اوورسیز پاکستانیوں کے 7.5 ارب ڈالر میں سے صرف 60 لاکھ ریکور

شہباز رانا  ہفتہ 5 اکتوبر 2019
ٹیکس اتھارٹیزکو ایک لاکھ 52 ہزار اکاؤنٹس کا پتہ چلا، ایک سال میں صرف 19 کیس نمٹے
۔ فوٹو: فائل

ٹیکس اتھارٹیزکو ایک لاکھ 52 ہزار اکاؤنٹس کا پتہ چلا، ایک سال میں صرف 19 کیس نمٹے ۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد:  پاکستان کو آرگنائزیشن فار اکنامک کواپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ  کے رکن 44 ممالک میں پاکستانیوں کے نئے آف شوربینک اکاؤنٹس کا پتہ چلا ہے لیکن انتظامی کمزوریوں اور ناقص کارکردگی کے سبب 2018ء کی ایمنسٹی اسکیم میں ان سے کوئی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔

ایف بی آرمیں ڈائریکٹرجنرل برائے انٹرنیشنل ٹیکسز محمد اشفاق نے ایک عالمی جریدے میں لکھی گئی اپنی تحریرمیں سپریم کورٹ کو بھی اس ناکامی کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ایف بی آرکے ترجمان ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے بھی ایکسپریس ٹریبون کے رابطے کرنے پر اوای سی ڈی کے 44 ممالک کی طرف سے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شیئرکرنے کی تصدیق کی ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ تقریباً28 ایسے ممالک جہاں پاکستانی مقیم ہیں نے ایسی اطلاعات شیئرکی تھیں۔

گزشتہ سال ستمبرمیں ٹیکس اتھارٹیزکو 57 ہزار450 پاکستانیوں کے ایک لاکھ 52 ہزار بینک اکاؤنٹس کا پتہ چلا تھا جن میں ساڑھے 7ارب ڈالر جمع تھے۔لیکن وزیراعظم کی اعلیٰ ترین ترجیحات میں شامل اس کام کے باوجود حکام ایسے صر ف 19 کیس نمٹا سکے اور ساڑھے سات ارب ڈالر میں سے صرف 60 لاکھ ڈالر ریکورہوسکے۔انھوں نے اس کی تفصیلات اس سال جولائی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو مہیا کردی ہیں۔

ایف بی آر نے قائمہ کمیٹی کو یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ 31 اکتوبر تک تمام زیرالتوا کیس نمٹا دیئے جائیں گے لیکن اب تک کی کارکردگی توقعات سے کہیں کم ہے ۔محمد اشفاق کا مزید کہنا ہے کہ اوای سی ڈی ممالک سے جن لوگوں کی تفصیلات ملی تھیں وہ 2018 ء کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا چکے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ سوئس بینکوں میں پڑے 200 ارب ڈالر واپس لائیں گے۔انہوں نے یہ اعلان اسحاق ڈار کی طرف سے دیے گئے اعدادوشمارکی بنیاد پر کیا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں۔

ڈاٹریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز محمد اشفاق نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان کی معیشت پر اشرافیہ کا قبضہ ہے اور انہیں ملک کے اندرسپریم کورٹ سمیت بااثراداروں کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔نہ صرف بیوروکریسی بلکہ میڈیا، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ جیسے آئینی ادارے بھی ان کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جن پاکستانیوں کی بیرون ملک دولت کا پتہ چلا ہے ان میں زیادہ تر ایکسپورٹ اور امپورٹ کے بزنس سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ انڈرانوائسنگ ایکسپورٹ اور اوورانوائسنگ امپورٹ کے ذریعے باہر سے زرمبادلہ اپنے ملک میں لانے کے بجائے بیرون ملک ہی جمع کرواتے رہے ہیں۔ایمنسٹی سکیم کے ذریعے جن اثاثوں کو کلیئرکرایا گیا ان میں بیشتر قابل تبادلہ اثاثے تھے ۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ 2018 ء کی بیرونی اثاثے ڈکلیئرکرنے کی سکیم کے تحت پاکستان سے باہر بھیجے گئے چار ارب ڈالر واپس لائے جاسکتے تھے لیکن کل لیکیوڈ ایسٹس جو ظاہر کیے گئے لیکن واپس نہیں لائے گئے ان کی مالیت 727.85 ارب روپے تھی۔پاکستان لائے گئے اثاثوں کی مالیت صرف 6.42 ارب روپے تھی۔ستمبر2018 ء میں بھی ریاست ایلیٹ گروپوں پرشدید دباؤ کے باوجود ان کے سامنے جھک گئی۔ایلیٹ طبقہ نے ریاستی نظام کو کمزور کررکھا ہے۔عالمی سطح پر بھی جب اس طبقے کوکسی دباؤکا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اپنے مجرمانہ ماضی کو قانون تلے لاکر معافی تلافی کرا لیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔