سندھ میں خواتین کا پارلیمانی استحصال

کشور زہرا  اتوار 6 اکتوبر 2013

ابہام ایسے کہ حلقہ بندیوں کے نقطہ نظر سے ووٹر اور عوام کو خود نہیں معلوم کہ وہ کس حلقے میں آرہے ہیں۔ 1979 کے ایکٹ کے مطابق 234 حلقے ہوا کرتے تھے، جنھیں 2002 کے SLGO کے تحت 178 یونین کونسلز میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اب جب کہ آنے والے الیکشن میں بہت کم وقت رہ گیا ہے، لیکن تاحال حکومت کی طرف سے کسی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے، اور نہ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی درست سمت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جس سے ووٹ لینے والا اور ووٹ دینے والا کسی کنفیوژن کا شکار ہونے کے بجائے انتخابات کی تیاری کر سکے۔ پالیسی واضح نہ ہونے کی صورت اور اس طرح کے ابہام میں کیا الیکشن کے نتائج منصفانہ ہوسکیں گے؟

جیسا کہ میں نے تحریر کے شروع میںعرض کیا کہ کچھ بہت واضح اور سوچے سمجھے فیصلے بھی نظر آتے ہیں جس میں ایک اہم پہلو سندھ میں خواتین کا پارلیمانی استحصال … ہم جان رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردینے والے دور سے نکل آئے ہیں، اور ایک توقع کے مطابق ان پلیٹ فارمز کے وسیع ہونے کے امکانات بڑھتے دیکھنا چاہتے تھے جہاں سے وہ اپنے حق کی آواز اٹھا کر اس ماحول کے سامنے ڈٹ جائیں جہاں جہیز نہ لانے پر تیل ڈال کر جلا دینا، خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینک دینا، ان کی آبرو ریزی اور تشدد کا نشانہ بنانے جیسے جرائم کا قانون سازی کے ذریعے قلمع قمع کیا جاسکے، کیوں کہ یہ ہی وہ گھنائونے عمل ہیں جنھوں نے ہمیں بین الاقوامی طور پر بھی رسوا کیا ہوا ہے۔ اس ظالمانہ اور گھنائونے نظام سے نجات پانے کے لیے خواتین کا ایسے پلیٹ فارم پر ہونا بہت ضروری ہے جہاں قانون سازی کی جاتی ہے، اور اس بلدیاتی نظام میں عورتوں کی سیٹیں کم کرکے یوں سمجھیے کہ ان کی اجتماعی طاقت کو کمزور کرکے ایک مثبت قانون سازی کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، جو اسی جہالت کی نشاندہی کرتی ہے جس میں عورت کو انسان نہیں ایک بلکہ comodity یا جنس تصور کیا جاتا ہے۔

ایسے نظام کے پروان چڑھانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو عورت کو صرف خدمت کرنے کی مشین سمجھتے ہیں اور اس کی فکر کی بالیدگی اور شعور کو مفلوج رکھنے کو اپنی مردانگی کی معراج سمجھتے ہیں۔ بیوی اور بیٹی بھی ہے تو اس کا ذہن سونے یا چاندی کے زیور سے بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر ملازمہ ہیں تو مار پیٹ اور تشدد سے اس کی زبان بند کردیتا ہے، اور جب ایسے ہی ذہن کے لوگ صاحبِ اختیار بن جاتے ہیں تو قانون سازی میں اس صنف کو حتی الامکان دھکیل کر دیوار سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ بلدیاتی نظام میں خواتین کی سیٹیں کم کرنے کا فیصلہ  کیا گیا ہے۔ ایوانوں میں سیٹیں بالکل ختم نہ کرنے اورآٹے میں نمک کے برابر شمولیت اس لیے بھی رکھی گئی کہ ایسے صاحب اختیار اقتدار کو اپنا حق اور ورثہ سمجھتے ہوئے اپنی خواتین یا اپنی مرہون منت خواتین کو ان ایوانوں میں براجمان کرنے کی رسم بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جب کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک اچھا بلدیاتی نظام وہی ہوتا ہے جو عوام کی جڑوں تک جاتا ہے اور ان ہی جڑوں سے نکل کر آنے والے ہی اس نظام کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔

اس طرح ان ایوانوں میں متوسط طبقے اور غریب طبقے دونوں کی نمایندگی ہی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔ پیراشوٹ سے اتر کر آنے والے نمایندے کبھی عام آدمی کے درد کو نہیں سمجھ سکتے، درد کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس سے گزرا ہو۔ یہی صورتحال خواتین کے حوالے سے ہے کہ وہ آبادی کے تناسب سے 52%  ہیں، سو اتنی نہ سہی 40% نمایندگی تو ہو۔ عورت کی مشکل، اس کی تکلیف، اس کا درد عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک اور وضاحت کرنا چاہوں گی کہ مرد حضرات صبح گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو آتے ہیں، گھر کا نظام، گلی سڑک پانی سیوریج کے مسائل سے خاتون خانہ کو ہی نمٹنا ہوتا ہے، اگر اس کے مسائل سننے والی ایک خاتون ہی ہو توشاید مسائل نسبتاً جلد اور آسانی سے حل ہوجائیں، بلدیاتی نظام کے سسٹم میں خواتین کی سیٹوں میں اضافہ ہی اسے کامیاب بنا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔