بُک شیلف

ب۔و / عبید اللہ عابد / بشیر واثق  اتوار 6 اکتوبر 2013
جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

اگر مجھے قتل کر دیا گیا
مصنف: ذوالفقار علی بھٹو
ترجمہ: سکوااڈرن لیڈر (ر) عبدالعلی شوکت
قیمت: 500روپے،ناشر: بھٹو لیگیسی فائونڈیشن ، لاہور

جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو فوجی حکومت نے بھٹو اور پیپلز پارٹی کی کردار کشی کے لئے ایک ضخیم پلندہ شائع کیا اور اندرون اور بیرون ملک اس کی تشہیر کی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس وائٹ پیپر کا پنڈی جیل سے منہ توڑ جواب دیا اور انھوں نے اپنا یہ جوابی موقف سپریم کورٹ میں پیش کیا۔ جنرل ضیاء نے ان کے جواب الجواب پر پاکستان میں مکمل پابندی عائد کر دی جو بالآخر ایک تاریخی کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا ‘‘ کی صورت میں تاریخ کا حصہ بنی۔ بھٹو صاحب نے جیل میں یہ جواب لکھا اور وکلاء کے ذریعے باہر بھیجتے تھے۔ جب یہ دستاویز تیار ہوئی تو لاہور کے مقامی پریس کے ذریعے شائع کی گئی ، خبر ملنے پر چھاپہ پڑا اور ساری کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔

پھر یہ ٹائپ شدہ دستاویز مرتضیٰ بھٹو نے دنیا بھر کے اخبارات اور سفارتخانوں میں بھیجنے کا اہتمام کیا۔ یوں بھٹو کے اس جواب سے دنیا روشناس ہوئی۔ دلی کے مشہور پبلشر وکاس پبلی کیشنز نے اسے شائع کیا اور مارچ 1979ء میں اس کتاب کو لند میں ایک پرہجوم کانفرنس میں متعارف کرایا گیا، تھوڑے ہی عرصے میں اس کتاب کی دولاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔ اس دستاویز میں نوکر شاہی کے فروغ اور دائو پیچ کی اندرونی دلچسپ کہانی کو بڑی صراحت اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کتا ب کی اہم بات یہ ہے کہ اس کا ترجمہ اصل تحریر سے کیا گیا ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

’’اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک مرید کئی برسوں سے آپؒ کی خدمت میں مصروف تھا، ایک دن آپؒ اپنے اس مرید کے ساتھ جنگل میں جارہے تھے۔ اتفاق سے اس روز سخت گرمی پڑ رہی تھی، جب کچھ دیرتک مسلسل دھوپ میں سفرجاری رہا تو مرید کی زبان سے بے اختیار نکل گیا۔

’’ آج کی گرمی تو ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ ٹھہر گئے اور نہایت پرجلال لہجے میں اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’ تو نے اتنے دنوں کی صحبت میں صرف شکایت ہی کرنا سیکھا ہے؟‘‘ مرید اپنے پیرومرشد کی گفتگو کا مفہوم نہیں سمجھ سکا اور دوبارہ موسم کی سختیوں کی شکایت کرنے لگا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے جلال میں اضافہ ہوگیا۔’’ ا پنی دنیا کی طرف واپس لوٹ جا! تو ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘

مختصر یہ کہ اس مرید کو خانقاہ سے نکال دیاگیا۔ دوسرے خدمت گاروں نے ڈرتے ڈرتے سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا’’ موسم کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں حکم خداوندی ہے۔ ماہ ونجوم اپنی مرضی سے طلوع وغروب نہیں ہوتے، سورج میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے ارادے سے آگ برسانے لگے۔ جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ اس لئے ہم بھی ایسے شخص کو عزیز نہیں رکھتے اور وہ ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘

دلچسپ انداز تحریر رکھنے والے خان آصف نے یہ واقعہ اپنی کتاب ’’ اللہ کے سفیر‘‘ میں بیان کیاہے۔ یہ واقعہ حضرت جنید بغدادیؒ سے منسوب بے شمار واقعات میں سے ایک ہے۔ اللہ کے برگزیدہ بندوں کے انہی واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات کیوں کہاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج فتنہ وفساد کی اس دنیا میں یہی اولیائے کرام انسانیت کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ ان بوریانشینوں نے اپنی پوری زندگی کو انتہائی ضروریات کے دائرے سے باہر نہیں جانے دیا حتیٰ کہ انھوں نے اپنی ضروریات پر بھی دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دی۔

کیونکہ ان کی ساری دلچسپی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت سمیٹنے میں تھی اور پھر انھوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت ہی سے لوگوں کے اذہان وقلوب کو بھر دیا۔ وہ اپنے آپ پر شکر کی ایسی کیفیت طاری کرتے کہ اللہ اس کے نتیجے میں ان پر اپنی نعمتوں کی برسات کرتا اور اللہ کی یہ بلند مرتبت ہستیاں ان نعمتوں کو مخلوق خدا میں بانٹ دیتے۔ اللہ کے ان دوستوں کی زندگی کامطالعہ کیاجائے تو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدلتی ہیں۔ خان آصف نے اپنے مخصوص انداز میں اللہ کے ہرسفیر کی داستان حیات کو ایک دلچسپ کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

’’اللہ کے سفیر‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ، حضرت رابعہ بصریؒ، حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ اور حضرت نظام الدین اولیاٰؒ کے تذکروں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ’’اللہ کے ولی‘‘ میں حضرت منصور حلاجؒ، حضرت سیدعلی ہجویریؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ، حضرت میاں میر لاہوریؒ، حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت سچل سرمستؒ کے تذکرے موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ان محبوب بندوں کے یہ تذکرے انسانوں کو بدل کررکھ دیتے ہیں، ایسی روشنی فراہم کرتے ہیں جس کی آج دنیا بھر کے معاشروں کو ازحد ضرورت ہے۔

’’اللہ کے سفیر‘‘ اور’’اللہ کے ولی‘‘… ان دونوں کتابوں میں سے ہر ایک سوا پانچ سو سے زائد صفحات پر محیط ہے، ہرایک کی قیمت 700روپے ہے۔ انھیں القریش پبلی کیشنز، سرکلر روڈ ،چوک اردو بازار ،لاہور نے نہایت عمدگی سے شائع کیا ہے۔ ٹائیٹل انتہائی دیدہ زیب جبکہ طباعت غیرمعمولی حد تک شاندار۔ ان کتابوں کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ محض تین چاربرسوں میں ان کے سات، سات ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

شاہکار غزلیں
تالیف:روبینہ کوکب
قیمت: 300روپے،صفحات:128،ناشر: دی رائیٹرز، اے زی بک سنٹر،راواں رحمان پورہ ،لاہور

شاعر اپنی زندگی میں بہت سے اشعار لکھتا ہے مگر اس میں ایسے بہت کم اشعار ہوتے ہیں جو زبان زد عام ہو کر شاہکار کہلاتے ہیں۔

میر کو ہی لے لیں انھوں نے نصف درجن کے قریب دیوان لکھے مگر مقبول عام کی سند سب کو نہ ملی۔ وہی شعر زبان زد عام ہوئے جو شاہکار تھے ۔ زیر تبصرہ کتاب میں بھی قدیم و جدید شاعری سے 100بہترین غزلوں کا انتخاب کیا گیا ہے، اس حوالے سے روبینہ کوکب خود کہتی ہیں ’’ میں یہ دعوٰی نہیں کرتی کہ اس مجموعے میں شامل تمام غزلیات اعلٰی ترین سطح کی ہیں

، البتہ یہ ضرور کہوں گی کہ مفکرین شعر نے جو پیمانے وضع کئے ہیں ان کو مدنظر رکھنے کے ساتھ میں نے ہر غزل کی اپنے عہد میں مقبولیت عام کو بھی مدنظر رکھا ‘‘ کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے واقعی جو معیار قائم کیا ہے اسے مد نظر رکھا گیا ہے۔ جیسے فراز کی مشہور غزل ہے،

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
جیسے علامہ اقبال کی مشہور غزل ہے
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اس کتا ب میں 66ممتاز شعراء کا مقبول کلام شامل کیا گیا ہے جن میں مرزا غالب ، میرا جی، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، مصطفیٰ زیدی، مجید امجد، پروین شاکر ، ناصر کاظمی ، حبیب جالب ، حسرت موہانی، ساغر صدیقی، افتخار عارف اور ابراہیم ذوق جیسے شعراء شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔