کیا ورلڈ آرڈر ٹوٹ رہا ہے؟

وقار اَحمد  منگل 8 اکتوبر 2019
کیا ورلڈ آرڈر ٹوٹنے والا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا ورلڈ آرڈر ٹوٹنے والا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا دنیا میں جو قومی ریاستوں کا تصور ہے وہ درست ہے؟ یا پھر جو لوگ ریاستوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں وہ بجا ہیں؟ ہمیں تاریخ کے پسِ منظر میں جھانکتے ہوئے اور موجودہ حالات کا بغور جاٸزہ لینے کے بعد مختلف سمتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ آپ انقلابِ فرانس کو ہی لے لیجیے۔ شہنشاہیت کا تختہ الٹتے ہی دنیا سے ملکیت کا تصور منہدم ہونا شروع ہوا۔ ملکیتوں کی جگہ سرمایہ لینے لگا اور یوں دنیا بدلتی چلی گئی۔

سرمایہ درحقیقت ملکیت کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ مالک کے ہاتھوں غلاموں کا استحصال جب عروج پر پہنچا تو فرانسیسیوں نے شاہ کا دھڑن تختہ کردیا۔ اور یوں سرمایہ ایک غالب تصور کے طور پر سامنے آیا۔ مگر قریب ایک صدی بعد مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف زبردست دلائل دیے اور یوں ریاستوں کے خاتمے کی راہ پھر سے ہموار ہوئی۔ یہ ساری دنیا سے ریاستوں کا اختتام بھی ایک سیاسی تھیوری ہے، جس پر بہت کم غور کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ریاست دنیا ہے۔ جس طرح کنویں کے اندر مینڈک کی دنیا ہے۔ تو اس ریاست یعنی ہماری فرض کی گئی دنیا میں کتنی قومیتیں آباد ہیں، اسی طرح پوری دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر امریکا، بھارت اور چین جیسے ملکوں میں اتنی قومیتیں بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں تو پھر باقی دنیا میں اتنے ملکوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اگرچہ یہ ایک بے معنی سا سوال محسوس ہوتا ہے، مگر سکندرِاعظم جیسے بادشاہوں کی یہی حسرت تھی کہ وہ پوری دنیا کے انسانوں پر حکومت کریں۔ آج کے دور میں بھی کافی طبقوں سے یہ آوازیں اٹھتی ہیں، اگرچہ ان کی نوعیت مختلف ہے۔ خلافت کے خواب دیکھنے والوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ایک دن پوری دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ ہوگا اور وہ پوری دنیا کے کافروں کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے بعد دنیا پر حکومت کریں گے۔ ساری دنیا کے محنت کشوں کو اکھٹا کرنے والوں کے خیال میں بھی ریاست نامی کوئی خاص شے نہیں۔ اگر کسی حد تک ہے تو وہ ایک سمجھوتہ ہے، جو اداروں اور عوام کے درمیان ہے۔

موجودہ دور میں کیا یہ تصور کہیں وجود رکھتا ہے؟ غور کریں تو دنیا تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ یوں تو دنیا ازل سے ایک خاص رفتار سے بدل رہی ہے۔ کچھ ایسے واقعات ہیں جنہوں نے دنیا کو یکسر بدلا ہے۔ جس طرح نائن الیون کا واقعہ یا اس سے پچھلے کچھ واقعات ہیں۔ مگر اب تو دنیا کی تبدیلی کی نارمل رفتار ہی بدل گئی ہے۔ رجعت پسندی چھا چکی ہے۔ دولت کا ارتکاز مزید چند ہاتھوں میں جارہا ہے۔ چائنا اور امریکا کی تجارتی جنگ صاف بتارہی ہے کہ دونوں ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہیں۔ مگر ہمیں وہ ترقی کرتے ہی دکھائی دیں گے، کیونکہ ہم بھی نیچے ہی جارہے ہیں۔ اسی طرح چائنا اور امریکا کی تنزلی کی رفتار یہ طے کرتی ہے کہ کون ترقی کررہا ہے۔

ساتھ ہی دنیا کی توجہ کہیں اور مبذول کروائی جارہی ہے۔ مودی ایک مدت مکمل کرنے کے بعد پھر آگیا اور آتے ہی جو پچھلی دفعہ کا ہوم ورک مکمل کرچکا تھا، اس پر عمل شروع کردیا۔ ٹرمپ اسلامی بنیاد پرستی کا راگ الاپ رہا ہے۔ محمد بن سلمان نے خاشقجی جیسے بین الاقوامی صحافی کی لاش کو پانی بنا کر بہادیا۔ نیتن یاہو بھی پھر آگیا اور آتے ہی مودی کی طرح پچھلے ہوم ورک پر عمل کرتے ہوئے یمن پر چڑھ دوڑا۔ اس وقت فلسطین، کشمیر،روہنگیا، مشرقِ وسطیٰ اور کانگو جیسے ملکوں میں انسانی حقوق نام کی کوئی شے نظر نہیں آرہی۔ ہانگ کانگ میں لوگوں کے مطالبات شدت اختیار کرچکے ہیں۔ کشمیر میں کرفیو کو دو ماہ بیت چکے ہیں۔ بغداد میں کرفیو نافذ ہے، ہلاکتوں کی تعداد سو سے اوپر ہوچکی ہے۔

قومی ریاستوں کی بنیاد پر بننے والے ملکوں کے اندر قومیتوں کی مزید آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ ہندوستان میں ناگالینڈ کی ریاست کا یوم آزادی ایک دن پہلے منایا گیا۔ خالصتان کا دو ہزار بیس میں ریفرنڈم ہونے جارہا ہے۔ امریکا افغانستان میں وہیں کھڑا ہے جہاں آج سے بیس سال پہلے تھا۔ اگر طالبان امریکا کے جانے کے بعد افغانستان میں حکومت ہی کرتے ہیں تو یہ امریکا کی ناکامی تصور کی جائے گی۔

پاک بھارت جنگ کے سائے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں آپ کو لگتا نہیں کہ حکومتوں کے ستائے ہوئے لوگ ریاستی جبر، تہذیبی جنگ معرکۂ حق و باطل، معیشت اور سیاست میں پیدا ہونے والا خلا اور یہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے؟ کیا دنیا واقعی پلٹا کھانے والی ہے؟ کیا ورلڈ آرڈر ٹوٹنے والا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔