’لنچ باکس‘ کا آسکر میں نہ جانا بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے

باسم جاوید  پير 7 اکتوبر 2013
لنچ باکس کی جگہ بھارت کی جانب سے گجراتی فلم ’’دی گڈ روڈ‘‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجا گیا۔ فوٹو: فائل

لنچ باکس کی جگہ بھارت کی جانب سے گجراتی فلم ’’دی گڈ روڈ‘‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجا گیا۔ فوٹو: فائل

حال ہی میں ریلیز ہونیوالی فلم’’لنچ باکس‘‘ کے لئے فلمی ناقدین نے تعریفوں کے پل باندھے ہیں ۔

فلم کی ریلیز سے قبل کہا جارہا تھا کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لئے بھارت کی جانب سے امریکا بھیجی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ اس کی جگہ سرکاری طور پر گجراتی فلم ’’دی گڈ روڈ‘‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجا گیا ۔فلم کی اداکارہ نمرت کور نے اس سلسلے میں ایک خصوصی انٹرویو دیا۔ کیڈ بری سلک کے اشتہار میں نظر آنے والی نمرت کور نے اس فلم میں ’’الا‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیئے جو نذر قارئین ہیں۔

س:فلم ’لنچ باکس‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے نہ بھیجے جانے پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟

ج:’لنچ باکس‘ کی ریلیز سے قبل ہی قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ یہ فلم سرکاری طور پر آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود یہ فلم آسکر ایوارڈ کے لئے نہیں بھیجی گئی۔ ہماری پوری ٹیم نے اس فلم کی کامیابی کے لئے بہت زیادہ محنت کی تھی اور سبھی اس قیاس آرائی سے بہت خوش تھے کہ ہندوستان کی جانب سے یہ فلم امریکا کی ایورارڈ تقریب میں جائے گی ، لیکن ایسا نہ ہونے پر پوری ٹیم مایوس ہوئی ہے ۔

س: آسکر ایوارڈ میں نہ جانے کے باوجود کیا یہ امریکا اوردیگر ممالک میں ریلیز ہوگی؟

ج:جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا اب اس کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ سونی فلمز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ’لنچ باکس‘ کو امریکا میں جلد ریلیز کریں گے ۔ اگرچہ فلم آسکر ایوارڈ میں نہیں گئی مگر دیگر غیر ملکی ایوارڈ ز میںجانے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔ بہرحال سونی کے توسط سے یہ فلم امریکا اور دیگر ممالک میں ریلیز ہوگی۔

س:فلمی ناقدین کی جانب سے ہونے والی پذیرائی پر آپ کیا کہیں گی؟

ج: مجھے خوشی ہے کہ فلمی ناقدین نے اس فلم کو چار سے پانچ سٹار دئیے ہیں ۔ جس طرح سے ہم نے محنت کی ہمیں امید تھی کہ یہ فلم ضرور کامیاب ہوگی ۔عرفان خان اور نواز الدین صدیقی جیسے اداکاروں کی موجودگی اس فلم کو مزید کامیاب بنادیتی ہے ۔

س: ’لنچ باکس‘ میں مرکزی کردار کس طرح ملا ؟

ج: جب بھی کوئی شخص ممبئی میں فلموں میں کام کرنے کے لئے آتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک بڑی فلم مل جائے لیکن یہ محض ایک خیال ہوتا ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔جب میں ممبئی آئی تو مجھے ایسا لگا تھا کہ مجھے کوئی بڑی فلم مل جائے گی لیکن مجھے بھی جدوجہد کرنی پڑی ۔ میں نے تھیٹر کیا تھا اور انوراگ کشیپ اس بات سے واقف تھے۔ انہوں نے مجھے فلم کا سکرپٹ دیا جو مجھے پسند آیا ۔ مجھے اس کی کہانی اور کردار دونوں ہی بہت اچھے لگے۔اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسی سے بہترین اننگز کا آغاز کیا جائے ۔اب فلم کی کامیابی کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مجھ جیسی نئی اداکارہ کے لئے ایسا رول ملنا قسمت کی بات ہے ۔

س:عرفان اور نواز الدین صدیقی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا ؟

ج: جب میں فلم کا سکرپٹ پڑھ رہی تھی تو اس وقت عرفان اور نواز الدین صدیقی کا رول فائنل نہیں ہوا تھا لیکن اتنا طے تھا کہ یہ دونوں اس فلم میں کام کر رہے ہیں ۔میں نے ان دونوں کو پردے پر دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔ خصوصی طور پر عرفان کو دیکھ کر میں نے اداکاری کی باریکی سیکھی ہے ۔ میں دل ہی دل یہی سوچ رہی تھی کہ میرے مقابل عرفان کا رول رہے اور ویسا ہی ہوا۔ دونوں اداکار اپنے رول کو سمجھنے کے بعد ہی اسے ادا کرتے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس فلم میں ایسے منجھے ہوئے اداکار وں کے ساتھ کام کیا ۔

س:آپ نے سٹیج شوز میں کام کب شروع کیا تھا ؟

ج: میں نے قریبا سات سال قبل تھیٹر میں کام شروع کیا تھا ۔ مانوکول کے ساتھ میں نے کئی سٹیج شوز کئے ہیں ۔میںنے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سٹیج شوکرکے شہرت پائی ہے۔ میرا سب سے پسندیدہ سٹیج شو ’’بغداد ویڈنگ‘‘ ہے ۔ اس لئے میرے پاس سٹیج شوکی اداکاری کا کافی تجربہ ہے۔

س: آپ نے ایڈ فلم اور فلم میں کیا ہے ،کیا آپ ٹی وی شوز میں بھی کام کرنا پسند کرینگی؟ آپ کا اگلا پراجیکٹ کیا ہے؟

ج: میری اگلی فلم ’’ پیڈلر‘‘ ہے جس کے بارے میں آپ کو زیادہ معلومات نہیں دے سکتی ۔ دوسری طرف میں ایسے پراجیکٹ میں کام کرنا چاہتی ہوں جو مجھے پسند آئے اور جن کے ذریعے مجھے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے ۔ میں چند ہی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔ مجھے پردے پر دکھنے کا شوق نہیں بلکہ اداکاری کرنے کا شوق ہے ۔ اگر ٹی وی شوز میں کوئی اچھی کہانی ملتی ہے تو میں ضرور کام کرونگی ۔ فی الحال میں اسٹیج شوز اور فلموں میں ہی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہوں۔

باسم جاوید

حال ہی میں ریلیز ہونیوالی فلم’’لنچ باکس‘‘ کے لئے فلمی ناقدین نے تعریفوں کے پل باندھے ہیں ۔فلم کی ریلیز سے قبل کہا جارہا تھا کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لئے بھارت کی جانب سے امریکا بھیجی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔ اس کی جگہ سرکاری طور پر گجراتی فلم ’’دی گڈ روڈ‘‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجا گیا ۔فلم کی اداکارہ نمرت کور نے اس سلسلے میں ایک خصوصی انٹرویو دیا۔ کیڈ بری سلک کے اشتہار میں نظر آنے والی نمرت کور نے اس فلم میں ’’الا‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات دیئے جو نذر قارئین ہیں۔

س:فلم ’لنچ باکس‘ کو آسکر ایوارڈ کے لئے نہ بھیجے جانے پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟

ج:’لنچ باکس‘ کی ریلیز سے قبل ہی قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ یہ فلم سرکاری طور پر آسکر ایوارڈ کے لئے بھیجی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا، اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ اتنی کوششوں کے باوجود یہ فلم آسکر ایوارڈ کے لئے نہیں بھیجی گئی۔ ہماری پوری ٹیم نے اس فلم کی کامیابی کے لئے بہت زیادہ محنت کی تھی اور سبھی اس قیاس آرائی سے بہت خوش تھے کہ ہندوستان کی جانب سے یہ فلم امریکا کی ایورارڈ تقریب میں جائے گی ، لیکن ایسا نہ ہونے پر پوری ٹیم مایوس ہوئی ہے ۔

س: آسکر ایوارڈ میں نہ جانے کے باوجود کیا یہ امریکا اوردیگر ممالک میں ریلیز ہوگی؟

ج:جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا اب اس کے لئے کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔ سونی فلمز نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ’لنچ باکس‘ کو امریکا میں جلد ریلیز کریں گے ۔ اگرچہ فلم آسکر ایوارڈ میں نہیں گئی مگر دیگر غیر ملکی ایوارڈ ز میںجانے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا ۔ بہرحال سونی کے توسط سے یہ فلم امریکا اور دیگر ممالک میں ریلیز ہوگی۔

س:فلمی ناقدین کی جانب سے ہونے والی پذیرائی پر آپ کیا کہیں گی؟

ج: مجھے خوشی ہے کہ فلمی ناقدین نے اس فلم کو چار سے پانچ سٹار دئیے ہیں ۔ جس طرح سے ہم نے محنت کی ہمیں امید تھی کہ یہ فلم ضرور کامیاب ہوگی ۔عرفان خان اور نواز الدین صدیقی جیسے اداکاروں کی موجودگی اس فلم کو مزید کامیاب بنادیتی ہے ۔

س: ’لنچ باکس‘ میں مرکزی کردار کس طرح ملا ؟

ج: جب بھی کوئی شخص ممبئی میں فلموں میں کام کرنے کے لئے آتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک بڑی فلم مل جائے لیکن یہ محض ایک خیال ہوتا ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔جب میں ممبئی آئی تو مجھے ایسا لگا تھا کہ مجھے کوئی بڑی فلم مل جائے گی لیکن مجھے بھی جدوجہد کرنی پڑی ۔ میں نے تھیٹر کیا تھا اور انوراگ کشیپ اس بات سے واقف تھے۔ انہوں نے مجھے فلم کا سکرپٹ دیا جو مجھے پسند آیا ۔ مجھے اس کی کہانی اور کردار دونوں ہی بہت اچھے لگے۔اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ اسی سے بہترین اننگز کا آغاز کیا جائے ۔اب فلم کی کامیابی کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مجھ جیسی نئی اداکارہ کے لئے ایسا رول ملنا قسمت کی بات ہے ۔

س:عرفان اور نواز الدین صدیقی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا ؟

ج: جب میں فلم کا سکرپٹ پڑھ رہی تھی تو اس وقت عرفان اور نواز الدین صدیقی کا رول فائنل نہیں ہوا تھا لیکن اتنا طے تھا کہ یہ دونوں اس فلم میں کام کر رہے ہیں ۔میں نے ان دونوں کو پردے پر دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے۔ خصوصی طور پر عرفان کو دیکھ کر میں نے اداکاری کی باریکی سیکھی ہے ۔ میں دل ہی دل یہی سوچ رہی تھی کہ میرے مقابل عرفان کا رول رہے اور ویسا ہی ہوا۔ دونوں اداکار اپنے رول کو سمجھنے کے بعد ہی اسے ادا کرتے ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس فلم میں ایسے منجھے ہوئے اداکار وں کے ساتھ کام کیا ۔

س:آپ نے سٹیج شوز میں کام کب شروع کیا تھا ؟

ج: میں نے قریبا سات سال قبل تھیٹر میں کام شروع کیا تھا ۔ مانوکول کے ساتھ میں نے کئی سٹیج شوز کئے ہیں ۔میںنے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سٹیج شوکرکے شہرت پائی ہے۔ میرا سب سے پسندیدہ سٹیج شو ’’بغداد ویڈنگ‘‘ ہے ۔ اس لئے میرے پاس سٹیج شوکی اداکاری کا کافی تجربہ ہے۔

س: آپ نے ایڈ فلم اور فلم میں کیا ہے ،کیا آپ ٹی وی شوز میں بھی کام کرنا پسند کرینگی؟ آپ کا اگلا پراجیکٹ کیا ہے؟

ج: میری اگلی فلم ’’ پیڈلر‘‘ ہے جس کے بارے میں آپ کو زیادہ معلومات نہیں دے سکتی ۔ دوسری طرف میں ایسے پراجیکٹ میں کام کرنا چاہتی ہوں جو مجھے پسند آئے اور جن کے ذریعے مجھے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا موقع ملے ۔ میں چند ہی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہوں ۔ مجھے پردے پر دکھنے کا شوق نہیں بلکہ اداکاری کرنے کا شوق ہے ۔ اگر ٹی وی شوز میں کوئی اچھی کہانی ملتی ہے تو میں ضرور کام کرونگی ۔ فی الحال میں اسٹیج شوز اور فلموں میں ہی اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔