سیکولرگاندھی اور مودی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 9 اکتوبر 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ہندو انتہاپسندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا۔

وزیر اعظم عمر ان خان نے اپنی اسی تقریر میں مہاتما گاندھی کو عظیم لیڈر قرار دیا۔ عمران خان نے ایسے موقع پر جدید بھارت کے بانی کو خراج عقیدت پیش کیا جب گاندھی کی 150 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ گاندھی جی کا شمار تحریک آزادی کے نامور رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ گاندھی 30 جنوری 1948کو انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس جس کے پیروکار بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ہیں کے ایک رکن نتھو راموپسے Nathu Ramoopse  نے اس بناء پر قتل کیا کہ گاندھی نے بھارتی حکومت کے پاکستانی اثاثہ حکومت کو منتقل نہ کرنے کے فیصلے کے خلاف مرن بھرت رکھا ہوا تھا۔

پاکستان کے بانی محمد علی جناح جو اس وقت گورنر جنرل کے عہدے پر فائز تھے نے گاندھی کے قتل کی مذمت کی۔ انھوں نے قومی پرچم سرنگوں کرنے کے احکامات جاری کیے۔ حکومت  پاکستان نے گاندھی کے قتل کے سوگ میں پورے ملک میں ایک دن کی تعطیل کا اعلان کیا، یوں قومی اور بین الاقوامی رہنماؤں کے انتقال پر قومی سوگ منانے اور تعطیل کی روایت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کے ایک پسماندہ علاقے کاٹھیاواڑ کے گاؤں پور بندر میں 2 اکتوبر 1869 کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی تعلیم ہندوستان میں حاصل کی۔ بیرسٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے ولایت (برطانیہ) گئے۔ لندن  سے بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی۔

انھوں نے 1893 میں 22 سال کی عمر میں اپنی زندگی کا آغاز وکالت کے شعبہ سے کیا۔ بیرسٹر گاندھی نے اپنی عملی زندگی کے دو سال ناکامی میں گزارے۔ ان کی وکالت مقبول نہ ہو سکی، پھر گاندھی قسمت آزمانے کے لیے جنوبی افریقہ چلے گئے۔ جنوبی افریقہ میں 1893 میں گاندھی نے ایک ہندوستانی مرچنٹ کا مقدمہ لڑا۔ وہ 21 سال افریقہ میں رہے۔ گاندھی نے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف پر امن احتجاجی تحریک شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب جنوبی افریقہ میں سفید فام اقلیتی گروہ کی آمریت تھی۔ جنوبی افریقہ میں اس زمانے میں سیاہ فام باشندوں کو انسانوں کا درجہ حاصل نہیں تھا اور رنگ دار شہریوں سے امتیازی سلوک رکھا جاتا تھا۔

جنوبی افریقہ میں اقتدار پر قابض سفید فام اقلیت نے ایک جکڑا ہوا نظام طاقت کے ذریعے قائم کیا ہوا تھا۔ اس نظام میں کسی قسم کی مزاحمتی تحریک کی گنجائش نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ گاندھی کو بد ترین ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ گاندھی 21 سال تک جنوبی افریقہ میں رہے۔ 1915 میں 45 سال کی عمر میں ہندوستان آئے۔ انھوں نے نسلی مذہبی تعصبات، خواتین کے حقوق اور وطن کی آزادی کے لیے تحریکیں منظم کی۔ وہ 1921 میں کانگریس میں شامل ہوئے۔

اسی جماعت کی قیادت میں شامل ہوئے۔ جب مولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خان وغیرہ نے خلافت کے ادارے کو بچانے اور برطانوی استعمار کے عثمانیوں کے خلاف عزائم کے خلاف تحریک شروع کی تو گاندھی جی نے خلافت تحریک کی بھرپور حمایت کی۔ تحریک خلافت کے دوران مساجد اور مندروں میں بڑے بڑے سیاسی اجتماعات ہوئے جن سے ہندو اور مسلمان اکابرین نے خطاب کیا۔  یہ مذہبی ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال تھی۔ گاندھی جی نے مذہب کو انگریز استعمار کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ محمد علی جناح اس وقت کانگریس کے رکن تھے۔ وہ سیاست میں مذہب کے استعمال کے خطرناک اثرات کے نقصانات کو محسوس کر رہے تھے۔ جناح صاحب نے خلافت تحریک کو غیر منطقی قرار دیا۔ ان کا مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی سے اس موضوع پر طویل تلخ مکالمہ ہوا۔ محمد علی جناح نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کر لی۔

گاندھی نے 1921 میں 51 سال کی عمر میں جدید لباس سے ناتا توڑ دیا۔ انھوں نے روایتی دھوتی استعمال کرنا شروع کردی۔ ہندوستان کے دیہات میں آباد اکثریت سے تعلق کو اجاگر کرنے کے لیے چرخہ کاتنا شروع کردیا۔ گاندھی نے مہینوں مرن بھرت رکھے اور اپنی خوراک کو سبزیوں تک محدود کیا۔ گاندھی نے ہندوستان اور جنوبی افریقہ کی جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

گاندھی نے نمک پر ٹیکس لگانے کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کی۔ اسکالر ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کا پیغام گاؤں گاؤں پہنچایا۔ انھوں نے غریب طبقات کو متحرک کرنے میں جو کردار ادا کیا اس نے ہندوستان کے عوام کی جدوجہد کو ایک نئی جلا بخشی۔ گاندھی جی ہندوستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات سے سخت مایوس تھے، انھوں نے اپنے مرن بھرت کا آغاز تو کیا ان کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی حکومت دہلی میں تمام مساجد کی بحالی کو یقینی بنائے اور مسلمانوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی ہو اور ان کا معاشی بائیکاٹ ختم کیا جائے۔

گاندھی جی کی کوششوں سے دہلی میں آباد دو لاکھ ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ گاندھی جی حضرت امام حسینؓ کی تعلیمات سے متاثر تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت امام حسینؓ کی تعلیمات پر عمل کرے تو یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

معروف صحافی کلدیپ نیر نے لکھا ہے کہ محمد علی جناح اور گاندھی کا مقصد دو دشمن ملک قائم کرنا نہیں تھا بلکہ علاقائی استحکام کو یقینی بنانا تھا، ان رہنماؤں کے ذہن میں امریکا اور میکسیکو کی مثال تھی۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ گاندھی کا ارادہ پاکستان کا دورہ کرنے کا تھا، شاید گاندھی کے یہ عزائم ہندو انتہا پسندوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے اور گاندھی پاکستان کا دورہ نہیں کر پائے۔ ہندو انتہا پسند دانشور سوارگر نے ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس قائم کی۔ آر ایس ایس کا مقصد ہندوستان کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے، بھارت کے معماروں گاندھی اور نہرو نے ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست میں تبدیل کیا تھا اور ایک ایسا آئین بنایا تھا جس میں تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

بھارت کے آئین کا آرٹیکل 370 جو جموں اور کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے وہ دراصل بھارتی ریاست کے سیکولر کردار کو واضح کرتا تھا، یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ وہاں کے حکمران گاندھی جی اور نہرو کی تعلیمات کی نفی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنے خطاب میں نئی ریاست کے سیکولر خد وخال کو واضح کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں گاندھی کو خراج عقیدت پیش کر کے ایک تاریخی حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ بھارت و پاکستان کی بقا و ترقی سیکولر ریاستوں میں ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔