ہم بھی یکجہتی کرنا چاہتے ہیں

سعد اللہ جان برق  بدھ 9 اکتوبر 2019
barq@email.com

[email protected]

خدا گواہ ہے کہ ہمارا دل بھی ’’یکجہتی‘‘ کرنے کو بہت چاہتا ہے اور جب سے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہر کوئی تیس منٹ ہفتہ وار یکجہتی کرے تو ہمارا دل ہفتہ وار تین منٹ کیا روزانہ چالیس منٹ یکجہتی کرنے کو تیار ہو رہا ہے کیونکہ اتنے ہی وقت میں ہم ’’کالم‘‘ لکھتے ہیں اور ’’کالم‘‘سے زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ بھلا اور کیسے ہو سکتا ہے بلکہ اگر حساب کتاب کی بات ہو تو اس سے بھی زیادہ ’’یکجہتی‘‘ ہم کر سکتے ہیں۔

ویسے تو ہم فارسی کا جو تھوڑا بہت شدبد رکھتے ہیں اس کے مطابق ’’یک‘‘ کا مطلب ’’یک‘‘ ہی ہوتا ہے اور ’’جہتی‘‘ کا مطلب سوائے ’’جہتی‘‘ کے اور کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے جس طرح ع

کریما بہ بخشائے بر حال ما

کہ ہستم اسیر کمند ہوا

کا مفہوم اساتذہ نے یہ بتایا ہے کہ جو ’’کریما‘‘ ہے وہ ’’بہ بخشائے بر حال ما‘‘ ہے اور جو ’’ہستم‘‘ ہے وہ ’’اسیرکمند ہوا‘‘ ہے اسی طرح ہم بھی یک جہتی کے بارے میں جانتے ہیں جو ’’یک‘‘ ہے جو وہ یک سوا اور کچھ نہیں نہ دو نہ تین نہ چار صرف ’’یک‘‘۔ اور جہت کا مطلب ’’طرف‘‘ ہے جانب اور سمت ہے۔ لیکن یہ ’’یک جہتی‘‘ کیسے کی جاتی ہے سارا مسئلہ یہیں آ کر اٹک جاتا ہے، ویسے تو مشہور جہات ’’چھ‘‘ ہیں یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے اور اوپر نیچے۔ لیکن مولانا روم نے ایک اور جہت کی بھی نشان دہی کی ہوئی ہے ع

عقل گوئد کہ شش جہت است و بیرون راہ نیست

عشق گوئد کہ راہ است و من رفتہ ام بار ہا

یعنی عقل کہتی کہ صرف چھ اطراف ہیں اور ان سے باہر کوئی راستہ نہیں ہے لیکن عشق کہتاہے کہ راستہ ہے اور میں اس پر آتا جاتا رہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ ہمارے بارے میں کچھ براُ برُا سوچنے لگیں بلکہ طعنہ بھی ماریں کہ ہم اتنے نالائق اور پھسڈی ہیں کہ ’’یکجہتی‘‘ کامطلب کیا ہے بے شک آپ کا جو جی چاہے کریں یا کہیں لیکن ہمارا مسئلہ اپنی جگہ ہے۔

ہو سکتا ہے کہ جسے ہم یکجہتی کہتے اور سمجھتے ہیں وہ مولانا روم کی وہ ساتویں جہت ہو جس کا پتہ صرف ’’عشق‘‘ کو ہے اور ’’عقل‘‘ کو نہیں ہے۔ گویا بات ہیر پھیر کر تحقیق طلب ہو گئی اور ہمارے بارے میں تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کو اچھی طرح محقق نہ کر لیں اسے نہیں مانتے۔ چاہے وہ کشمیریوں سے یک جہتی کا معاملہ ہو یا مولانا روم اور عشق کی ساتویں جہت ہو۔

عام طور پر تو یک جہتی کا سیدھا سادہ مطلب یہی ہے کہ سب ایک طرف کو منہ کر کے کھڑے ہو جائیں جس طرح کسی تقریب میں کسی مرحوم کی خاطر دو منٹ کی خاموشی اختیارکی جاتی ہے اور وزیراعظم کی بات سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ کہ ہر کوئی ہفتے میں تیس منٹ کشمیریوں کے ساتھ ’’یک جہتی‘‘ کرے۔

اب یہ تو وزیراعظم جانتے ہوں گے جو ریاست مدینہ کے وزیراعظم ہونے کے ناتے ’’راز و اسرار‘‘ کے مقامات سے ضرور واقف ہوں گے یا دوسرے ریاست مدینہ کے صادق و امین کی تیس منٹ کی یکجہتی سے کشمیریوں کو کتنے نفلوں کا ثواب ملے گا۔ مثلاً اب ہم اپنے گاؤں میں کھڑے ہیں ،کشمیر کی طرف منہ کر کے اگر تیس منٹ کھڑے رہیں یا اس سے زیادہ بلکہ آس پاس جانے اور گزرنے کو بھی ساتھ ملا کر یکجہتی میں شامل کریں تو اس سے کشمیریوں کا کتنا بھلا ہو گا۔ بلکہ آج کل اور گزشتہ ستر سال سے ہم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے علاوہ اور کیا کر رہے ہیں بلکہ ایک یوم یکجہتی کشمیر بھی مناتے ہیں۔

جس میں اکثر پارٹیاں خصوصاً اپنا ’’دارو‘‘ بھی یکجہتی ہیں۔ لیکن پھر وہی لیکن۔ اس لیکن نے تو ہمارا ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ بات بات پر سامنے آ کرکھڑا ہو جاتا ہے۔ سنا ہے ایک عدد کشمیرکمیٹی بھی ہے جس میں بڑے بڑے اللہ والے صرف اللہ فی اللہ۔ کشمیریوں کے ساتھ دن رات یکجہتی فرماتے ہیں۔ یہی ہو کہ سارے کشمیر کو یکجہتی نے گھیر رکھا ہو اور ان بچاروں کے رہنے کے لیے جگہ اور سانس لینے کے لیے ہوا بھی نہ مل رہی ہو۔ یعنی یک جہتی ان کے لیے عرب کا اونٹ ہو گئی ہو

کہدو ان حسرتوں سے کہیں دور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغ دار  میں

معاف کیجیے احمقانہ خیالات پر ہر کسی کا زور تو چلتا نہیں اور پھر کہاں کسی کالم نگار کی کسی نے سنی ہے۔ اس لیے کبھی کبھی ہمارے ذہن میں یہ ٹیڑھا میڑھا خیال بھی آتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں یعنی اگر کشمیریوں کا بھلا نہ چاہتے تو ان کا کتنا ’’بھلا‘‘ ہوا ہوتا جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو، فلسطنیوں کے ساتھ سارے مسلمان ممالک کی یک جہتی کو زمانے ہوگئے ،کچھ ہوا؟ خیر وہ تو ہمارے ٹیڑھے میڑھے خیالات ہیں جو نہ کسی شمار میں ہیں نہ قطار میں۔ بھلا دودھیل گائے بھی کوئی ذبح کرتا ہے یا کسی کو دیتا ہے ع

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

اس نفسی نفسی کے عالم میں ہم خود کو سنبھال سکیں تو وہ بھی بہت ہے اور اسی کوشش میں ہم اس ’’یک جہتی‘‘ کو زیربحث لائے ہیں کہ یہ ہے کیا اور کس طرح کی جاتی ہے اس کے لیے کسی وضو تییمم کی بھی ضرورت ہوتی ہے یا ایسے ہی کی جا سکتی ہے لیکن سب سے اہم بات اس ’’جہت‘‘ کا مسئلہ ہے یعنی کشمیر کی طرف منہ کر کے کی جائے گی یا قبلہ رو ہو کر اور یا آسمان کی طرف منہ کر کے۔ لیکن اس میں شک و شبہ یوں آ گیا ہے کہ موجودہ حالات میں تو امریکا اور ٹرمپ کی طرف منہ کرکے یکجہتی کا سلسلہ ہے یعنی ع

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

بہرحال ہمیں تو اتنی استدعا کرنا تھی اور کر دی اور اگر وزیراعظم ہمارے ساتھ تھوڑی سی یک جہتی کر کے یہ بھی مشتہر کریں کہ تیس منٹ یاکتنے بھی ڈیوریشن کی یک جہتی کرنے کا درست طریقہ کیا ہے، اس تیس منٹ کے وقت میں ہمیں صرف خاموش کھڑے رہنا ہو گا ،کہیں دھرنا دینا ہو گا یا کچھ اور حرکات سکنات کرنا ہوں گے اور یہ بھی کہ اس دوران میں صرف کشمیر ،کشمیر ،کشمیر کرنا ہوگا یا کچھ اور بھی بولنا یا پڑھنا ہو گا۔کیا یہ کوئی ’’یوگا‘‘ قسم کی مشق ہے اگر یوگا کی مشق ہے تو کس ’’آسن‘‘ میں کرنی ہو گی، کپال بائی میور آسن یا کوئی اور۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔