- پاکستان میں دراندازی کیلیے افغان طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کے انکشافات
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
کشمیری گلوکار الطاف میر والدین کی آواز سننے کو ترس گئے
مظفر آباد: کوک اسٹوڈیو سے شہرت حاصل کرنےوالے کشمیری گلوکار الطاف میر نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کی داستان سناتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میری آواز سن رہی ہے لیکن میں کشمیر میں قید اپنے والدین کی آواز کو سننے کے لیے ترس گیا ہوں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کیے جانے والے لاک ڈاؤن کو دو ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور اس دوران مظلوم کشمیریوں کا دنیا سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے اس صورتحال میں کشمیر سے باہر رہنے والے افراد اپنے والدین اورگھر والوں کی آواز سننے کے لیے ترس گئے ہیں جن میں سے ایک کوک اسٹوڈیو سے شہرت حاصل کرنے والے گلوکار الطاف میر بھی ہیں۔
برطانوی میڈیا کے مطابق 45 سالہ گلوکار الطاف میرکا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے اننت ناگ سے ہے تاہم انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت سے تنگ آکر پاکستان کا رخ کیا۔ الطاف میر نے اپنے ماضی کےبارے میں بتاتے ہوئے کہا بھارتی فوج کے ہاتھوں ان کے بھائی، کزن اور کئی ساتھی مارے گئے تھے لہٰذا جب انسان مجبور ہوتا ہے تو اسے پتھر اٹھانا پڑتا ہے۔ بھارتی فوج ہمیں خواہ مخواہ مارتی تھی جس کے نتیجے میں ہمیں بھی جواب دینا پڑتاتھا۔
الطاف میر نے بھارتی فوج کے ظلم کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا روز صبح 5 بجے بھارتی فوج ہمیں گھر سے باہر نکال کر کھڑا رکھتے تھے پھر پوچھ گچھ شروع ہوتی تھی اور پوچھا جاتا تھا کہ کون مجاہد ہے اور کون نہیں جس کے بعد ہم بے گناہوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
الطاف میر نے کہا کہ میں روز روز کی تذلیل سے تنگ آگیا تھا لہذا میں ایسے گروہ میں شامل ہوا جو نوجوانوں کو پتھر پھینکنا اور اس کے بعد بندوق چلانا سکھاتے تھے، کیونکہ میں عمر میں چھوٹا تھا تو مجھے صرف پتھر مارنے کی حد تک رکھاگیا۔ میرے ساتھ میرے اسکول کے باقی ساتھی بھی تھے۔ ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ مجھے نہیں معلوم میں نے صحیح کیا یا غلط لیکن اس وقت میرے پاس صرف یہی ایک راستہ تھا بعد ازاں میں بھاگ کر یہاں آزاد کشمیر آگیا۔
الطاف میر نے مزید بتایا کہ وہ کشمیر کے حالات سے تنگ آکر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ، کئی کئی دن بھوکے رہے، کبھی کوئی فقیر سمجھ کر کھانا دے دیتا اور کبھی کوئی دھتکاردیتا۔ مجھے یہاں ایک کشمیری بھائی نے جگہ دی اور پھر اس طرح ایک سے دوسرے گھر جاتا رہا اور وقت گزارتا رہا۔
الطاف میرنے اپنے ہنر اور صلاحیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس صرف دو فن تھے کڑھائی اور موسیقی جو انہوں نے اپنے والدین سے سیکھے تھے اور پھر انہوں نے مظفر آباد میں ریڈیو کے لیے گائیکی اور موسیقی دینے کا کام شروع کردیا۔ الطاف میر کشمیری گانے گاتے تھے جو بہت مشہور ہوتے تھے اور اس طرح انہیں ثقافتی محفلوں میں بلایا جاتا تھااور پھر ان کا یہ شوق ان کی کمائی کا ذریعہ بن گیا۔
الطاف میر نے بتایا کہ ایک دن انہیں کوک اسٹوڈیو سے بلاوا آیا اور کوک اسٹوڈیو انتظامیہ کو ان کا گانا پسند بھی آگیا اورانہیں منتخب کرلیاگیا۔الطاف میر کوک اسٹوڈیو سے مشہور ہوگئے انہوں نے کہا ہر کوئی مجھے پہچاننے لگ گیا اورمیری عزت کرنے لگا میرے لیے یہی بہت تھا کہ میرے والدین کے سکھائے ہوئے گانے آج سب سن رہے ہیں اور تعریف کررہے ہیں۔ آج دنیا میری آواز سن رہی ہے لیکن میری سب سے بڑی خواہش اپنے والدین کی آواز سننا ہے جو میں دو ماہ سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے سن نہیں پارہا۔
الطاف میر نے نہایت جذباتی انداز میں کہا اگر اس وقت میرے والدین مجھے ڈانٹنے کے لیے بھی فون کرپائیں تو میں سن لوں گا میرے لیے اس وقت یہی جاننا بہت ہے کہ وہ لوگ جہاں بھی ہیں محفوظ ہیں۔ الطاف میر مظفر آباد میں اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ میرا دل اننت ناگ میں ہی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔