ہے، ہم بھی یہاں سے مسلمانوں کا صفایا کردیں گے۔‘‘

آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دیگر جماعتوں مثلاً شیوسینا، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، آریہ سماج، ہندو مہاسبھا وغیرہ انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کا بنیادی لائحہ عمل یہ ہے کہ بھارت کو ہندو ریاست (ہندو راشٹریہ) بنادیا جائے۔ اس مذہبی ریاست میں اقلیتیں اچھوتوں جیسا درجہ رکھیں گی۔انھیں واجبی حقوق ہی مل سکیں گے۔ درحقیقت ان تنظیموں کی بھرپور کوشش ہے کہ ترغیب و تحریض یا زور زبردستی سے سبھی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے پیروکاروں کو ہندو بنالیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی خفیہ و عیاں منصوبے شروع کررکھے ہیں۔ سبھی ہندو تنظیمیں بظاہر سماجی بہبود کے کام انجام دیتی ہیں مگر ان کی اصل مذہبی بنیادوں پر استوار ہے۔

مذہب امن و محبت کا پیغام دیتے اور بنی نوع انسان کو خیر و فلاح کا راستہ دکھلاتے ہیں۔ مگر انتہا پسند اور ذاتی خواہشات کے اسیر انسان مذہب کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے نفرت و تشدد کا ہتھیار بنالیتے ہیں۔ اس غیر معمولی مظہر کی نمایاں مثال آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہیں۔ یاد رہے، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) آر ایس ایس ہی کا سیاسی بہروپ ہے۔

 بڑھتی مقبولیت اور سوچ سے آگاہی

بھارت میں ہندو انتہا پسندوں اور قوم پرستوں کی بڑھتی مقبولیت برصغیر پاک و ہند میں نفرت و عدم برداشت کی آگ بھڑکا چکی۔ بھارت و پاکستان ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے۔ خطرے کی بات یہ کہ بھارت معاشی مسائل میں گرفتار ہو چکا مگر وزیراعظم مودی کی زیر قیادت ہندو انتہا پسند پھل پھول رہے ہیں۔اکثر بھارتی ریاستوں میں ان کی وجہ سے نفرت کا زہر اس حد تک پھیل چکا کہ خصوصاً مسلمان اسلامی لباس پہننے، ڈاڑھی رکھنے اور اردو بولنے سے گھبرانے لگے ہیں۔

ان پر ہر وقت یہ خوف سوار رہتا ہے کہ انتہا پسند ہندو کسی معمولی بات پر انہیں مار ڈالیں گے۔ خوف و ہراس کے عالم میں کئی بھارتی مسلمان اپنی جانیں اور مال و متاع بچانے کے لیے ہندوانہ رہن سہن اختیار کر چکے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں اقلیت پر اکثریت اتنے ظلم و ستم نہیں توڑ رہی جیسے بھارت میں لرزہ خیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس خوفناک صورتحال سے عیاں ہے ،ہمارے بزرگوں کی یہ پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کہ اگر ہندو اکثریت حاکم بنی تو وہ مسلم اقلیت کو چین و سکون سے جینے نہیں دے گی۔

بھارتی الیکشن 2014ء میں بی جے پی نے 17 کروڑ 16 لاکھ ووٹ لیے تھے۔ اس کی اتحادی جماعتیں تین کروڑ ووٹ لینے میں کامیاب رہیں۔ گویا حکمران اتحاد نے بیس کروڑ سولہ لاکھ ووٹ لیے تھے۔ الیکشن 2019ء میں بی جے پی نے 29 کروڑ 90 لاکھ ووٹ پائے۔یوںاس کے ووٹ بینک میں ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد ووٹوں کا اضافہ ہوگیا۔ حکمران اتحاد کل 33 کروڑ 90 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہااور اس کا مجموعی ووٹ بینک تقریباً چودہ کروڑ ووٹوں سے بڑھ گیا۔ ان اعدادو شمار سے عیاں ہے کہ بھارت میں انتہا پسند اور قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جو بھارتی اقلیتوں اور مسلمانان پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ان فرقہ ورانہ اور مسلم دشمن قوتوں کی حکمرانی بھارت میں مزید مستحکم ہوئی تو بھارتی و پاکستانی افواج کے مابین ٹکراؤ کا امکان بڑھ جائے گا۔وجہ یہ کہ جب سے ہندو انتہا پسند نریندر مودی کی زیرقیادت برسراقتدار آئے ہیں،بھارت میں مسلم اقلیت پر ظلم وستم کرنے کی اذیت ناک مہم جاری ہے۔جلد ہی مودی حکومت نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف خفیہ و عیاں منصوبے شروع کر دئیے۔بھارتی حکمران طبقے کا مشن یہ ہے کہ پاکستان کو اتنا کمزر کر دیا جائے کہ وہ جنگ کی صورت زیادہ عرصے مقابلہ نہ کر سکے۔ریاست جموں وکشمیر پہ قبضہ بھی اسی منصوبے کی کڑی ہے کہ پاکستانی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھنے والے دریا وہاں سے گذرتے ہیں۔مودی حکومت کئی بار ان کے پانی پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے چکی۔

دشمن کی فکر وسوچ اور چالیں سمجھنے کے لیے اس کے نظریات، فکر اور تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔اس طرح دشمن کا مقابلہ کرنا سہل ہو جاتا ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ پاکستانی افواج اور قوم کا ہر فرد دشمن کی ذہنیت ،نظریوں اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو تاکہ نظریات کی جنگ میں بھی اسے شکست دی جا سکے۔یہ آگاہی پالینے کے بعد ہی پاکستانی قوم کو احساس ہوگا کہ پڑوس میں نہایت خطرناک آئیڈیالوجی پرورش پاچکی۔ نفرت اور دشمنی پر مبنی اس ذہنیت کا مقابلہ تبھی ممکن ہے جب سبھی پاکستانی اپنی ذاتی و گروہی مفادات تج کر اجتماعی و قومی فکر اپنالیں۔ اگر وہ اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے، تو دشمن ایک دن انہیں آن دبوچے گا۔ تب اہل پاکستان کی ساری شان و شوکت، آرام و سکون اور آسائشیں خاک میں مل سکتی ہیں۔ مگر تب ہوش میں آنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

یورپی دانشوروں کا کردار

تاریخ یہ حیرت انگیز انکشاف کرتی ہے کہ ہندو انتہا پسندی کے نظریات تشکیل دینے میں یورپی دانشوروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہندو انتہا پسندی کو مغربی دانشوروں ، انگریز حکومت اوربرہمن طبقے نے مشترکہ کوششوں سے تخلیق کیا۔ اس عجیب و غریب اشتراک کی داستان دلچسپ، ڈرامائی اور حیران کن ہے۔ڈھائی سو سال قبل ہندوستان میں صرف دو بڑے گروہ آباد تھے… مسلمان اور بت پرست۔ مسلمان تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔

بت پرست مذہبی، معاشرتی اور معاشی طور پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظریاتی گروہوں میں تقسیم تھے۔ البتہ وشنو اور شیو دیوتاؤں کے پیروکاروں کی تعدد سب سے زیادہ تھی۔ یہ دونوں بڑے فرقے عموماً ایک دوسرے سے نبرد آزمارہتے۔ ان کی باہمی لڑائیوں میں ہزارہا بت پرست مارے جاتے۔اسلامی حکمرانوں نے کبھی بت پرستوں پر یہ دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ مسلمان ہوجائیں۔ اسی طرح جب بھی کسی مسلمان حاکم نے بت پرستوں سے جنگ کی، تو اس کی وجوہ مذہبی نہیں سیاسی یا معاشی ہوتی تھیں۔

مغل بادشاہ، جہانگیر کے عہد سے یورپی باشندے ہندوستان آنے لگے۔ اس نے ساحلی مقامات پر انہیں تجارتی و رہائشی مراکز قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ پرتگیزیوں نے 1606ء میں مالابار (تامل ناڈو) کے ساحل پر اپنے تجارتی مراکز بنائے اورعلاقے میں عیسائیت کی تبلیغ بھی کرنے لگے۔ 1732ء میں فرانس سے ایک عیسائی (یسوعی) پادری، گیسٹن لورنٹ کورڈوکس(Gaston Laurent Cœurdoux ) تبلیغ کرنے پہنچا۔

وہ زبانوں کے تقابلی مطالعے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ پہلا یورپی ماہر ہے جس نے آشکارا کیا کہ ہندوستان کی قدیم زبان، سنسکرت لاطینی، یونانی، جرمن اور روسی زبانوں سے مماثلت رکھتی ہے۔اس کی تحقیق کو ایک اور فرانسیسی ماہر لسانیات، ابراہام دوپیرن(Anquetil Duperron ) نے آگے بڑھایا۔ دوپیرن نے ’’ہندیات‘‘ (Indology) یا ہندشناسی کے تعلیمی شعبے کی بنیاد رکھی۔ اس شعبے سے وابستہ طالب علم ہندوستان کی تاریخ، مذاہب، تہذیب و ثقافت، زبانوں اور علم و ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مغل شہنشاہ،اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کمزور ہوئی تو مختلف علاقوں میں مقامی سرداروں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس انتشار سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور وہ جدید اسلحے کے بل بوتے پر ایک ایک کرکے مقامی حکومتیں ہڑپ کرنے لگے۔ انہیں 1765ء میں بڑی کامیابی ملی جب بنگال، بہار اور اڑیسہ میں انگریز حکومت قائم ہوگئی۔وہ ان علاقوں کے قدرتی وسائل لوٹنے لگے۔

اس لوٹ مار میں برہمن ان کے مددگار بن گئے کیونکہ وہ سابقہ مسلم حکومتوں میں اہم انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ انہیں انتظام و انصرام کا تجربہ تھا۔انگریز حکمرانوں کو جلد احساس ہوا کہ اگر مسلمانوں اور بت پرستوں کے مابین اختلاف پیدا کردیئے جائیں، تو مقامی آبادی آپس میں لڑمرے گی۔ اس طرح ہندوستانی نو آبادیوں میں حکومت کرنا آسان ہوجاتا۔ مسئلہ یہ تھا کہ بت پرست کئی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم تھے۔ انگریزوں نے پھر برہمن طبقے کے اشتراک سے بت پرستوں کو ایک مذہب کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ وہ متحد ہوکر طاقتور بن جائیں۔ تبھی وہ مسلمانوں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ اس نئے مذہب کو ’’ہندومت‘‘ کا نام ملا اور اسے ماننے والے ’’ہندو‘‘ کہلائے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ نفرت، جنگ اور مخالفت کے منفی خیالات و نظریات کے خمیر سے نئے مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ انگریزوں کی خواہش تھی کہ نئے مذہب کے پیروکار جنگجوؤں کا روپ دھار کر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوجائیں تاکہ مقامی آبادی کی مشترکہ طاقت ان کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ برہمن طبقہ اس نئے مذہب کے ذریعے ہندوستان میں اپنا گم گشتہ اثرورسوخ اور قوت پانے کا خواہش مند تھا۔ اسی لیے وہ ہندومت کی تشکیل میں انگریز حکومت کا سرگرم مددگار بن گیا۔ولیم جونز(William Jones) نے اس مسلم مخالف حکمت عملی کا کامیابی سے آغاز کیا۔ لندن کا یہ رہائشی ماہر لسانیات تھا۔ عربی اور فارسی بھی بخوبی جانتا ۔

بنگال کی انگریزحکومت نے جونز کی خدمات حاصل کرلیں تاکہ وہ بت پرستوں کے نئے مذہب کی تشکیل میں ہاتھ بٹاسکے۔ وہ ستمبر 1783ء میں کلکتہ پہنچا اور جنوری 1784ء میں اس نے ایک تنظیم ’’ایشا ٹک سوسائٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے تحت پورے ہندوستان سے بت پرستوں کی قدیم مذہبی، علمی و ادبی کتب کے مخطوطات جمع کیے گئے۔ جونز نے سنسکرت زبان سیکھ لی۔ مقصد یہ تھا کہ کتب میں موجود مشترکہ نظریات و خیالات جمع کر کے ان کی مدد سے نیا مذہب تخلیق کیا جاسکے۔ولیم جونز پہلا یورپی دانشور ہے جس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کئی ہزار سال پہلے بیرونی قبائل نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا اور پھر وہ خصوصاً شمالی علاقوں کے بلا شرکت غیرے حکمران بن گئے۔ انہوں نے وہاں ایک نئے مذہبی و سماجی نظام کی بنیاد رکھی۔ان حملہ آور قبائل کو ’’آریا‘‘ کا نام دیا گیا۔

ایشیاٹک سوسائٹی سے کئی برہمن پنڈت، انگریز ماہرین ہند شناسی اور مستشرق وابستہ تھے۔ انھیں بھاری تنخواہیں ملتی تھیں۔ ان سے سنسکرت میں لکھی مذہبی و ادبی کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرایا گیا۔ اسی دوران سوسائٹی کے دانشور اپنی کتب اور تقریروں کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کرنے لگے کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوؤں(بت پرستوں) پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ لاکھوں ہندو قتل ہوئے اور ان کے مذہبی مقامات (مندروں) پر قبضہ کرلیا گیا۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد سابق حکمرانوں (مسلمانوں) کے خلاف بت پرستوں میں اشتعال اور نفرت انگیز جذبات پیدا کرنا تھا۔ یہی منفی جذبات پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف متحد و یکجا بھی کردیتے۔

اردو ہندی تنازع

جنگ آزادی 1857ء میں عام مسلمانوں اور بت پرستوں نے مل کر انگریز غاصبوں کا مقابلہ کیا لیکن کئی وجوہ کی بنا پر یہ تحریک حریت کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کے بعد انگریز اور برہمن بھرپور کوششیں کرنے لگے کہ مسلم آبادی اور بت پرست ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔اس مہم میں ایک کھشتری سرکاری افسر، راجا شیو پرشاد نے اہم کردار ادا کیا۔ ہندوستان میں عام لوگ اردو بولتے تھے جسے اس زمانے میں ’’ہندی‘‘ یا ’’ہندوستانی‘‘ بھی کہا جاتا۔ بولنے میں یہ ایک ہی زبان تھی ،بس مسلمان اسے عربی و فارسی رسم الخط میں تحریر کرتے، بت پرستوں میں خصوصاً اعلیٰ ذات کے برہمن و کھشتری یہ زبان لکھتے ہوئے دیوناگری رسم الخط اختیار کرلیتے جو سنسکرت کی جدید صورت ہے۔ راجا شیو پرشاد موجودہ بھارتی ریاست اترپردیش میں انسپکٹر آف اسکولز، مورخ اور ماہر لسانیات تھا۔ جنگ آزادی کے بعد اس نے مسلمانوں کے خلاف لسانی تنازع کھڑا کردیا۔

راجا شیو پرشاد نے مسلمانوں اور بت پرستوں کو لڑوانے کی سرکاری پالیسی کے تحت مطالبہ کیا کہ حکومت کی سرکاری زبان اردو نہیں ہندی (دیوناگری رسم الخط کی شکل) کو قرار دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اردو ’’حملہ آور‘‘ مسلمانوں کی زبان ہے۔ لہٰذا غیر مسلم اسے اختیار نہیں کرسکتے۔ یوں ہندوستان میں ’’اردو ہندی تنازع‘‘ نے جنم لیا۔ اس تنازع نے بھی بت پرستوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔ شیو پرشاد نے تین جلدوں پر مشتمل ’’تاریخ ہندوستان‘‘ لکھی۔ اس تاریخ کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ہندوستان کے تمام بت پرست طاقتورآریا قبائل کی اولاد ہیں۔ لہٰذا انہیں مسلم طاقت کے خلاف متحد ہوکر صف آرا ہوجانا چاہیے۔ اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے خلاف بے سروپا اور جھوٹی باتوں کا طومار بھی باندھ دیا۔ وہ مسلمانوں کے خلاف بت پرستوں کے جذبات بھڑکانا چاہتا تھا۔ مسلم رہنما، سرسید احمد خان نے کوشش کی تھی کہ راجا شیو پرشاد کی مسلم دشمنی کا مقابلہ کیا جائے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

ہندو انتہا پسندی کا باپ

بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی برہمنی و انگریز تحریک میں دوسرا اہم کردار ایک برہمن سنیاسی،  دیانند سرسوتی نے ادا کیا۔ آج اسے ’’ہندو انتہا پسندی کا باپ‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوامی سرسوتی ہی ہے جس نے ہندومت کو بہ حیثیت مذہب بت پرستوں میں مقبول بنایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف صف آرا کردیا۔ اسی نے دور حاضر کے ہندو انتہا پسندوں کو وہ متشددانہ اور انتہا پسندانہ فکری و نظریاتی بنیادیں فراہم کیں جن کے سہارے انہوں نے اپنی جارحانہ حکمت عملی اور پالیسیاں بنائیں اور لائحہ عمل طے کیے۔سوامی دیانند سرسوتی کی نجی زندگی اسرار و تجّس کی تہوں میں پوشیدہ ہے۔

وہ 1824ء میں پیدا ہوا اور 1883ء میں چل بسا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی نجی معلومات خفیہ رکھتا تھا۔ جب بڑھاپا آیا تو قریبی ساتھیوں کو نجی زندگی کے بارے میں بتانے لگا۔ بعدازاں انہی ساتھیوں کی جھوٹی سچی باتوں کو بنیاد بناکر مصنفین نے سوامی سرسوتی کی سوانح عمریاں قلم بند کردیں۔ان  کے مطابق اس کا اصل نام دیارام مُل شنکر تھا۔کاٹھیاوار، گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوا۔ باپ برہمن  زمین دار، بنیا اور سرکاری ٹیکس کلکٹر تھا اور شیوامت کا پیروکار۔ علاقے میں اس کا بڑا اثرورسوخ تھا۔ گویا سوامی سرسوتی کھاتے پیتے گھرانے میں پیدا ہوا۔ باپ نے اپنے پہلے بیٹے کی مذہبی تعلیم پر خاص توجہ دی اور اسے برہمنوں کی مذہبی کتب ’’وید‘‘ پڑھائی گئیں۔

مشہور ہے کہ ایک رات پندرہ سالہ سرسوتی مندر میں پوجا کررہا تھا۔ سامنے شیو کی مورتی دھری تھی۔ اچانک چند چوہے آئے اور شیو کے سامنے سے پرشاد لے بھاگے۔ وہ مورتی پر چڑھ کر اٹکھیلیاں بھی کرتے رہے۔ یہ منظر دیکھ کر نوجوان سرسوتی حیران پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ جو خدا اپنے اوپر سے چوہے نہیں بھگاسکتا، وہ دنیا کا انتظام کیسے سنبھال سکتا ہے؟ اس واقعے کے بعد سرسوتی کا دل بتوں کی پوجا پاٹ سے اچاٹ ہوگیا۔ وہ پھر ماں باپ سے مذہب کے بارے میں باغیانہ سوال کرنے لگا جس کی بنا پر مشہور ہوگیا کہ دیارام پاگل ہوچکا۔ والدین نے اس کی شادی کرنا چاہی تو وہ 1846ء میں گھر چھوڑ کر بھاگ نکلا۔دیارام پھر آوارہ گردی کرتے نگر نگر گھومنے لگا۔ وہ سچائی کی تلاش میں تھا جو اس کے بے چین من کو شانتی دے سکے۔ 1860ء میں وہ متھرا پہنچا اور وہاں وید مت کے ایک بڑے گرو، ورجے نند دندیش کا چیلا بن بیٹھا۔ اپنے گرو کی کوششوں سے دیارام ویدمت کا عالم بن گیا۔

گرو ہی نے اسے نیا نام ’’دیانند سرسوتی‘‘ بھی عطا کیا۔وید مت بہ حیثیت مذہب برہمن مت کی قدیم شکل ہے۔ ویدمت کا نظریاتی ڈھانچا چار کتب (رگ وید، سام وید، یجر وید اور اتھروا وید) سے ماخوذ ہے۔ یہ وسطی ایشیاء یورپ، مشرق وسطی اور ایران سے ہندوستان آنے والے قبائل کے مذہبی نظریات کا ملغوبہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں وادی سندھ کے باشندوں کے مذہبی نظریے بھی شامل ہوں۔ چاروں وید دور جدید کے ہندومت کی قدیم ترین مذہبی کتب مانی جاتی ہیں۔ ان کا زمانہ تصنیف 1700ء قبل مسیح سے 500 قبل مسیح کے مابین بتایا جاتا ہے۔ بت پرستوں کی دیگر مذہبی کتب مثلاً اپنشدوں،پرانوں، شاستروں (منوسمرتی) اورکتب تاریخ یا اتہاس (مہا بھارت وبھگوت گیتا ، رامائن) میں کافی مواد ویدوں سے ماخوذ ہے۔

ویدوں میں ایک خدا کا تصّور ملتا ہے۔ مگر تناقص یہ ہے کہ ان میںدیوی دیوتاؤں مثلاً اندرا، اگنی، سوم، ایشور، اوشا، سوریا وغیرہ کا بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ سوامی سرسوتی نے  یہ دعوی کیا کہ دیوی دیوتا ایک ہی خدا کے مختلف روپ ہیں۔ وید بنیادی طور پر دیوتاؤں کے حضور مناجات اور منتروں کا مجموعہ ہیں۔ ان سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ انسان کو امن و محبت سے فطری طریقے اختیار کرکے زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ویدوں کی لیکن ایک بڑی خامی یہ ہے کہ انہی سے  ہندوستان میں ذات پات کے نظام نے جنم لیا اور برہمن طبقہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہندوستانی معاشرے میں آمر و طاقتور بن بیٹھا۔ وجہ یہ کہ وید اور ذات پات کا نظام، دونوں برہمنوں کی تخیلق ہیں جن کا تعلق حملہ آور آریا قبائل کے حکمران طبقے سے تھا۔اس نظام کے ذریعے برہمن اپنی حکمرانی کو دوام بخشنا چاہتے تھے۔

1865ء کے بعد سوامی سرسوتی نے پوری قوت سے تحریک برپا کردی کہ تمام بت پرستوں کو ویدمت اختیار کرلینا چاہیے۔اس نے ان پر زور دیا کہ وہ ایک خدا کی عبادت کریں، اپنے فرسودہ مذہبی رسوم و رواج ترک کردیں اور جدید تعلیم پائیں۔ ان نظریات سے عیاں ہے کہ سوامی سرسوتی بت پرستوں کی فکرو عمل میں مثبت تبدیلیاں لانا چاہتا تھا۔

وہ ایک بہترین مقرر اور طلسماتی شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے جلد پیروکاروں کی بڑی تعداد اپنے گرد جمع کرلی۔ وہ پھر شمالی ہندوستان کے قریہ قریہ جانے لگا۔ وہاں وہ بت پرستی کے خلاف تقریریں کرتا اور ان کے رسوم و رواج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔ سوامی سرسوتی کی تحریک نے مگر برہمن پنڈتوں کی صفوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔تمام مندروں کے ناظم دراصل برہمن پنڈت تھے۔ بت پرست ان مندروں میں نقدی، زیور اور اجناس چڑھاوے کے طور پر دیتے ۔ اسی مال و متاع کی بدولت ہی برہمن نہ صرف امیر ہوئے بلکہ معاشرے میں  اثرورسوخ پیدا کرلیا۔ اگر بت پرست سوامی سرسوتی کی تحریک سے متاثر ہوکر بتوں کی پوجا کرنا چھوڑ دیتے تو مندروں میں پھر کوئی نہ آتا۔ اس طرح برہمن پنڈت کمائی کا ذریعہ کھو بیٹھتے اور معاشرے میں بھی انہیں پہلے جیسا اثرورسوخ حاصل نہیں رہتا۔

یہی وجہ ہے، برہمن رہنماؤں نے سوامی سرسوتی پر دباؤ ڈالا کہ وہ بت پرستی کی مخالفت کرنا چھوڑ دے۔ انہوں نے اس باور کرایا کہ سب سے اہم کام یہ ہے کہ بت پرستوں کو ہندومت کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا جائے تاکہ وہ طاقتور بن کر مسلمانوں اور عیسائیوں کا مقابلہ کرسکیں۔ برہمن رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے ہی سوامی سرسوتی نے بت پرستی کی مخالفت بہت کم کردی۔ اب وہ برہمنی منصوبے کے مطابق اسلام اور عیسائیت پر شدید زبانی و قلمی حملے کرنے لگا تاکہ ان کے خلاف مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹے بت پرستوں کو ’’ہندو قوم‘‘ کی شکل میں متحد و یکجا کردیا جائے۔

اس نے قرار دیا کہ ہندو قوم ہندوستان کی اصل وارث ہے اور وہی مملکت میں حکمرانی کا حق بھی رکھتی ہے۔ سوامی سرسوتی پہلا بت پرست (یا ہندو) رہنما ہے جس نے کھلم کھلا اسلام، عیسائیت، جین مت اور ان مذاہب کے پیغمبروں کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنایا۔1875ء میں اسکی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ شائع ہوئی جسے دور جدید کے ہندو انتہا پسند اور قوم پرست مقدس قرار دیتے ہیں۔ اس میں سوامی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہندوؤں کو جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے تاکہ مزید ہندو مسلمان یا عیسائی نہ بن سکیں۔ سوامی نے ویدمت (ہندومت) کو دنیا کا واحد الہامی اور بہترین مذہب قرار دیا۔ حضرت عیسیٰؑ اور پیغمبر اسلام ﷺ کے متعلق نازیبا باتیں قلمبند کیں جن سے عیسائی اور مسلم اقوام میں قدرتاً اشتعال پھیل گیا۔ غرض جو سوامی بت پرستوں کی اصلاح احوال کے لیے اٹھا تھا، برہمن و انگریز گٹھ جوڑ نے اسے مسلم و عیسائی دشمن رہنما بنا دیا۔

1875ء میں سوامی سرسوتی نے ہندومت کے فروغ کی خاطر ایک تنظیم ’’آریہ سماج‘‘ قائم کردی۔ مقصد یہ تھا کہ سماجی سرگرمیوں کے پردے میں بت پرستوں کو نئے مذہب کے دائرے میں لایا جائے تاکہ وہ مسلم و عیسائی قوت کا مقابلہ کرسکیں۔ تب ہندوستان میں عیسائی بہت کم تھے۔ اس لیے آریہ سماجیوں کی ٹکر مسلمانوں سے ہی ہوئی۔

آریہ سماجی رہنما اور مسلم علما مناظرے کرنے لگے جن میں ہزارہا لوگ شرکت کرتے۔ ان مناظروں کی بدولت نفرت اور فرقہ وارانہ فساد پر مبنی خیالات عوام میں بھی پھیلنے لگے اور دونوں اقوام کے مابین دشمنی بڑھتی چلی گئی۔1870ء کے بعد سوامی سرسوتی نے ’’شدھی تحریک‘‘ اور ’’گؤ رکھشا مہم‘‘ کا آغاز کردیا تھا۔ شدھی کے ذریعے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا چاہتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ تمام مقامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے اجداد ہندو تھے۔ لہٰذا اب انہیں اپنا اصل مذہب اختیار کرلینا چاہیے۔ گؤ رکھشا مہم کے ذریعے سوامی ہندوستان میں گائے کے ذبیح پر پابندی لگوانے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں تحریکوں کی وجہ سے بھی مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا اور برہمن و انگریز حکمران طبقے کی تو پالیسی یہی تھی۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ برہمن و انگریز حکمران طبقہ سوامی سرسوتی کو اپنا ایجنٹ بنانے میں کامیاب رہا تھا ۔مگر جب سوامی کے گرد لاکھوں پیروکار اکٹھے ہوگئے تو وہ آزاد و خود مختار بن گیا۔ طاقت پاکر احساس ہوا کہ انگریز حکومت اب اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہی وجہ ہے، وہ عیسائیت پر بھی علی الاعلان تنقید کرنے لگا۔ یہ خود مختاری انگریز آقاؤں کو پسند نہیں آئی۔انھیں احساس ہوا کہ سوامی کی سرگرمیوں سے مشنری پادریوں کو مقامی آبادی میں تبلیغ کرتے ہوئے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ چناں چہ انہوں نے گھریلو ملازمین خرید کر ان کے ذریعے سوامی سرسوتی کو زہر دے دیا۔ وہ چند ماہ بیمار رہ کر چل بسا۔

نازی جرمن آریا بن بیٹھے

سوامی سرسوتی کی موت کے بعد  برہمنی طبقہ ہندوستان میں شدومد سے ’’ہندوسپرمیسی‘‘ نظریے کی تبلیغ کرنے لگا۔ آریا سماجی رہنماؤں نے اس مہم میں اہم حصہ لیا جن میں سوامی شردھانند، پنڈت مالویہ، لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھرتلک نمایاں ہیں۔ انہی لیڈروں نے 1915ء میں دوسری انتہا پسند ہندو جماعت’’ہندو مہاسبھا‘‘کی بنیاد ڈالی۔ بال کرشنا مونجے، دمودر ساورکر اور بلرام ہیڈگوار اس نئی تنظیم کے نوجوان رہنما تھے۔ 1925ء میں ہیڈگوار نے تیسری انتہا پسند ہندو تنظیم’’ آر ایس ایس‘‘ قائم کردی۔ بھارت میں اسی تنظیم کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔آج بھارت کی اسٹیبلشمنٹ میں آر ایس ایس کے حمایتی سب سے زیادہ موجود ہیں۔

فوج، انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس میں آر ایس ایس کے حمایتی اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی یہ ممکن ہوا کہ آر ایس ایس کا سیاسی روپ، بی جے پی اقتدار سنبھال لے تاکہ ہندو راشٹریہ بنانے اور اکھنڈ بھارت کی تکمیل کے منصوبوں پر عمل شروع ہوسکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’ہندو سپرمیسی‘‘ کا منفی نظریہ یورپی ممالک میں بھی مقبول ہوا۔ البتہ وہاں اس نے ’’آریا سپرمیسی‘‘ کا روپ دھار لیا۔ یورپ میں یہ نظریہ پھیلنے کی کہانی بھی حیرت انگیز اور ڈرامائی ہے۔ ہوا یہ کہ برطانوی ولیم جونز کا یہ نظریہ کہ آریا قبائل نے تین ہزار سال پہلے ہندوستان فتح کیا تھا، دیگر انگریز و یورپی ماہرین ہند شناسی مثلاً چارلس ولکنز، کولن میکنزے، ہنری تھامس کولبروک، جین انطون دوبس، شیگل، جیمز مل وغیرہ کے ذریعے پورے یورپ میں پھیل گیا۔ اس نظریے سے فرانسیسی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک دانشور، آرتھر دو گوبینو (Arthur de Gobineau) بھی متاثر ہوا۔آرتھر دوگوبینو کا باپ فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کا اعلیٰ عہدے دار تھا۔

یہی وجہ ہے، وہ باپ سے مشرق وسطیٰ اور ہندوستان کے قصّے سنتے جوان ہوا۔ ان قصّوں نے اس پر اتنا زیادہ سحر طاری کیا کہ وہ مسلمان ہونے کا سوچنے لگا تاہم والدین اور رشتے داروں کے خوف نے اسے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ 1848ء میں جب فرانسیسی عوام بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو گوبینو شاہی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر سرگرم ہوگیا۔ تبھی اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ فرانسیسی بادشاہ طاقتور آریا قبائل کی اولاد ہیں۔ وہ عوام سے زیادہ قابلیت، لیاقت و ذہانت رکھتے ہیں اور اسی لیے انہیں حکمرانی کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔

گوبینو اس طرح نظریہ نسل پرستی کی ترویج کرنے لگا… یہ کہ بعض انسانی نسلیں دیگر نسلوں سے ممتاز و منفرد ہیں۔سفید فام سپرمیسی کا نظریہ بھی اسی نظریے سے ماخوذ ہے۔ گوبینو کا نظریہ جرمنی میں بہت مقبول ہوا۔ حتیٰ کہ ایڈلف ہٹلر کی نازی پارٹی نے اسے اپنا منشور بنالیا۔ صرف آریا نسل کے جرمن ہی پارٹی کے رکن بن سکتے تھے۔ جب ہٹلر برسراقتدار آیا، تو وہ جرمنی میں مقیم غیر آریائی نسلوں مثلاً یہود، خانہ بدوشوں، سیاہ فاموں پر ظلم و ستم کرنے لگا۔ یہود اس لیے خاص نشانہ بنے کہ ہٹلر سمجھتا تھا، امریکا و برطانیہ میں مقیم یہودی بنیوں کی سازشوں ہی سے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی ۔ بہرحال آریا سپرمیسی کے بطن سے جرمن قوم پسندی کے جراثیم پیدا ہوئے۔

اسی قوم پسندی نے آخر کار ایڈلف ہٹلر کو دوسری جنگ عظیم شروع کرنے پر اکسا دیا۔ہٹلر نے پہلے جرمنی اور پھر یورپی ممالک میں آباد یہود و غیر آریائی نسلوں پر بے پناہ ظلم ڈھائے۔ اس کا یہ پلان تھا کہ جرمنی سے ان کا صفایا کردیا جائے۔ آج آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند جماعتیں بھی مذہبی و قومی سپرمیسی کے جنون میں مبتلا ہوکر بھارت سے خصوصاً مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہیں۔یہ نسل کشی روکنے کی خاطر  پاکستان ہی کو کچھ کرنا ہو گا ۔سپرپاورز کو تو چھوڑئیے، مسلم حکمران اپنے اپنے معاشی وسیاسی مفادات کے اسیر بن کر  کٹر آرایس ایس لیڈر،مودی کی چاپلوسی کرنے میں محو ہیں۔ بقول شاعر مشرقؒ

حرم پاک بھی،اللہ بھی، قران بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔