جنرل کیانی جا رہے ہیں

ایاز خان  پير 7 اکتوبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

’’میرا دور 29 نومبر2013ء کو ختم ہو رہا ہے اور اس دن میں ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان الفاظ کے ساتھ اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے۔ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کیانی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ آئین اور عوام کی رائے نے جڑیں پکڑ لی ہیں‘ ادارے اور روایات شخصیات سے زیادہ اہم ہیں۔

جنرل کیانی کو 29 نومبر 2007ء کو اس وقت کے فوجی سربراہ اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بادل نخواستہ آرمی چیف بنایا تھا۔ مشرف صاحب کبھی فوجی وردی کو اپنی دوسری کھال قرار دیتے تھے، وہ ایک بار قوم سے وردی اتارنے کا وعدہ کر کے مکر چکے تھے۔ انھیں سپریم کورٹ کا خوف نہ ہوتا تو آخری وقت تک اپنی دوسری کھال زیب تن کیے رکھتے۔ جنرل کیانی کی تین سالہ مدت 2010ء میں پوری ہو رہی تھی لیکن سابق حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 24جولائی2010ء کو ایک‘ دو سال نہیں بلکہ پوری ایک اور مدت یعنی تین سال کے لیے ان کو عہدے پر برقرار رکھنے کے لیے توسیع دے دی۔

وہ پہلے آرمی چیف نہیں تھے جنھیں مدت ملازمت میں توسیع ملی‘ ہاں یہ ریکارڈ ان کے حصے میں ضرور آیا کہ ایک سیاسی حکومت نے کسی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دی۔ ورنہ ان سے پہلے بعض جرنیلوں نے یہ اعزاز حاصل کیا‘ ان سب نے از خود ’’اختیارات‘‘ کے تحت دو دو تین تین بار اپنے دور کو بڑھایا اور ملک و قوم کی ’’خدمت‘‘ کرتے رہے۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف خود ہی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے احکامات جاری کرتے رہے‘ ضیاء الحق تو مرتے دم تک وردی پہنے رہے‘ یوں وہ اپنے عہدے سے ریٹائر نہیں ہوئے۔

جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں جب توسیع کی گئی تو اس وقت کی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا ضروری ہے۔ اب جب کہ 29نومبر کا دن قریب آ رہا تھا تو ایک بار پھر انھیں آرمی چیف برقرار رکھنے کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ان قیاس آرائیوں میں غیر ملکی میڈیا پیش پیش تھا۔ بظاہر تو اس کا امکان پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف مدتوں پہلے واضح اعلان کر چکے تھے کہ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر موسٹ جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے گا۔

پھر قیاس آرائیاں کرنے والے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اس انٹرویو کو کیسے بھول گئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس اور آرمی چیف اپنی آئینی مدت میں توسیع لینے کے خواہشمند نہیں ہیں۔ میڈیا میں کچھ اس قسم کی رپورٹس بھی آئیں کہ انھیں مستقبل میں کچھ نئی ذمے داریاں بھی سونپی جا رہی ہیں۔ اس کا ذکر جنرل صاحب نے اپنے بیان میں بھی کیا ہے۔ جنرل کیانی نے وقت سے پہلے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ فلاں تاریخ کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ سیاسی قیادت نے ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ بعض نے اسے نئی روایت بھی قرار دیا ہے۔

ہمارے جیسے ملکوں میں واقعی یہ نئی روایت ہے۔ یہاں کسی کا دل نہیں چاہتا کہ وہ ریٹائر ہو جائے۔ اداروں کی مضبوطی کی بات کرنے والے ہی اپنی شخصیت کو مضبوط بلکہ ناگزیر قرار دیتے ہیں۔ صدارت چھوڑنے کے وقت جنرل مشرف کی وہ بات آپ کو یقیناً یاد ہو گی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ یعنی وہ اس بات پر یقین کیے بیٹھے تھے کہ ان کے بعد ملک چلانے والا کوئی نہیں ہے۔ خامیاں زرداری صاحب میں بھی تھیں اور میاں صاحب کی اب تک کی کارکردگی بھی مثالی نہیں‘ اس کے باوجود ملک چل رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ایک جمہوری حکومت سے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا۔ زرداری صاحب نے صدارتی الیکشن سے تین ماہ پہلے اعلان کیا کہ وہ الیکشن نہیں لڑیں گے۔ ان کا موقف تھا عوام نے ن لیگ کو مینڈیٹ دیا ہے اس لیے نیا صدر ان کا حمایت یافتہ ہونا چاہیے۔

جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں امریکا میں سفیر بنائے جانے کا آپشن اوپن ہے۔ حکومت نے ابھی تک وہ سیٹ بوجوہ خالی چھوڑی ہوئی ہے۔ اور پھر وزیر اعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد بھی ان کو امریکا کے لیے سفیر نامزد کر سکتے ہیں۔ بہر حال جنرل صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرتے ہیں‘ یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی سپہ سالاری کے چھ برس انتہائی کٹھن تھے‘ پاکستان میں اب تک جتنے آرمی چیف ہو گزرے ہیں‘ کسی نے اتنا سخت اور کٹھن دور نہیں گزارا‘ جنرل کیانی کا زمانہ پاکستان ہی نہیں بلکہ سارے خطے کی تاریخ کے مشکل ترین دور میں سے ایک تھا ورنہ پاکستان تو جرنیلوں کے لیے جنت رہا ہے‘ ایوب خان مزے سے 10 برس حکومت کرتے رہے‘ یحییٰ خان پاکستان کو دولخت کرا کے بھی شان سے زندہ رہے‘ ضیاء الحق نے 11 برس دھڑلے سے حکومت کی اور جنرل مشرف 8 برس تک اقتدار کا لطف اٹھاتے رہے‘ انھیں اندرونی طور پر کسی بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی انھوں نے دہشت گردی جیسی خوفناک جنگ لڑی۔

جنرل کیانی ایسے نازک اور سنگین دورمیں پاک فوج کے سپہ سالار بنے جب ملک میں سی آئی اے‘ را اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی خاد پوری طرح سرگرم تھیں‘ دہشت گردوں نے پاک فوج کو نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا‘ یہاں تک کہ جی ایچ کیو پر بھی حملہ ہو گیا‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان خوفناک حالات کا جراتمندی سے مقابلہ کیا اور پاک فوج کے شاندار امیج کو برقرار رکھا‘ جنرل کیانی نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا۔ غیر ملکی ایجنسیوں کے وار ناکام بنائے اور ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ ان کے دور میں غیر معمولی حادثات و سانحات ہوئے‘ ابھی انھیں آرمی چیف بنے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا‘ اسامہ بن لادن کے قتل کا واقعہ بھی انھی کے دور میں ہوا۔ جی ایچ کیو پر دہشت گردوں نے حملہ کیا‘ سانحہ سلالہ رونما ہوا اور میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا‘ جنرل کیانی نے ایسے پر آشوب دور میں بھی پاک فوج کے وقار کو بلند رکھا‘ شاید یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے‘ اب جو نیا آرمی چیف آئے گا‘ اس کے لیے مشکلات کا ایک پہاڑ ہے‘ اللہ کرے‘ وہ اس پہاڑ کو سر کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔