لیاری لٹریری فیسٹول

رمضان بلوچ  اتوار 6 اکتوبر 2019
لیاری کے تنوع اور کراچی کے زرخیز ماضی کو بازیافت کرنے کی توانا کوشش

لیاری کے تنوع اور کراچی کے زرخیز ماضی کو بازیافت کرنے کی توانا کوشش

گذشتہ ایک دہائی میں منعقد ہونے والے ادبی میلوں اور کانفرنسوں نے جہاں زبان و ادب کے فروغ میں کردار ادا کیا، قلم کاروں اور قاری میں مضبوط رشتہ استوار کیا، وہیں کئی بھولے بسرے شہروں کو بھی نئی شناخت عطا کی۔ تربت لٹریچر فیسٹول بھی ایسا ہی ایک سلسلہ تھا، اور اب اس کی تازہ اور توانا شکل لیاری لٹریری فیسٹول ہے، جو 21اور 22 ستمبرکو بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں منعقد ہوا۔

لیاری لٹریری فیسٹیول (ایل ایل ایف) کی ٹیم میں شامل لمحہ کوثر نے کچھ دن پہلے ہی ہمیں ’’خبردار‘‘ کردیا تھا کہ 21 اور 22 ستمبر کو بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں آکر دیکھیں کہ خواتین کی قیادت میں رضاکاروں ٹیمیں کس طرح اپنی اہلیت کا ثبوت دینے جارہی ہیں۔

ان دو دنوں میں ہم نے، اور ہزاروں کی تعداد میں آنے والے حاضرین نے، وہاں جو کچھ دیکھا، واقعی ہم تو ششدر رہ گئے۔ مثالی نظم و ضبط، پیشہ ورانہ انتظامی صلاحیتوں اور ضبط و تحمل سے سعدیہ بلوچ اور پروین ناز کی قیادت میں کس مہارت کے ساتھ ان کی ٹیمیں لیاری کی “سرزمین” پر علم و ادب اور فنون لطیفہ کی محفلیں سجانے میں کام یاب ہوئیں، جو ایک یادگار تقریب کے طور پر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔

مہر در آرٹ پروڈکشن اور بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری کے اشتراک سے ہونے والی اس ادبی تقریب میں دو دن تک گہماگہمی اور ذوق و شوق کے ماحول میں 23 نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں تقریباً 90 مقررین اور 11 نامور آرٹسٹوں نے حصہ لیا۔

جو مذاکرے ہوئے، ان میں لیاری کی تعلیمی صورت حال، سیاست: ماضی حال اور مستقبل، سوشل میڈیا کے جدید رجحانات، کراچی اور لیاری کی تاریخ، ذہن سازی میں یونیورسٹیوں کا کردار، ثقافت ادب اور آرٹ میں خواتین کی شرکت، مادری زبانوں میں ادب کا فروغ، اقلیتوں کے مسائل، جھوٹی خبر کا معاشرہ پر اثر، آرٹ آرٹسٹ اور ادارے، تشدد و انتہا پسندی کی روک تھام میں ادب۔ فن اور اداروں کا کردار، بلوچی ادب کی اہمیت، شاعری میں جدید رجحانات، کراچی میں تجاوزات کے مسائل، لیاری اور اسپورٹس، پُرامن معاشرہ کے قیام میں خواتین کا حصہ، بلوچی ادب کے جدید رجحانات جیسے موضوعات شامل تھے۔ پینل ڈسکشن میں لیاری سمیت کراچی، کوئٹہ، گوادر، تربت کے دانشور، محقق، ادبی شخصیات اور یونیورسٹی کے اساتذہ شریک ہوئے۔

علاوہ ازیں تھیٹر، میوزک، فلم اسکریننگ، داستان گوئی، قوالی، اردو اور بین الصوبائی زبانوں کے مشاعرے، ڈانس، مصوری، کتابوں کی تقریب رونمائی، مدرہڈ انسٹیٹیوٹ، طلبا کی صلایتیں بڑھانے کی ورکشاپس بھی منعقد ہوئیں، جن میں بچوں اور طلبا نے بھرپور حصہ لیا۔

یونیورسٹی کے کاریڈور میں بُک اسٹالز، فوڈ اسٹالز، مختلف این جی اوز اور دستکاری کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جہاں ہروقت لوگوں کا ہجوم رہا۔ بچوں کی تفریح کھیل کود اور ان کی علمی قابلیت بڑھانے کی سرگرمیوں کے لیے یونیورسٹی کا ایک پورا بلاک وقف کردیاگیا تھا۔

بینظیر یونیورسٹی، حبیب یونیورسٹی، کیچ (تربت) یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے طلبا کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ دو دنوں میں آنے والوں کی اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ بی ایس او کے علاوہ لیاری میں سرگرم نوجوانوں کی تنظیموں لیاری عوامی محاذ، لیاری پروگریسیو فورم، وائس آف لیاری اور لیاری سوشل کارنر نے بھرپور شرکت کی۔ یہاں کے عوامی نمائندوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، سماجی اور سیاسی ورکرز، طلبا و طالبات اور فیملیز نے دو دن تک اس ادبی میلہ کو رونق بخشی۔

لیاری لٹریری فیسٹیول میں شامل ایک اہم مذاکرے کا عنوان “باہمی رشتے جوڑنے میں آرٹ، آرٹسٹ اور اداروں کا کردار” بھی تھا، جس کے ماڈریٹر ہمارے اپنے دلپذیر شاعر وحید نور تھے اور شرکاء میں سندھ دھرتی کی قابل فخر بیٹی ادی نورالہدی’ شاہ اور کراچی آرٹس کونسل کے ہردالعزیز سربراہ احمد شاہ صاحب شامل تھے۔ مختلف پہلوؤں سے رشتے جوڑنے اور مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی پُرمغز باتیں ہوئیں۔

دو دنوں میں ڈاکٹر توصیف احمد خان، ڈاکٹر رخمان گل پالاری، ڈاکٹر منظور بلوچ، اقبال خورشید، عابد میر سے مدتوں بعد ملاقاتیں ہوئیں۔ وسعت اللہ خان صاحب کے ساتھ پہلی بار چند ساعتیں گزارنے کا موقع ملا اور بہت اچھا لگا۔ تاج حیدر اور ڈاکٹر آصف فرخی سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹرآصف فرخی حبیب یونیورسٹی میں اپنے کلاس کے اسٹوڈنٹس کو بین الاقوامی سطح پر جانے پہچانے نوجوان پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جواد شریف کی فلم “انڈس بلیو” دکھانے تشریف لائے تھے۔ یہ رشتے ناتے اسی وقت پروان چھڑتے ہیں جب معاشرہ پر امن ہو اور اور علم و ادب کی محفلیں سجتی رہیں۔

ان دو دنوں میں مہر در آرٹ پروڈکشن اور بینظیر شہید یونیورسٹی لیاری نے سندھ، بلوچستان، کراچی اور لیاری کے باسیوں کے دل جوڑے اور انہیں مزید قریب تر لانے کی کاوشیں کیں، جو قابل تعریف ہیں، اس ادبی میلہ میں ذاتی طور پر ہمیں بھی کچھ رشتے مضبوط تر اور کچھ نئے رشتے جوڑنے میں کامیابی ہوئی۔

لیاری ادبی میلہ کے انعقاد کا ایک مقصد ادب و فنون کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی شامل تھا۔ اسی جذبے کے تحت پورے شہر کراچی کے مختلف حصوں میں ایل ایل ایف کی انتظامیہ کی جانب سے شٹل سروس کی سہولتیں فراہم کی گئیں، جس کی وجہ سے گلشن اقبال، بلدیہ ٹاؤن، ابراہیم حیدری، صدر اور ٹاور سے بسوں کے ذریعے وہاں کے ادب دوست حلقوں اور نوجوانوں کے لئے بینظیر یونیورسٹی تک رسائی کو ممکن بنایا گیا۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، لیکن ہر ہوش مند ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کیا یہ سب کچھ ممکن ہوتا، اگر بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ اور ان کی ٹیم کا دست تعاون شامل نہ ہوتا؟ ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم نے قدم قدم پر ایل ایل ایف کا ساتھ دیا اور ان کے مشترکہ تعاون سے دنیا میں لیاری کی علمی ادبی شناخت ابھری اور اس کا اجلا روشن چہرہ ابھر کر سامنے آیا۔ امید ہے یہ شرکت جاری اور مستقل بنیادوں پر قائم رہے گی۔

لیاری میں ہمیشہ سے علم و ادب کی محفلیں سجتی رہی ہیں، لیکن پہلی مرتبہ اتنے بڑے اہتمام اور منظم طریقے سے دو دن تک علمی اور ادبی ماحول کو برقرار رکھا گیا۔ ایسی ہی نشستوں اور رونقوں سے امن پسندی، ادب و علم دوستی اور معاشرتی ہم آہنگی کے رجحانات اور پیغامات سے صحت مند معاشرہ جنم لیتا ہے۔

ایل ایل ایف کی خواتین راہ نماؤں سعدیہ بلوچ اور پروین ناز اور ان کی ٹیم کے تمام ارکان کو اس کام یابی پر مبارک باد دے کر ہم تو رخصت ہوتے ہیں۔ البتہ جاتے لمحہ کوثر سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہWomen Empowerment کے ہم قائل تو ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔