دو سوال

ظہیر اختر بیدری  منگل 8 اکتوبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

میرے دماغ میں برسوں بلکہ عشروں سے دو سوال سخت کھلبلی مچائے ہوئے ہیں ، لیکن میں سخت شرمندہ رہتا ہوں کہ میرے پاس ان سوالوں کے جواب دینے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ عوام ان طبقاتی مظالم کے خلاف کیوں نہیں لڑتے جنھوں نے غریب کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ اہل لوگ جو طبقاتی مظالم کی حقیقت اور وجہ تسمیہ سے واقف ہیں۔

وہ عوام میں طبقاتی مظالم کے خلاف لڑنے کی ترغیب کیوں نہیں فراہم کرتے؟ عقل مندوں نے کہا ہے کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاؤ اگر آواز نہیں اٹھا سکتے تو زبان سے اسے برا کہو، اگر زبان سے بھی اسے برا نہیں کہہ سکتے تو دل میں اسے برا کہو۔ عقل مندوں کے اس فرمان سے اتنا اندازہ بہرحال ہوجاتا ہے کہ طبقاتی نظام اس قدر برا اور ظالمانہ ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے عوام کو آخری حد تک جانا چاہیے۔

دنیا میں 7 ارب انسان رہتے ہیں ان 7ارب انسانوں میں تقریباً 90 فیصد انسانوں کو دو وقت کی روٹی نہیں ملتی، 50 فیصد انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، غربت کی لکیر کا تعین غربت کی لکیر بنانے والے نہیں کرسکتے لیکن اندازہ ہے کہ بھوک اور فاقے کے درمیان ہی یہ لکیر کہیں ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں قانون اور انصاف کا نظام موجود ہے اور قانون اور انصاف کے رکھوالوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اس کھلی نا انصافی کو ختم کریں لیکن یہ نا انصافی کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔ کیوں؟ اس لیے کہ قانون بنانے والے اور قانون نافذ کرنے والے دونوں دانستہ یا نادانستہ اہل زر کی حمایت کرتے ہیں اور کسی کی غلط حمایت کرنے والے عوام کو انصاف نہیں دلا سکتے۔ جب صورتحال یہ ہو تو ناانصافیوں کے مارے عوام کو انصاف کہاں مل سکتا ہے اس سوال کا بھی کسی کے پاس جواب نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اہل فکر، اہل دانش، اہل علم، ادیب، شاعر اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ آج کل پاکستان کے شہروں میں چور اور ڈاکوؤں کو عوام پکڑ لیتے ہیں اور اتنا مارتے ہیں کہ اگر بروقت انھیں بچانے والا نہ آئے تو عوام ان کو مار مار کے زندگی سے نجات دلا دیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں کیوں لے لیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جب عوام قانون اور انصاف سے مایوس ہوجاتے ہیں تو ان کے پاس قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے عوام کی طرف سے قانون اور انصاف کو ہاتھ میں لینے سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہو اور اس کام کو یہ کچھ لوگ برا سمجھتے ہیں لیکن جہاں کہیں اس قسم کی واردات ہوتی ہے مردہ ڈاکو کے آگے لوگ بھنگڑا ڈالتے ہیں ایسا کیوں کرتے ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ قانون اور انصاف کا احترام کیا جانا چاہیے لیکن جب قانون اور انصاف اندھا بہرہ بن جاتا ہے تو عوام کی آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ ظلم و جبر کو اپنے ہاتھوں سے مٹانے پر اتر آتے ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن اس غریب ملک کے امیر لوگوں کے ہاتھوں میں عوام کی محنت کی کمائی اربوں روپے جمع ہے اور یہ حلال طریقوں سے کمائی ہوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ لٹیروں اور کرپٹ اشرافیہ کے خلاف احتساب کی عوام حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ احتساب مکمل طور پر جانبدارانہ اور امتیازی ہے لیکن جب عوام  اشرافیہ کو جیلوں میں دیکھتے ہیں تو انھیں تسکین ملتی ہے۔

انسانوں کی معلوم تاریخ دس بارہ ہزار سال پر مشتمل ہے، کیا ان دس بارہ ہزار سالوں کے دوران غریب امیر کا امتیاز نہیں رہا؟ تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے لیکن ہزار دو ہزار سال کی تاریخ طبقاتی مظالم کی تاریخ ہے۔ دنیا میں غلام داری نظام، جاگیردارانہ نظام کے بعد جو ظالمانہ نظام متعارف ہوا اسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے، اس نظام کو سرمایہ دارانہ نظام کا نام دینے والوں نے یہ بتا دیا کہ یہ نظام سرمایہ داروں کا ہے، اس میں غریب آدمی بھوکا رہ سکتا ہے، ننگا رہ سکتا ہے ،آدھا پیٹ کھا سکتا ہے لیکن محنت ہڈی توڑ کرتا ہے۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس ہڈی توڑ محنت کا پھل کون لے جاتا ہے۔۔۔۔۔اشرافیہ۔

آج اس سرمایہ دارانہ نظام میں ملک و قوم کی اسی فیصد دولت 2 فیصد اشرافیہ کے ہاتھوں میں قید ہے، اس دولت کو قید سے آزاد کرانا اس لیے مشکل ہے کہ یہ دولت قانون اور انصاف کے ہاتھوں میں محفوظ ہے اور کوئی مائی کا لعل اس دولت کو اشرافیہ کے ہاتھوں سے نہیں نکال سکتا۔ ہمارے ملک میں احتساب کے نام پر جو تماشہ ہو رہا ہے، اس تماشے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اشرافیہ پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں اور یہ الزامات غلط بھی نہیں لوٹ مار کی اربوں روپوں کی دولت کی نشان دہی بھی کی جا رہی ہے لیکن ان اربوں روپوں کو ڈاکوؤں سے برآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس نظام میں یہی کچھ ہوسکتا ہے اور یہ نظام چونکہ سرمایہ دارانہ ہے جس کی عمر عمرِ خضر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عوام میں سیاسی سماجی اور طبقاتی شعور پیدا کرنا سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی شعور کو کند کرنے کی ذمے داری سیاستدان پوری کر رہے ہیں کیونکہ اگر عوام میں سیاسی شعور پیدا ہوگیا تو اشرافیہ کو لوٹ مار کے مواقع کہاں مل سکتے ہیں۔ اور اقتدار پر قبضہ کس طرح ممکن ہے۔ ہماری عوام سر سے لے کر پیر تک سادہ لوح ہے، وہ اشرافیہ کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی کارکن سیاسی جماعتوں کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہماری سیاسی جماعتیں اشرافیہ پر مشتمل ہیں لہٰذا عملاً سیاسی کارکن اشرافیہ کی ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ کرپٹ سیاستدانوں کے لیے زندہ باد کے نعرے لگانا ان کی کروڑوں روپوں کی گاڑیوں کو گلابوں سے ڈھانکنا اب سیاسی کارکنوں کی ڈیوٹی ہے۔

اس سارے خرابے کی سب سے زیادہ ذمے داری ہمارے مفکروں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں پر آتی ہے اگر یہ طبقہ اپنی نظریاتی ذمے داری پوری کر رہا ہوتا تو ملک میں رہنے والے ساڑھے چھ کروڑ مزدور اور دیہی آبادی کا 60 فیصد کسان غلاموں کی زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام قائم ہے اور عوام کو دبائے رکھنے میں جاگیردار طبقہ ایک پریشر آلے کا کام کرتا ہے اس پر قیامت یہ کہ ملک کا کرپٹ صنعتکار طبقہ اس کا اتحادی بنا ہوا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ پاکستان ہی میں دیکھا جاسکتا ہے اس گٹھ جوڑ کی وجہ اشرافیہ مضبوط ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔