یہ پُر امن پاکستان کی برکتیں ہیں

تنویر قیصر شاہد  پير 7 اکتوبر 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دشمنانِ پاکستان نے پاکستان کا امن اور امیج تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ کونسا ایسا حربہ اور ہتھکنڈہ نہیں تھا جو کئی رُخے دشمن نے ہمارے ملک کے خلاف نہیں آزمایا۔ خود کش حملہ آوروں نے یہاں خون کی ندیاں بھی بہائیں۔

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج وطنِ عزیز میں امن مستحکم ہو چکا ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز، افواجِ پاکستان ، خفیہ اداروں اور پولیس نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر دہشتگردوں اور امن دشمنوں کا منہ موڑ ڈالا ہے۔ پاکستان کے دوبڑے شہروں میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کا میچ کھیلنا اور ان میچوں میں پاکستانی شائقین کا بے دریغ شریک ہونا اس امر کا ایک اور قابلِ فخر ثبوت ہے کہ پاکستان امن کی نعمتوں سے فیضیاب ہو رہا ہے۔

سری لنکن ٹیم کے تمام کھلاڑی اور خود سری لنکن گورنمنٹ بھی اقرار اور اعتراف کر رہی ہے کہ آج پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ بھارت کی بڑی کوشش تھی کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان میچ کھیلنے نہ جا سکے لیکن پاکستان اور پی سی بی کی باہمی کوششوں نے سری لنکا حکومت کا اعتماد حاصل کیا۔ لاہور اور کراچی میں کئی کرکٹ میچ ہو چکے ہیں ۔

ہم سب پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے امن، سکون اور اعتماد کی یہ منزل حاصل کرنے کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سری لنکن ٹیم کی سیکیورٹی کی خاطر لاہور کی بعض سڑکوں کی بلاکنگ نے یقیناً شہریوں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں لیکن لاہوریوں نے ان مسائل کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا ہے۔

لاہور اور کراچی کو ایک عشرے بعد (وَن ڈے اور ٹی ٹوئنٹی) انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کا اعزاز مل رہا ہے۔ سری لنکا ٹیم کا لاہور اورکراچی آ کر کھیلنے کا براہِ راست مطلب یہ بھی ہے کہ وطنِ عزیز میں امن و امان کو استحکام مل چکا ہے۔ اس صورتحال پر کرکٹ کے عالمی ادارے اور کرکٹر بھی اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کو لاہور اور کراچی میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی سیکیورٹی پر بے تحاشہ فنڈز خرچ کرنا پڑے ہیں۔

سچ مگر یہ ہے کہ اقوامِ عالم میں اعتبار اور اعتماد پانے کے لیے پیسوں کی یہ قربانی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دس سال قبل لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ پاکستان کی سلامتی اور امنِ عامہ پر بھی حملہ تھا۔ حملے کے ڈیزائننگ کرنے والوں کا مقصد اور ہدف ہی یہ تھا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ اور کرکٹروں کی آمد کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ اس کوشش اور سازش میں وہ جزوی طور پر کامیاب بھی ہُوئے تھے کہ مذکورہ حملے کے بعد پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہو گئے تھے اور اس کے بعد پاکستان کو مجبوراً اپنی تمام انٹرنیشنل سیریز بیرونِ ملک کھیلنا پڑی تھیں۔

لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے میں خوش قسمتی سے کسی کھلاڑی کا جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ البتہ قانون نافذ کرنے والے ہمارے اداروں کے 8جری جوان مقابلہ کرتے ہُوئے شہید ہو گئے تھے۔

اس سانحہ کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ کے انعقاد پر جمود کی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ اس جمود کو توڑنے کے لیے پاکستان کے سبھی اداروں، پی سی بی اور حکومتی شخصیات کو بہت تگ و دو کرنا پڑی تھی کہ ہمارے دشمنوں نے عالمی سطح پر نہایت سائنٹفک انداز میں منفی پروپیگنڈے کی لَے تیز کر رکھی تھی۔ اس جمود کا پہلی مرتبہ خاتمہ اس وقت ہوا تھا جب چار سال پہلے زمبابوے کی ٹیم نے تین میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ تمام میچ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پوری اسپرٹ اور تندہی سے کھیلے گئے تھے۔ کرکٹ شائقین نے جس جوش و خروش سے انھیں خوش آمدید کہا، اس سے ہمارے کرکٹروں کے ساتھ دُنیا بھر کے کرکٹروں کو بھی ایک نیا حوصلہ ملا تھا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کامیاب کرکٹ میچوں کے انعقاد میں ہماری سیکیورٹی فورسز، خفیہ اداروںاور لاہور کی انتظامیہ نے زبردست کردار ادا کیا۔ لاہوریوں نے بھی جس تحمل، صبر اور ڈسپلن کا مظاہرہ کیا، یہ بھی قابلِ ستائش تھا۔ یہ کامیابی دراصل اجتماعی سعی تھی۔ اس کے بعد پاکستان سپر لیگ کے میچز کے کامیاب انعقاد کی بدولت دو سال قبل ورلڈ الیون کی ٹیم نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا جب کہ اُسی سال ایک ٹی20 میچ کے لیے سری لنکن ٹیم بھی پاکستان آئی تھی۔ پچھلے سال بھی پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی تین ٹی 20 میچز کے لیے کامیابی سے میزبانی کی۔ اس سے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف سے دنیا کو مثبت پیغام گیا۔ یہ مثبت پیغام درحقیقت دشمنانِ پاکستان کی شکست اور ہار بھی تھی ۔

اب کراچی اور لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان جو کرکٹ میچ ہو رہے ہیں، یہ کوئی معمولی مہم نہیں تھی۔ پاکستان ابتدائی طور پر سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ کا ملک میں انعقاد کا خواہاں تھا تاہم بعدازاں دونوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز نے ون ڈے اور ٹی20 سیریز کے پاکستان میں انعقاد پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم پاکستان کی کوششوں کو اُس وقت دھچکا لگا جب 10 سینئر اور اہم سری لنکن کھلاڑیوں نے دورہ پاکستان سے انکار کر دیا۔

اس دوران سری لنکن ٹیم کو دَورئہ پاکستان کی صورت میں مبینہ طور پر دہشتگرد حملے کی دھمکی بھی موصول ہوئی تھی۔ اس کارن بھی یہ دورہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا تھا۔ اس مبینہ دھمکی کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ پاکستان کے خلاف بروئے کار کچھ عالمی قوتوں نے ابھی اپنی روش ترک نہیں کی ہے۔ بعدازاں مگر حکومتِ پاکستان نے سری لنکا کو مکمل سیکیورٹی کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تو سری لنکن حکومت اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے پر راضی ہو گئی۔

ہم سری لنکا کی حکومت کے ممنون ہیں کہ اُس نے پاکستان پر اعتبار کیا۔ پاکستان نے بھی نہایت تندہی سے سری لنکن ٹیم کو لاہور اور کراچی میں زبردست سیکیورٹی فراہم کرکے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا ہے۔   سری لنکا کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’پاکستان میں سیکیورٹی واقعی بہت فرسٹ کلاس ہے۔ ہمیں کوئی بھی مسئلہ نہیں۔ یہاں ہمیں بہترین سہولیات میسر ہیں۔‘‘ حفاظت کے پیشِ نظر سری لنکن ٹیم کو دونوں شہروں ( لاہور اور کراچی ) میں بہرحال آزادانہ گھومنے پھرنے کی آزادی نہیں تھی۔ قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پی سی بی کے ساتھ ساتھ ہماری افواج، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں نے ملک میں عالمی کرکٹ کی واپسی کے لیے بہت محنت کی ہے۔

مقامِ شکر ہے کہ کراچی کے بعد لاہور میں بھی سری لنکا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والے تمام میچ بخیر و خوبی انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ لاہور میں ابھی دو ایک میچ باقی رہتے ہیں۔ ان کے اختتام پر سری لنکن ٹیم بحفاظت اور مسرت سے اپنے وطن لَوٹ جائے گی۔ یقیناً وہ خوشگوار یادیں سمیٹتے ہُوئے پاکستان سے روانہ ہوگی۔ اس کا نہایت مثبت اور پُرامن پیغام دوسری عالمی کرکٹ ٹیموں تک بھی پہنچا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ یہ کامیابی دراصل نئے اور پُر امن پاکستان کی کہانی ہے۔ اس کہانی پر ہم سب فخر کر سکتے ہیں۔ یاد رکھنے والی بات مگر یہ ہے کہ امن کی یہ منزل حاصل کرنے کے لیے جہاں پاکستان کے عوام نے 70 ہزار سے زائد اپنے بے گناہ شہریوں کی قربانی دی ہے، وہاں ہماری افواج کے افسروں اور جوانوں نے امن کے دشمنوں کے خاتمے کے لیے بے دریغ اپنا لہو بہایا ہے۔ ان جوانمردوں کو پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا اجتماعی سیلوٹ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔