روایتی اسلحے کی تجارت کا بین الاقوامی معاہدہ

غلام محی الدین  اتوار 6 اکتوبر 2013
معاہدےکی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں غیر سرکاری اداروں کو ہتھیار فروخت کئے جانے کی پابندی کا تذکرہ نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

معاہدےکی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں غیر سرکاری اداروں کو ہتھیار فروخت کئے جانے کی پابندی کا تذکرہ نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد:  تما م تر تحفظات کے باوجود امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے 25ستمبر2013 کو اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والی ایک تقریب میں اسلحہ سے متعلق تاریخ ساز بین الاقوامی معاہدے پر دست خط کر دیے۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکا نے طویل سوچ بچار کے بعد دست خط کرنے کا فیصلہ کیا۔ دست خط کرنے کے بعد اْنھوں نے ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے کو امن کی عالمی کوششوں کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا  کہ اپریل2013  میں منظور ہونے والا یہ عالمی معاہدہ اسلحے کی فروخت کے سلسلے میں بین الاقوامی ہدایت نامے کا درجہ رکھتا ہے، جس میں  ٹینکوں، بحری جنگی جہازوں، حملوں میں کام آنے والے ہیلی کاپٹروں سے لے کر چھوٹی سطح کا اسلحہ اور ہلکے ہتھیار شامل ہوں گے ۔

اس سمجھوتے کے تحت رْکن ممالک پر ایسے ملکوں کو ہتھیار منتقل کرنے پر پابندی ہوگی، جِن پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کا الزام ہوگا البتہ یہ معاہدہ ہتھیاروں کی اندرونِ ملک فروخت پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ اِس پر امریکی سینیٹ کی توثیق کی ضرورت ہے اور قانون سازوں کی طرف سے مخالفت کا بھی سامنا ہے جو  یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ امریکیوں کی طرف سے قانونی اسلحہ لے کر چلنے کے حق کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ روایتی ہتھیاروں کی برآمد کے ضمن میں امریکا دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے جب کہ عالمی سطح پر ہی  چھوٹے روایتی ہتھار بدامنی اور خون خرابے کا ایک بڑا سبب مانے جاتے ہیں۔

اس معاہدے کے مثبت اور منفی اثرات عالمی سطح پر کیسے مرتب ہوں گے ؟ اس بارے میںابھی کوئی حتمی رائے سامنے نہیں آئی لیکن ماضی میں جس طرح مختلف ممالک نے اس معاہدے پر  اپنے اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلحہ بنا کر فروخت کرنے والے اور اس اسلحہ کو خریدنے والے ملک خاصے گھبرائے ہوئے ہیں، خاص طور پر انکل سام کو تو بہت سے تحفظات نظر آرہے تھے۔ ان تحفظات کو کس نے اور کیسے دور کیا ؟ اس پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ غیر جانب دار مبصرین کے مطابق شام کے معاملے پر امریکا کی پس پائی نے امریکا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے، اس لیے وہ معاہدے پر دست خط کرنے پر راضی ہوا ۔

یہ سوچ بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا میں روایتی اسلحے کی جگہ جدید اسلحے کو متعارف کرانے کے لیے یہ معاہدہ تیارکیا گیا تھا ۔ کئی تجزیہ نگار اس معاہدے کو یوں بھی دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ نے عالمی طاقتوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ گوریلا وار کا مقابلہ صد فی صد ممکن نہیں، اس لیے روایتی ہتھیاروں  کی نقل و حمل کو عالمی تجارت کے تحت بہ تدریج کم کردیا جائے۔

تاکہ جنگ جو اور دہشت گرد کم زور ہوتے چلے جائیں، ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب اسلحے کی تجارت کسی قانون اور ضابطے کے تحت آجائے گی تو اسلحے کی قیمتوں میں اضافے کا جواز پیدا ہو سکے گا اور ’’کک بیک‘‘ میں دی جانے والی رقم سے بھی نجات مل جائے گی۔ اس معاہدے کی مزید تفہیم ابھی دیگر تناظر میں ہونا باقی ہے لیکن اس سے قبل اس معاہدے کے پس منظر پر جب تک   نظر نہیں ڈالی جائے گی، اس معاہدے کے اثرات سمجھ میں نہیں آئیں گے۔

اپریل 2013 میں جب اربوں ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی عالمی تجارت کو ضابطے میں لانے کے لیے ممکنہ تاریخی معاہدے پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تھے تواس وقت صورت حال واضح نہ تھی کہ کوئی حتمی نتیجہ  بھی نکلے گا یا نہیں؟ کیوں کہ سال 2012 جولائی میںبھی کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی بات چیت ناکام ہو گئی تھی۔ امریکا، روس اور چین کی طرف سے اس معاملے پر مزید وقت طلب کرلیا گیا تھا۔

اس وقت ہتھیاروں کی تجارت پر کنٹرول کے حامیوں کا کہنا تھا کہ ایک ایسے معاہدے کی اشد ضرورت ہے جس سے متنازع علاقوں تک ہتھیاروں کی غیر قانونی رسائی کو روکا جا سکے جب کہ دنیا میں ہتھیار بنانے والے سب سے بڑے ملک امریکا نے مذاکرات سے قبل ہی کہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے کی مخالفت کرے گا، جس میں گولہ بارود پر پابندی شامل ہو گی کیوں کہ اس کی روک تھام کے لیے اقدامات پر مالی اور انتظامی بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے ایک ایسے معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا جس میں گولہ بارود کی فروخت کو ضابطے میں لاناضروری تھا۔ تب امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکا بھی ہتھیاروں کی تجارت پر نظر رکھنے کے لیے ایک موثر معاہدے کے لیے پرعزم ہے مگر اْن کا ملک صرف ایسے معاہدے پر ہی متفق ہو گا جس میں روایتی ہتھیاروں کی بین الاقوامی سطح پر منتقلی کے معاملے کو حل کیا جاسکے۔

 

انہوں نے واضح کیا تھا ’’ کوئی بھی ایسا معاہدہ جو امریکا میں اسلحے کی مقامی تجارت یا امریکی برآمدات میں رکاوٹ کی بات کرے گا، اسے امریکا تسلیم نہیں کرے گا‘‘ مگر دوسری جانب انسانی حقوق کی سرگرم تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک اعلیٰ عہدے دار فرینک جنوزی نے اس ضمن میں کہ دیا تھا کہ روایتی ہتھیاروں کی کسی رکاوٹ کے  بغیر تجارت پانچ لاکھ سے زیادہ اموات، لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے اور دیگر مسائل کی اصل وجہ بن رہی ہے۔

آخر کار اسلحے کی عالمی تجارت کا یہ معاہدہ جب منظور ہوگیا اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت سے متعلق پہلے عالمی معاہدے کی کثرتِ رائے سے منظوری دے دی تو معاہدے کا مقصد واضح ہوگیا تھا کہ دنیا بھر میں روایتی اسلحے کی تجارت کو ہر صورت میں بین الاقوامی ضابطوں کے تحت لانا ہے۔ اس وقت اسلحے کی اس تجارت کا حجم محتاط اندازوں کے مطابق 80 ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا تھا۔ معاہدے کی شقوں کے مطابق  نیا عالمی معاہدہ کسی بھی ملک میں دست یاب اسلحے کے اندرونِ ملک استعمال پر لاگو نہیں ہوگا لیکن اس کے تحت حکومتیں روایتی ہتھیاروں اور ان کے پرزوں کی منتقلی سے متعلق قانون سازی کرنے اور ہتھیاروں کے تاجروں سے قوانین پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہوں گی۔

معاہدے کا اطلاق صرف روایتی اسلحے پر ہی ہوگا جن میں ہلکے ہتھیاروں سے لے کر جنگی ٹینک اور بحری جہاز تک شامل ہیں۔  عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی نے  نئے معاہدے کی منظوری سے متعلق قرارداد  تین کے مقابلے میں 154 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے منظور کی تھی جن تین ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ان میں شام، شمالی کوریا اور ایران شامل تھے، جنہوں نے اس قرارداد پر رائے شماری رکوادی تھی۔ روس سمیت 23 ممالک نے قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

قرارداد کے تحت ممالک کی جانب سے نئے معاہدے  کی توثیق کا عمل  جون میں شروع ہونا تھا۔  معاہدے کے تحت اگر کسی فریق کو روایتی ہتھیاروں سے، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم میں استعمال کیے جانے کا اندیشہ ہوگا تو  معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اسے یہ ہتھیار فراہم نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ معاہدے کی رو سے روایتی ہتھیاروں کی ایسے ممالک اور فریقین کو برآمد پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی، جو اس اسلحے کو عام شہریوں، شہری املاک، مثلاً اسکولوں اور اسپتالوں پر حملے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے۔

معاہدے میں تسلیم کیا گیا تھا کہ ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کے لیے اس بات کا تعین کرنا لازمی ہوگا کہ ان کے برآمد کردہ ہتھیار بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق یا ان سے متعلق قوانین کی پامالی  کے لیے استعمال نہیں ہوں گے۔ ہتھیار فروخت کرنے والے ممالک کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان کے فراہم کردہ ہتھیار دہشت گردوں اور منظم جرائم میں ملوث گروہوں کے ہاتھ نہیں لگیں گے اور نہ ہی انہیں امنِ عامہ اور سیکیورٹی کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اس موقع پر اپنے ووٹ کی وضاحت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب مسعود خان نے کہا تھا کہ جنرل اسمبلی میں انہوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تاکہ ان لوگوں اور ریاستوں کے ساتھ اظہار یک جہتی سے کیا جاسکے جن پر روایتی اسلحہ کی’’ بے قاعدہ تجارت‘‘ کی باعث منفی اثرات مرتب ہورہے  ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روایتی اسلحہ کو دہشت گردی کے مقاصد، منظم جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال ہونے سے بچانے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کی غیر قانونی تجارت نہیں ہونی چاہیے۔

اس موقع پر روایتی ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ یہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ ایک تاریخی کام یابی ہے جو بہت کوششوں کے بعد حاصل ہوئی ہے۔ بان کی مون نے مزید کہا تھا کہ یہ دنیا بھر کے لوگوں کی فتح ہے۔

جب یہ معاہدہ طے پا چکا توامریکی اخبار’’ وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے اسلحے کی تجارت کے عالمی معاہدے پر بھارت کی تشویش کوآ شکار کردیا تھا۔ اس تشویش کے مختلف پہلوؤں سے معاہدے کی نزاکت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اخبار کے مطابق کئی ارب ڈالر مالیت کے اسلحے کی عالمی تجارت پر کنٹرول کے اقوام متحدہ کے حالیہ معاہدے نے بھارت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ ان کے دفاعی سازسامان کی خریدو فروخت اور استعمال کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ بھارت نے ابھی اس معاہدے پر دست خط نہیں کیے۔

وہ اس معاہدے کے خد وخال پر غور کررہا ہے، پھر اس پر دست خط کے بارے میں کوئی فیصلہ کر ے گا۔ معاہدے کے تحت دست خط کرنے والے ممالک کو اسلحہ کی خرید و فروخت کی سالانہ اقوام متحدہ کو رپورٹ دینا ہوگی۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ ایکسپورٹرز بھارتی اسلحہ کے استعمال پر تشویش ظاہر کرکے اس کی شپمنٹ کو روک سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی فوج کی مبینہ خلاف ورزیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ بھارتی فوج کے کشمیر اور تامل باغیوں کے خلاف مظالم پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آوازیں بلند کررہی ہیں۔ بھارت اسے دہشت گردی کے بجائے داخلی لڑائی قرار دے رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا سلحہ درآمد کنندہ ہونے کی وجہ سے بھارت ہتھیاروں کو جدید بنانے کے لیے سالانہ 30 ارب ڈالر خرچ کررہا ہے۔

بھارتی فوج 70 فی صد انحصاردرآمد شدہ دفاعی سازوسامان پر ہی کرتی ہے جب کہ حکومت کا دباو ہے کہ وہ مقامی طور پر تیا ر کردہ دفاعی سازوسامان پر انحصار کرے۔ بھارت کا زیادہ تر انحصار روس کے سازوسامان پر ہے لیکن آج کل وہ امریکا ، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل سے بھی دفاعی سازوسامان خرید رہا ہے۔ 2020  تک بھارت سالانہ 65.4 ارب ڈالر کے دفاعی اخراجات کرے گا۔ اخبار کے مطابق جن ممالک نے اس معاہدے کی مخالفت کی یا ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتے ہیں اگر انہیں یہ خدشہ ہوا کہ انہوں نے دست خط نہ کیے تو وہ عالمی اسلحہ کی سودا بازی سے باہر ہوسکتے ہیں۔

یہ معاہدہ اسلحہ کی سپلائی کے متعلق وہ قواعد وضوابط ہیں جن کا مقصد ہتھیاروں کی فراہمی میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو روکنا ہے۔ اخبار نے مزید لکھا تھا کہ اقوام متحدہ نے سادہ اکثریت سے عالمی سطح پرہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ منظور کر لیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے برآمد کنندہ امریکا سمیت اس معاہدے کی حمایت میں 154 رکن ممالک نے ووٹ دیے ہیں، صرف شمالی کوریا، شام اور ایران نے اس کی مخالفت کی ہے۔

بڑے برآمدکنندہ ممالک چین اور روس اور بڑے درآمدکنندگان بھارت، انڈونیشیا اور مصر سمیت 23 ممالک نے اس معاہدے کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ بھارت جو اسلحے کا ایک بڑا امپورٹر ہے وہ اس معاہدے کی شرائط کو پورا کرنا نہیں چاہتا اسی لیے وہ تشویش کا شکار ہے۔  بھارت فکر مند ہے کہ اگر اس معاہدے کی شرائط کو پورا نہ کیا گیا تو اسلحہ ایکسپورٹر ممالک ہتھیاروں کی فراہمی میں ان شرائط کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک درآمد کنندہ کی حیثیت سے ہمیں تشویش ہے کہ اس میں نہ تو مستقبل کے بارے کوئی واضح صورت حال ہے اور نہ درآمد کنندہ کے لیے استحکام کا خیال رکھا گیا ہے۔

اس لیے یہ معاہدہ بین الاقوامی قانون بننے میں کچھ وقت لے سکتا ہے۔ عموماً اقوام متحدہ کے رکن ممالک کسی بھی معاہدے کی توثیق سے قبل اتفاق رائے قائم کرلیتے ہیں لیکن تجارتِ اسلحہ معاہدہ انتہائی متنازع ہونے کی وجہ سے اقوام متحدہ نے سادہ اکثریت سے اسے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یاد رہے امریکا کو بھی سینیٹ میںاس معاہدے کی توثیق میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، تب امریکا کے ہی ایک اور اخبار نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ دنیا میں ٹینکوں، جنگی طیاروں اور آتشیں اسلحے جیسے روایتی ہتھیاروں کا سیلاب آیا ہوا ہے اوراس کی سالانہ تجارت کا حجم 40 سے 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

روایتی ہتھیاروں کے پھیلاو کی روک تھام کے لیے عالمی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ ان ہتھیاروں میں سے بہت سے شام، سوڈان، کانگو اور دیگر کئی ممالک میں تنازعات کو فروغ دینے اور وہاں پر ڈھائے جانے والے مظالم  میں بے دریغ استعمال ہورہے ہیں۔ یہ ہتھیار اب تک لاتعداد لوگوں کی جان لے چکے، اگر عالمی برادری  نے انہیں ظالم حکومتوں، دہشت گردوں اور مجرموں کی پہنچ سے دور رکھنے کے لیے سرگرمی نہ دکھائی تو یہ ہتھیار مزید لوگوں کی جان لینے کا باعث بنیں گے۔

یہ حقیقت مضحکہ خیز ہے کہ تیل سے لے کر غذائی اجناس تک ہر شے کی بین الاقوامی تجارت کے لیے عالمی ضابطے اور قوانین موجود ہیں  لیکن روایتی ہتھیاروں کی تجارت اور خرید و فروخت کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی عالمی معاہدہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ اخبار کے مطابق اقوامِ متحدہ کو اس معاملے کی سنگینی کا احساس ہوچکا ہے، اسی کے نتیجے میں عالمی معاہدہ طے پایا ہے۔ اخبار نے خبردار کیا تھا کہ اس مؤثر معاہدے پر اتفاقِ رائے اور پھر اس کے بعد عمل درآمد آسان نہیں ہوگا کیوں کہ معاہدے میں شامل کوئی ایک طاقت ور ملک معاہدے کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ
روس کے حکام نے ہتھیاروں کی تجارت سے متعلق بین الاقوامی معاہدے میں شامل ہونے کے بارے میں ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا ۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریاب کوو نے شہر نیڑنی تاگیل میں منعقدہ ہتھیاروں کی نمائش’’رشیا ایکسپو آرمز -2013 ‘‘ کے موقع پر کہا ہے کہ حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے معاملے کے کئی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ریاب کوو کے مطابق مارچ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں منظور کردہ معاہدے میں روس کے لیے اہمیت رکھنے والے کئی نکات ابھی تک شامل نہیں ہیں۔

 

علاوہ ازیں اس معاہدے میں خامیاں بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم ترین خامی یہ ہے کہ معاہدے میں غیرسرکاری اداروں کو ہتھیار فروخت کئے جانے کی پابندی کا تذکرہ نہیں ہے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے کہا میں نے نشان دہی کی کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یورپی اتحاد اور نیٹو کسی ملک میں فوجی کارروائی میں مداخلت کرنے کی آزادی برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ معاہدے کی ایک اور خامی یہ بھی ہے کہ اس میں ہتھیاروں کی دوبارہ برآمد کا بھی تذکرہ نہیں ہے۔

تاہم روس کے اصرار پر معاہدے میں ایک نکتہ شامل کیا گیا ہے جس کا مقصد ہتھیاروں کی غیرقانونی گردش کو روکنا ہے۔ ریاب کوو نے مزید کہا کہ معاہدے میں ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق جو معیارات شامل کئے گئے ہیں وہ روس میں رائج معیارات سے کم تر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔