امریکا پر پولیو جیسی پراسرار بیماری کا حملہ

ویب ڈیسک  بدھ 9 اکتوبر 2019
پولیو کی طرح ’’اے ایف ایم‘‘ بھی زیادہ تر بچوں کو نشانہ بناتی ہے جو کئی ماہ تک اس سے متاثر رہ سکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پولیو کی طرح ’’اے ایف ایم‘‘ بھی زیادہ تر بچوں کو نشانہ بناتی ہے جو کئی ماہ تک اس سے متاثر رہ سکتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

واشنگٹن: اس وقت جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پولیو کو ختم کیا جاچکا ہے، امریکا میں پولیو سے ملتی جلتی ظاہری علامات والی ایک اور بیماری سامنے آگئی ہے جسے مختصراً ’’اے ایف ایم‘‘ کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ 2020 میں یہ بیماری امریکا میں ایک بار پھر وبائی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں یہ بیماری تین مرتبہ وبائی انداز میں پھیل چکی ہے۔

اس بیماری کا پورا نام ’’اکیوٹ فلیسڈ مائیلائیٹس‘‘ (Acute Flaccid Myelitis) ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور مرکزی اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر متاثرہ فرد کے بازوؤں اور ٹانگوں کو شدید کمزور کردیتی ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات وقتی ہوتے ہیں جو چند دنوں میں ختم ہوجاتے ہیں لیکن بچوں میں اس کا دورانیہ کئی ماہ تک بھی دیکھا گیا ہے۔

سائنسدان اب تک یہ تو نہیں جان پائے ہیں کہ آخر اے ایف ایم کی اصل وجہ کیا ہے، لیکن تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ اس بیماری میں وائرس کی ایک خاص قسم ’’اینٹیرو وائرس‘‘ سے تعلق رکھنے والے چند وائرسوں کا کردار سامنے آیا ہے۔ البتہ ابھی اس خیال کی حتمی تصدیق ہونا باقی ہے۔

اے ایف ایم کی علامات میں بازو اور ٹانگ کو حرکت دینے میں مشکل سے لے کر سانس لینے میں شدید دشواری تک شامل ہیں جو حرکت دینے اور سانس لینے میں مدد کرنے والے پٹھوں میں کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

2014 سے اب تک اس بیماری کے جتنے بھی مریض سامنے آئے ہیں، ان میں سے اکثر کو مذکورہ بالا علامات کے علاوہ بخار، کھانسی، بہتی ہوئی ناک، اُلٹی اور دست کی شکایات بھی تھیں؛ جن میں سے بیشتر موسمی زکام کی علامات بھی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ سال میں ’اے ایف ایم‘ تین مرتبہ وبائی صورت اختیار کرچکی ہے، اور ہر مرتبہ اس کے متاثرین کی تعداد پہلے سے زیادہ دیکھی گئی ہے۔ پہلے پہل 2014 میں اس کے 120 مریض سامنے آئے، 2016 میں یہ تعداد بڑھ کر 153 ہوگئی جبکہ 2018 کی وبائی صورتِ حال میں اس بیماری نے 236 افراد کو متاثر کیا۔ پولیو کی طرح اے ایف ایم کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت بچوں کی تھی۔

اے ایف ایم کا وبائی پھیلاؤ دیکھتے ہوئے ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ بیماری 2020 میں ایک بار پھر حملہ آور ہوگی؛ اور ممکن ہے کہ اب کی بار اس وبا سے شکار ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔