وزیراعظم کاکامیاب دورئہ امریکا…اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 7 اکتوبر 2019
’’ماہرین ِ امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

’’ماہرین ِ امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں‘‘ کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب انتہائی اہم اور کامیاب رہا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے 70 سے زائد ملاقاتیں و فورمز پر بات چیت کی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھرپور لابنگ کی۔

وزیراعظم کے اس دورے کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور مقامی و عالمی میڈیا میں بھی خصوصی کووریج دی گئی۔ ان کے اس دورے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر اقبال چاولہ (ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز لاء و چیئرمین شعبہ تاریخ پنجاب یونیورسٹی )

وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ، دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ انہوں نے فی البد یہہ تقریر کی ،ان کا انداز متاثر کن اور کنٹینر سے ہٹ کر تھا۔ وزیراعظم نے سربراہان مملکت کیلئے نہیں بلکہ مغرب میں رہنے والے ان تعلیم یافتہ لوگوں کیلئے تقریر کی جو اسلامو فوبیا کا شکار ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر قرارداد پاس کی لہٰذا یہ اس کی کمزوری ہے کہ ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں کیا جاسکا۔وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایڈوائزری پارٹی ہے، وہ عملدر آمد نہیں کرواسکتا۔ عملدرآمد سپر پاورز نے کرنا ہے۔ سپر پاورز کے آپس کے ٹکراؤ و مفادات کی گیم میں ہم پستے رہے۔ صرف دو مقامات پر پاک بھارت باہمی معاملات حل ہوئے ہیں، ایک پاکستان بننے سے پہلے معاہدہ لکھنؤ 1916ء میں ہوا جبکہ دوسرا شملہ معاہدہ ہوا۔ میرے نزدیک اب تیسری پارٹی کو ہی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ دنیا میں 4 لوگ ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہو، عمران خان اور نریندر مودی تقریباََ ایک ہی وقت میںبرسر اقتدار آئے ہیں جن کا سٹائل ایک جیسا ہے اور چاروں کے بارے میں ہی معلوم نہیں کہ کب کیا کر جائیں، سب ہی یوٹرن لیتے ہیں۔ اپوزیشن کو یہی خدشہ ہے کہ تقریر تو ہوگئی مگر آگے کیا ہوگا۔ ان کی اس تقریر کے مغرب اور اسلامی دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اسلامی کارڈ کھیلا ہے، یہ مضبوط کارڈ ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔یہ عمران خان کی واحد تقریر ہے جوعوامی سطح پر غیر متنازعہ ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو تنقید کی گئی ہے اس کا پس منظر ہے۔ وزیراعظم کے حالیہ دورہ کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، اگر پہلے نہیں تو واپسی پر ہی انہیں اعتماد میں لے لینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا، وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ اس دورہ کے حوالے سے پارلیمنٹ میں اتفاق رائے قائم کرتے۔ ایک طرف ہم حالت جنگ میں ہیں جبکہ دوسری طرف ملک کے اندر گرفتاریاں کی جارہی ہیں،مولانا فضل الرحمن مارچ کرنے جا رہے ہیں، ان کے بے شمار لوگوں پر مقدمات درج ہوگئے ہیں، میرے نزدیک اس سیاسی ناپختگی سے کشمیر کاز کو نقصان ہورہا ہے۔ کشمیر میں کرفیو کو 60 دن سے زیا دہ ہوگئے جو افسوسناک ہے۔ عمران خان کی تقریر کے بعد بھارت میں لوگ تقسیم ہوئے ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے جو بیان دیا اور محبوبہ مفتی کی بیٹی کا انٹرویو وہی باتیں ہیں جو ہمارا موقف ہے۔ آج کے حالات70ء والی کیفیت کا الٹ ہیں۔ اس وقت صورتحال بھارت کے حق میں تھی اور اس نے مکتی باہنی بنا کر ہمیں تنہا کیا اور نقصان پہنچایا جبکہ آج حالات ہمارے حق میں بہتر ہیں۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نے بھارت کو تنہا نہیں کیا بلکہ مودی نے خودکشی کی۔ اب دنیا نوآبادیاتی نظام کے حق میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اسے سراہتا ہے، بھارت نے کشمیر میں 9 لاکھ فوج تعینات کرکے کرفیو لگا دیا جس پر دنیا بول اٹھی ہے۔ بھارت اسرائیل کی طرز پر کام کر رہا ہے لہٰذا ہمیں بنگلہ دیش، چین و خطے کے دیگر ممالک کے ذریعے بھارت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کیونکہ اگر بھارت نے اسرائیل کی طرح وقت گزار لیا اور حالات پر قابو پالیا تو پھر مسئلہ کشمیر اگلے 50 برس بھی حل نہیں ہوگا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ’اب نہیں تو کبھی نہیں‘ لہٰذا کشمیر کے حوالے جامع حکمت عملی بنا کر مزید کام کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت کو سیاسی جماعتوں کی اہمیت سمجھنا ہوگی، انہیں ساتھ ملانا ہوگا اور ایک مضبوط موقف اپنانا ہوگا تاکہ مسئلہ کشمیر سمیت دیگر بڑے چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔

 پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات (ماہر امور خارجہ)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال ستمبر میں ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں اور دیگر اجلاس جہاں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ،فرق ہے۔ یہاں تقریر کی جاتی ہے، دوسرے فریق کو جواب کا حق دیا جاتا ہے اور پھر آپ کو جواب دینے کا حق ملتا ہے اور بات ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے افغانستان و فلسطین کی بیشتر قراردادیں منظور کی گئیں کیونکہ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو ہوجائیں گی۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ووٹنگ تو ہونی نہیں تھی اور سب نے اظہار خیال کرنا تھا۔ میرے نزدیک وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں جامع اور مدلل تقریر کی اور تمام نکات کو اچھے طریقے سے بیان کیا۔ ایک بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ ’ماحول کا سال‘ منا رہی ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے اپنی تقریر کا آغاز ماحول سے کیا اور یہ بھی کہا کہ بھارت کی جانب سے درخت گرائے جانے پر دکھ ہوا۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ انتہائی مشکل حالات کے بعد کرفیو لگایا جاتا ہے جو ڈیرھ، دو دن کا ہوتا ہے مگر یہاںتو 60 دن سے لاک ڈاؤن ہے جس میں نومولود سے لے کر 90 سال کے بوڑھے شخص کو ایک جیسی سزا دی جا رہی ہے۔کشمیریوں کی جانب سے کرفیو سے پہلے کوئی توڑ پھوڑ نہیں کی گئی تھی بلکہ کرفیو لگانے کی وجہ یہ تھی کہ بھارت خوفزدہ ہے کہ اس کیلئے حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا لہٰذا اس نے وہاں 9لاکھ فوج تعینات کر دی جو بھارت کی کمزوری ظاہر کرتی ہے۔ اگر بھارت مضبوط ہوتا تو وہ کشمیری رہنماؤں کو اعتماد میں لیتا اور ان کے ذریعے اپنے بیانیے کو فروغ دیتا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے تو تمام کشمیری رہنماؤں کو قید کر دیا لہٰذا اب کس سے بات کریں گے۔ثالثی وہاں ہوتی ہے جہاں دونوں فریق تیار ہوں۔ میرے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش دھوکہ ہے، وہ ایک طرف ثالثی کی پیش کش کرتے ہیں جبکہ دوسی طرف ہوسٹن میں کہتے ہیں کہ میں اور مودی مل کر اسلامی دہشت گردی کے خلاف لڑیں گے، اس سے واضح ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔مسئلہ کشمیر کی وجہ سے یہ خطہ خطرناک ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب اس قسم کا ماحول ہوگا تو سرمایہ دار نہیںآئے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ پاک بھارت ایٹمی جنگ ہو بلکہ اب ہابرڈ جنگ کا دور ہے جس میں گوریلا جنگ، سائبر وار ودیگر طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، اگر ایسا ہوگیا تو بات بہت دور تک جائے گی اور دونوں ممالک ہر ممکن حربہ استعمال کریں گے اور معلوم نہیں کہ یہ کب تک جاری رہے ۔ عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے مسئلہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کو اجاگر کر رہے ہیں، اس سے بھارت دفاعی پوزیشن پر آگیا ہے جبکہ کشمیریوں کی آواز مضبوط ہوئی ہے۔ امریکا کے تھنک ٹینکس میں بھارتی بیٹھے ہیں اور وہ پاکستانی کو جگہ نہیں بنانے دیتے، ہمیں چاہیے کہ جامع حکمت عملی بنا کر عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھائیں۔ مودی نے سارے کارڈ غلط کھیلے لہٰذا اب ہندوستان کمزور دکھائی دے رہا ہے، وہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے مصیبت میں پھنس گیا ہے، اس کی معیشت تیزی سے کمزور ہورہی ہے، ان سب معاملات کی وجہ سے بھارت کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ احتساب کا عمل طول پکڑ گیا ہے جو اب مذاق لگ رہا ہے، نیب قوانین میں بہتری سے احتساب کے نظام کو ٹھیک کیا جائے اور اپوزیشن کو تمام اہم معاملات میں ساتھ رکھا جائے۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار )

وزیراعظم پاکستان نے جس انداز میں مسئلہ کشمیر  اجاگر کیا ماضی میں کبھی اس طرح نہیں ہوا، انہوں نے دورہ امریکا کے دوران انتہائی مصروف دن گزارے، بے شمار ملاقاتیں کیں، پہلی مرتبہ جارحانہ اور متحرک سفارتکاری کی گئی جو بہترین ہے۔ وزیراعظم کی جارحانہ سفارتکاری اور ملاقاتوں کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی تقریر سے پہلے ہی دنیا کو بخوبی معلوم ہوگیا کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے اور اس پر پاکستان کیا موقف رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کو غور سے سنا گیا اور عالمی سطح پر سراہا گیا۔ وزیراعظم نے اچھی اور مدلل تقریر کی اور دنیا کو واضح پیغام دیا کہ ہم امن کے خواہاں ہیں مگر بھارت مسائل کھڑے کر رہا ہے، اگر بھارت کو نہ روکا گیا تو جنگ ہوگی جس کا نقصان نہ صرف خطے بلکہ دنیا کو بھی ہوگا۔ وزیراعظم نے دنیا کو یہ بھی بتایا کہ ہمارے سے 7 گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرنے میں ہم کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ہمارے پاس صرف دو آپشن ہیں، ہتھیار ڈال دیں یا آخری حد تک لڑیں لہٰذا ہم آخری حد تک جائیں گے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے دنیا متوجہ ہوئی اور انہیں معلوم ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر کتنا اہم ہے۔ تقریر بہترین ہوگئی مگر اب اس کے بعد کے مسائل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس دورہ میںسفارتکاری جس سطح پر چلی گئی ہے، اب اس سے آگے جانا ہے کیونکہ واپسی کا راستہ نہیں ہے لہٰذا اس کے لیے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔ دفتر خارجہ اکیلا سفارتکاری نہیں کر سکتا، اب نئے طریقے آچکے ہیں لہٰذاتھینک ٹینک اور یونیورسٹیوں میں بیانیہ دیا جائے، اس کے علاوہ میڈیا کو بھی شامل کیا جائے۔ اس وقت پاکستان کو اندرونی طور پر دو بڑے مسائل درپیش ہیں، ایک معیشت اور دوسرا گورننس، حکومت کو ان دونوں مسائل کو حل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر سے بتادیا کہ وہ بڑے فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا اب انہیں سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ عمران خان کی تقریر کے بعد سے قوم ان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جنگ صرف فوج نہیں قوم لڑتی ہے لہٰذا عمران خان کو بطور رہنما لیڈ کرنا ہوگا اور قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنا ہوگا کہ ہم کس حد تک جاسکتے ہیں، اس سے دنیا کو بھی مضبوط پیغام جائے گا۔صرف تقریر سے کام نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی ملک ہمارے پیچھے چلے گا۔ دنیا کے بھارت کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی کشمیر کو ہم سے علیحدہ کرنے پر تلا ہوا ہے لہٰذا ہمیں من حیث القوم اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ بعض سیاسی عناصر نے وزیراعظم کی اس تقریر پر تنقید کی جس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ان عناصر کے پاس کوئی قومی بیانیہ نہیں ہے، ان کے ذاتی مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، عوام کو انہیں رد کرنا چاہیے۔ قومی مسائل پر اتفاق رائے ضروری ہے، ایسے تمام اختلافات جن سے ریاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے پس پشت ڈال کر ملک کیلئے کام کیا جائے۔

سلمان عابد (سیاسی تجزیہ نگار )

5 اگست کے بعد کے واقعات کا جائزہ لیں تو ماضی میں ہمیں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ جس انداز سے مسئلہ کشمیر عالمی حیثیت اختیار کرگیا اور اسے عالمی سطح پر اجاگر کیا گیا۔ اس حوالے سے نریندر مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان کے اقدامات کی وجہ سے کشمیر بین الاقوامی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ 5 اگست کے بعد سے اب تک جس انداز سے پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور وزیراعظم پاکستان نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیا، اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جس بھرپور انداز میں وزیراعظم عمران خان نے عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑا وہ قابل تحسین ہے۔ اپنے حالیہ دورہ کے دوران انہوں نے 72 سے زائد ملاقاتوں و فورمز سے خطاب کیا جن کی وجہ سے بین الاقوامی دنیا میں ماحول بنا۔ یہ ماحول انسانی حقوق کے حوالے سے ہے کیونکہ زیادہ تر یورپی ممالک مسئلہ کشمیر کو انسانی حقوق کے معاملے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ حکومت پاکستان اور وزیراعظم عمران خان نے یہ کوشش کی کہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے سیاسی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا جائے کہ کس طرح مودی کے آنے کے بعد سے وہاں ہندووآتہ کی سیاست کو فروغ ملا ہے، وہاں آر ایس ایس کا کردار بڑھا ہے وغیرہ۔ وزیر اعظم نے دنیا کو بتایا کہ عالمی طاقتوں اور اداروں کے دوہرے معیار، ذاتی مفادات اور سرد مہری کی وجہ سے آج دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر ہیں۔ انہوں نے دنیا سے سوال کیا کہ کیا سوا ارب کی مارکیٹ اہم ہے یا انسانیت؟اس وقت مودی اپنے تمام تر اقدامات کے باوجوددفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں کیونکہ وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر سے پاکستان کا امن اور کشمیر کے حوالے سے موقف دنیا پر واضح ہوگیا اور بھارت کے دوست ممالک اور حمایتی بھی کہہ رہے ہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور کرفیو ختم کیا جائے۔ اس تقریر کے بعد بھارتی میڈیا کا جائزہ لیں تو مودی دفاعی پوزیشن پر ہیں اور ان کا میڈیا یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ نریندر مودی ، عمران خان کی طرح جارحانہ انداز اور حکمت عملی نہیں اپنا سکے۔ دنیا نے جس انداز سے مسئلہ کشمیر کو تسلیم کیا اس سے نریندر مودی کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو وہ چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے دن سے ہی امن کا بیانیہ دینے کی کوشش کی اور اپنے تمام تر اقدامات سے دنیا کو یہ باور کروایا کہ ہم تو امن کیلئے اقدامات کر رہے ہیں مگر بھارت کی جانب سے رویہ منفی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر ہیں۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ تقریر سے کیا ہوتا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ بات چیت کا فورم ہے، وہاں جنگ نہیں ہوتی، وہاں تقریر سے ہی لوگوں کو قائل کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس تقریر سے کشمیر کے مسئلے کو اہمیت ملی اور اسے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا؟ میرے نزدیک ایسا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر بہترین تھی جسے دنیا بھر میں سراہا گیا، عالمی میڈیا نے بھی ان کے بے شمار انٹرویو کیے لہٰذا ان کا یہ دورہ بہترین رہا۔تقریر اچھی ہوگئی مگر اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے کہ اس جارحانہ سفارتکاری کو کس طرح برقرار رکھا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں تو ساری دنیا کی توجہ تھی مگر اس کے بعد سے تو ایسا نہیں ہوگا لہٰذا اب چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کس طرح سے اس کو آگے بڑھائے گا۔ ہماری سفارتکاری ہمیشہ سے ردعمل کے طور پر رہی ہے۔ کوئی واقعہ ہوجائے تو ہم متحرک ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں سست ہوجاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم نے وہاں پاکستان کا جو موقف پیش کیا، اب ان کی ٹیم اسے کس انداز میں آگے بڑھاتی ہے۔ وزیراعظم نے وہاں کہا کہ اقوام متحدہ کے مبصرین بھیج دیں، اس سے پہلے مودی کو بھی دعوت دی کہ یہاں دہشت گردوں کے کوئی کیمپ نہیں ہیں۔ میرے نزدیک ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے اور ان گرے ایریاز جن پر دنیا بات کرتی ہے کو دیکھنا ہوگا تاکہ دنیا کو سنجیدگی نظر آئے۔ دنیا کی نظریں اب ہم پر لگی ہیں کہ جو باتیں کی گئیں ان کے حوالے سے زمینی حقائق کیا ہیں اور پاکستان عملی طور پر کیا کر رہا ہے۔ ہماری حکومت، وزارت خارجہ اور سفارتکاروں کے درمیان خلاء نظر آتی ہے او ر وہ مختلف مسائل پر الگ الگ موقف دیتے رہے لہٰذا اب یہ لائحہ عمل تیار کرنا ہے کہ کس طرح سب ایک ہی موقف اپنائیں جو مضبوط ہو۔ وزیراعظم کی تقریر کے بعد اپوزیشن کا ردعمل آیا اور یہ کہا گیا کہ عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ درست طریقے سے نہیں لڑا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسئلہ کشمیر پر تنقید مثبت نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس معاملے میں تناؤ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور ہندوستان کے معاملے میں ہمیں ایک ہوکر بات کرنی چاہیے۔ میرے نزدیک اس کی ضرورت ہے ورنہ کشمیر کاز کو نقصان ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو اب جذبات سے باہر آنا ہوگا، اہم یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے سابقہ دورہ امریکا میں تھنک ٹینک سے خطاب کرتے کہا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کیسے مطمئن ہوتے ہیں یہ ضروری نہیں بلکہ اہم یہ ہے کشمیری کیا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو ڈویلپمنٹ ہورہی ہے ہمیں اس پر کشمیری قیادت کو بھی آن بورڈ لینا پڑے گا۔ اگر امریکا ثالثی کرواتا ہے تو اس معاملے کو صرف پاکستان اور بھارت لے کر نہ چلیں بلکہ کشمیریوں کو بھی شامل کیا جائے، یہ تاثر نہ ملے کہ ہم اپنے مفاد کی خاطر کشمیریوں کا موقف تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کا مسئلہ عالمی طاقتوں کی شمولیت سے ہی حل ہوگا۔ میں ٹرمپ کی ثالثی کی دعوت کو مثبت دیکھتا ہوں کیونکہ ہم ہندوستان پر دباؤ ڈال کر مسائل حل کرسکتے ہیں۔ عمران خان، طیب اردوگان، مہاتیر محمد و دیگر کی تقاریر سے اقوام متحدہ پر دباؤ بڑھ گیا ہے جس سے عالمی ماحول پاکستان کے حق میں ہوگیا ہے، اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہمیں جامع انداز میں تیاری کرنا ہوگی۔اگر پاکستان نے طے کرلیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اب سفارتی لڑائی لڑنی ہے تو ہمیں جنگ کے نعروں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، دنیا نے عمران خان کی امن کی کوششوں کو سراہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔