دینی مدارس کے اکائونٹس منجمد کیوں؟

مزمل سہروردی  پير 7 اکتوبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں دینی مدارس کے وجود کے حوالے سے ایک بحث نائن الیون کے بعد سے جاری ہے۔ مدارس کی اصلاحات کا بھی بہت شور ہے۔ جنرل مشرف کی حکومت بہت شور مچاتی رہی۔ تبدیلی کے موجودہ دور حکومت میں بھی مدارس  اصلاحات کا بہت شور ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی پریس کانفرنس کی اور مدارس میں اصلاحات کے ایک ایجنڈے کا روڈ میپ بتایا۔ وزیر اعظم سمیت سب مدارس کی اہمیت بیان کرتے ہیں اور اس کو پاکستان کے تعلیمی نظام کا ایک اہم جزو قرار دیتے ہیں۔

ابھی تک کسی بھی حکومتی پالیسی سے یہ ظاہر نہیں ہوا کہ حکومت مدارس کے لیے کوئی پالیسی بنانا چاہتی ہے۔ البتہ مدارس میں پڑھائے جانے والے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اسے آج کے دور کے مطابق بنانے پر بہت بات کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں مدارس کو اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ میٹرک ایف اے بی اے اور ایم اے کے امتحانات دلوانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

مدارس کو بورڈ آف سیکنڈری اور انٹرمیڈیٹ کے ساتھ الحاق کا پابند بنا یا جا رہا ہے تا کہ بچے دنیاوی تعلیم کے امتحانات میں بھی حصہ لے سکیں۔ یہ سب مثبت اقدام ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مدارس کی فنڈنگ کی مانیٹرنگ کا نظام بھی بنایا گیا ہے۔

مدارس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے حساب کتاب کے نظام کو فعال بنائیں۔ پیسے بینک اکائونٹس میں رکھیں۔ جس سے پیسے لیں اس کو باقاعدہ رسید جاری کریں اور تمام پیسے پہلے بینک میں جمع کروائیں اورپھر بینک سے اپنے اخراجات کریں۔ مدارس کو اپنے اکائونٹس کا سالانہ آڈٹ کرانے کا بھی پابند کیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان تمام اقدامات کا حامی ہوں۔ اور ان کو درست سمجھتا ہوں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نوے فیصد سے زائد مدارس غیر سیاسی ہیں۔ ان کا کام صرف درس و تدریس ہے۔ چند مخصوص ایسے مدارس ہوںگے جن کا سیاسی ایجنڈہ بھی ہوگا۔ اس طرح نناوے فیصد سے زائد مدارس امن پسند ہیں۔ وہاں دہشت گردی کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے مدارس نے کوئی دہشت گرد پیدا نہیں کیے۔ دہشت گرد پیدا کرنے کی فیکڑیاں الگ رہی ہیں۔

یہ اچھی بات رہی ہے کہ دہشت گردی کی نرسریاںلگانے والوں نے مدارس کو بہت کم استعمال کیا ہے۔ ان کا سب کو معلوم ہے۔ البتہ مغرب چونکہ اس فرق کو سمجھنے سے قاصر رہا ہے اس لیے مدارس کو بین الاقوامی طور پر بدنام کیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بین الاقوامی طورپر مدارس کے خلاف  ہونے والی منظم پراپیگنڈہ مہم کا جواب دینے کی مدارس کی تنظیموں میں صلاحیت اور اہلیت نہیں تھی۔

بہر حال آج پاکستان میں مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات بھی ہو رہی ہے لیکن مدارس کے ساتھ زیادتی بھی جاری ہے۔ ارباب اختیار اور ارباب اقتدار مدارس کو اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلا رہے ہیں۔ لیکن عملاً ایسا نظر نہیں آرہا۔ حکومت ہر طرح سے یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ مدارس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے۔ مدارس کو مکمل طور پر غیر سیاسی ہونا چاہیے۔ جب کہ دوسری طرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت نے مدارس کے حوالے سے ایک منظم اور مربوط مہم  شروع کر دی ہے۔لیکن اس سب سے قطع نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا واقعی مدارس کے خلاف کوئی کارروائی ہو رہی ہے کہ نہیں۔

میں لاہور کارہنے والا ہوں۔ 1983میں میرے والد صاحب نے علامہ اقبال ٹائون کامران بلاک میں گھر بنایا۔ اور ہم اس گھر میں شفٹ ہو گئے۔ 2016 تک ہم اس گھر میں رہے۔کامران بلاک میں میرے گھر کے سامنے ایک بہت بڑا مدرسہ موجود تھا۔ ہمار ے گھر بنانے سے پہلے سے یہ مدرسہ وہاں تھا۔ اور اب بھی ہے۔ اس مدرسہ کے بچے شام کو ہمارے ساتھ کرکٹ بھی کھیلتے تھے۔

اس طرح ہماری اس مدرسہ کے بچوں سے بھی بہت دوستی ہو گئی۔ اس مدرسہ سے پورے علاقہ کو کبھی کوئی شکایت نہیں رہی۔ یہ کھلے عام چندہ بھی نہیں مانگتے ۔ جو دے جائے شکریہ ورنہ چندہ کی کوئی باقاعدہ اپیلیں نہیں کی جاتیں۔ اس وقت اس مدرسہ میں بارہ سو سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ جب کہ ان میں سے آٹھ سو سے زائد اس مدرسہ میں رہتے ہیں۔ پورے ملک سے آنے والے بچے یہاں رہتے ہیں۔ ان آٹھ سو بچوں کے لیے مدرسہ میں تعلیم کے ساتھ قیام و طعام کی مکمل سہولیات بھی موجود ہیں۔

33سال اس مدرسہ کے سامنے رہنے کے باوجود ہمیں ان سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اس مدرسہ میں اجتماعی قربانی کا بہت اعلیٰ نظام ہوتا تھا۔ لیکن گزشتہ دو سال سے وہاں اجتماعی قربانی نہیں ہو رہی۔ لیکن چونکہ میں بھی 2016 سے وہاں نہیں رہ رہا۔ لہذا میرے لیے یہ اہم نہیں رہا کہ سالہا سال سے جاری اجتماعی قربانی کا سلسلہ بند کیوں ہو گیا۔

میں نے مدراس کے حوالے سے ملکی سطح پر جاری اس بحث کے تناظر میں اس مدرسہ کے حالات جاننے کے لیے وہاں رابطہ کیا تو میں حیران ہی رہ گیا۔ وہاں تو حالات ہی بدل گئے ہیں۔ جاننے پر معلوم ہوا کہ گزشتہ کئی ماہ سے مدرسہ کے تمام اکائونٹس منجمند کر دیے گئے ہیں۔ میں نے کہا اکائونٹس منجمند کرنے کا کوئی تحریری حکم کوئی تحریری وجوہات بتائی گئی ہیں۔ تو انھوں نے کہا نہیں۔ اس لیے خاموش بیٹھے ہیں۔

میں نے کہا نظام کیسے چل رہا ہے۔ انھوں نے کہا پریشان ہیں۔آ ٹھ سو بچے ہیں۔ ان کا تین وقت کھانا پکنا ہے۔ ان کے اخراجات تو نہیں روکے جا سکتے۔ بس کبھی کھانا پک جاتا ہے کبھی نہیں۔ اساتذہ اور دیگر عملے کو تو کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ایک طرف حکومت نقد چندہ لینے سے منع کر رہی ہے۔ آڈٹ کا نظام بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔دوسری طرف اکائونٹس منجمد کیے جا رہے ہیں۔ معلوم کرنے پر مجھے پتہ چلا کہ اس وقت سو سے زائد بڑے مدارس کے اکائونٹس منجمند کر دیے گئے ہیں۔ معاملہ وفاق المدارس کے نوٹس میں ہے۔

میں حیران ہوں کہ یہ اکائونٹس بند کرنا کیا حکمت عملی ہے۔ اگر کسی مدرسہ پر کوئی الزام ہے تو اس کو باقاعدہ بند کیا جائے۔ اس کا وفاق المدارس سے الحاق ختم کیا جائے۔ اس کا متعلقہ بورڈ اور دیگر اداروں سے الحاق ختم کیا جائے۔ یہ کیا حکمت عملی ہے کہ بچے پڑھ بھی رہے ہیں۔ نظام بھی چل رہا ہے ۔صرف اکائونٹس منجمد کیے جا رہے ہیں۔ صرف بیانات دینے سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ کہیں وہ خود مدارس کو اپنے مخالف کیمپ میں تو دھکیل نہیں رہی۔زیادہ زیادہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا حلقہ انتخاب ہے۔ جو خود مدارس میں اصلاحات کا کام کر رہے ہیں۔ یہ میاں محمود الرشید کا بھی حلقہ انتخاب ہے۔ وہ بھی اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔